تحریر: سویرا بتول
حوزہ نیوز ایجنسی | اگر آج زینبیون کی مدد سے دہشتگردوں کو عراق اور شام میں شکست نہ دی جاتی تو آج ان کا مقابلہ اسلام آباد، پشاور، کراچی اور لاہور کی سرزمین پر کرنے کی تیاری ہو رہی ہوتی۔ لہذا مدافعین حرم وہ حقیقی ہیروز ہیں کہ جنہوں نے پوری دنیا کو اس عظیم دہشتگرد گروہ داعش سے نجات دلائی۔ کیا دنیا کو نہیں معلوم کہ یہ داعش وہی دہشتگرد گروہ ہے کہ جس نے ماؤں کے سامنے اُن کی اولاد کو ذبح کیا، کیا یہ وہی گروہ نہیں ہے جس نے انسانوں کو پانی میں ڈبو کر مارا، جس نے اتنے انسان قتل کیے کہ دریائے دجلہ کا رنگ تبدیل ہوگیا، جس نے جہاد النکاح کے نام پر دین میں بدعت ایجاد کی اور مسلمانوں کی عصمت سے کھیلنے کا بہانہ بنایا۔ ان کا کون کون سا جرم بیان کیا جائے، جس سے ان کی دہشتگردی کو ثابت کیا جائے۔
کیا آج کی دنیا کا نیا نظام دہشت گردی کے مقابلے پر جنگ کے نام پر ہی نہیں چل رہا؟ کیا آج ہمارے ملک کا پہلا سکیورٹی تھریٹ دہشت گردی ہی نہیں ہے؟ اگر یہ سب درست ہے تو دہشت گردی سے مقابلے کے اصلی ہیروز یہی جان بکف مدافعین حرم ہیں کہ جنہوں نے داعش کے جن کو کنٹرول کیا اور اسکو چاروں شانے زمین پر چت کر دیا۔ زینبیون وہ بابصیرت نوجوان ہیں جنہوں نے سوات کی وادیوں سے لیکر حلب کے میدانوں تک لبیک یاحسینؑ اور لبیک یازینبؑ کی صدائیں بلند کرتے ہوئے تکفیریوں کو واصل جہنم کیا اور ثابت کر دیا کہ ارض پاک وطن صرف اور صرف حسینیوں کا ہے اور اسلام کا حقیقی چہرہ مسخ کرنے والے شقی القلب داعشیوں کا ٹھکانہ صرف اور صرف جہنم ہے۔
زینبیون حقیقت میں وہ حسینی نوجوان تھے، جو اپنی جوانی خاطر میں لائے بغیر حرمِ نواسی رسول ثانی زہرا جنابِ زینب سلام علیہا کے دفاع میں میدان میں حاضر ہوئے اور اسی وجہ سے ان کا شعار "کلنا عباسک یا زینب" ہے۔ داعش کے مقابلے میں کھڑے ہونے والے نوجوان وہ عظیم بین الاقوامی ہیروز ہیں کہ جنہوں نے دنیا میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عملی اقدام کیے اور جو حقیقی طور پر اینٹی ٹیرارزم مجاہدین ہیں۔ مگر زینبیون کی مظلومیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اول تو انکے جسدِ پاک کو اپنے وطن نہ لایا گیا، دوم وہ پیروان عباس حسینی جوان جنہوں نے اکیسویں صدی میں یزیدیت اور یہودیت دونوں کو بیک وقت شکست دی، اُن پر آئے روز بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے۔
لوگوں نے ان کو کئی نام دیئے، ان کو طعنے اور الزام دیئے، ان پر فتوے اور تہمتیں باندھیں، مگر یہ منتخب شدہ لوگ تھے۔ یہ اپنے راستے اور منزل سے آگاہ تھے۔ یہ شہادت کے متمنی تھے۔ یہ کربلائی تھے۔ یہ زینبی تھے، یہ حسینی تھے، یہ خیمہ حسین کے محافظین تھے، یہ مدافعان حرم تھے۔ یہ اہلِ دل تھے۔ اہل ِمعرفت تھے، اہلِ شعور تھے، اہل درد تھے۔ اس مادی اور چکا چوند دنیا میں یہ مہمان کیطرح آئے۔ ان کا جینا اور مرنا کربلائی اور زینبی تھا۔ ان کی تعداد بھی اس بھری دنیا میں کچھ زیادہ نہ تھی بلکہ یہ گنے چنے لوگ تھے۔ شاید انگشت شمار، اس کے باوجود یزیدیوں کو ان کا کردار قبول نہ تھا۔ ہجرت کے درد سینے میں سجائے یہ مہمان کے طور پہ ہی اپنے آبائی وطن سے دور سپرد لحد ہوئے۔
لٹ کے آباد ہے اب تک جو وہ گھر کس کا ہے
سب سے اونچا ہے جو کٹ کر بھی وہ سر کس کا ہے
تخت والوں نے مورخ بھی خریدے ہونگے
ذکر دنیا میں مگر شام و سحر کس کا ہے
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔