۱۲ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۲ شوال ۱۴۴۵ | May 1, 2024
مولانا غافر رضوی

مردوں کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کا مبعوث کیا جانا اور صنف نازک کے لئے صرف فاطمہ زہرا کا انتخاب، دختر رسول کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں مشغول مبلغ دین حجۃ الاسلام سید غافر رضوی چھولسی نے مقام فاطمه زہرا سلام الله علیہا کے حوالے سے کہا کہ بضعۃ الرسول جناب بتول سلام اللہ علیہا کے مرتبہ تک طائر فکر کی پرواز ممکن نہیں کیونکہ یہ وہ خاتون ہے جس نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی پیغمبری کا عہدہ تن تنہا سنبھالا۔ تاریخ گواہ ہے کہ صنف نسواں کی اکیلی پیغمبر کا نام ہے فاطمہ۔

مولانا غافر رضوی نے کہا کہ مردوں کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کا مبعوث کیا جانا اور صنف نازک کے لئے صرف فاطمہ زہرا کا انتخاب، دختر رسول کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

دوسری جانب سے حدیث قدسی میں ارشاد ہو رہا ہے:
" یا احمد لولاک لما خلقت الافلاک و لولا علی لما خلقتک و لولا فاطمه لما خلقتکما ". (الأنصاری الزنجانی، الموسوعة الکبرى عن فاطمة الزهراء، ۱۴۲۸ق، ج ۲۰، ص ۵۱۶).

اے میرے حبیب! اگر آپ نہ ہوتے تو میں زمین و آسمان اور مافیہا کو خلق نہ کرتا، اگر علی نہ ہوتے تو میں تمہیں خلق نہ کرتا اور اگر فاطمہ نہ ہوتیں تو میں تم دونوں کو خلق نہ کرتا.
حدیث قدسی تو ابھی پوری نہیں ہوئی لیکن ہمارا شاہدِ مثال یہیں پر ہے کہ فاطمہ زہرا اس خاتون کا نام ہے کہ اگر اس کا وجود نہ ہوتا تو نہ نبی ہوتے نہ علی. گویا نبوت، امامت اور ہدایت تمام چیزیں وجود فاطمہ کی مرہونِ منّت ہیں۔

مولانا نے کہا کہ اگر ایسی خاتون کے متعلق انسان کچھ سوچنا بھی چاہے تو اس کی فکر کو آب کوثر سے وضو کرنا چاہیئے۔

کچھ لوگ جھوٹی شہرت پانے کے لئے عظمت اہلبیت پر انگشت نمائی کرتے ہیں لیکن شاید انہیں یہ معلوم نہیں کہ یہ وہ گھرانہ ہے جس کے ہر فرد کی خاک قدم شاہانہ تخت و تاج سے زیادہ قیمتی ہے، اگر مشہور ہونا ہے تو ان کے قدموں کی خاک کو توتیائے چشم بناؤ، ان کے دہلیز کی مٹی کو اپنی پیشانی کی زینت بناؤ

مزید اپنے بیان میں کہا کہ کمال تو یہ ہے کہ لوگ تاریخ جاننے کے بعد بھی ایسی بڑی غلطی کر بیٹھتے ہیں کہ چاروں طرف سے لعنتوں کے تیر برسنے لگتے ہیں۔
کس کو معلوم نہیں کہ چودہ سو سال پہلے شان فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا میں گستاخی کرنے والوں پر آج بھی لعنتوں کی بوچھار ہوتی ہے؟
لیکن یہ جاننے کے باجود شاید جلالی کے لام پر تشدید آگئی جس کی شدت نے اسے دھوبی کا کتا بنادیا جو گھر کا رہا نہ گھاٹ کا۔

در حقیقت شہرت کی دو قسمیں ہوتی ہیں: ایک قسم تو یہ ہے کہ نام مشہور ہوتا ہے اور دوسری قسم بد نامی ہے۔

اب ہمیں یہ خود منتخب کرنا ہوگا کہ نام چاہتے ہیں یا بدنام ہونا چاہتے ہیں!. اگر نام چاہیئے تو در اہلبیت کا گدا بننا پڑے گا اور اگر در اہلبیت کو چھوڑ کر نام کمانے کی ناکام کوشش کی جائے گی تو لعنتوں کے تیروں سے دامن کردار ایسا چھلنی چھلنی ہوجائے گا کہ دنیا کا کوئی بھی درزی اس کو رفو نہیں کر پائے گا۔

دشمنی کی بھی انتہا ہوتی ہے! سب کچھ تو لوٹ کر کھا لیا، باغ فدک تک نہیں چھوڑا لیکن اس کے باوجود نفرت اس عروج پر ہے کہ فضائل اہلبیت برداشت نہیں ہو رہے ہیں!.
لیکن اب شاید جلالی اور جلالی جیسے کچھ ضمیر فروش انسان کے لبادہ میں حیوان صفت افراد خواب غفلت سے جاگ گئے ہوں گے اور ان کی سمجھ میں یہ حقیقت بھی آگئی ہوگی کہ شرافت کا ناجائز فائدہ اٹھانا، جائز نہیں ہے.
"والسلام علیٰ من اتبع الھدیٰ"

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .