حوزہ نیوز ایجنسی | خاتون جنت جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیھا کی ولادت ۲۰/ جمادی الاخریٰ ۵ھ بعثت میں ہوئی۔ یعنی ہجری سنہ شروع ہونے سے ۸ سال پہلے ۔ ایک روایت کی بنا پر آپ کی شہادت بھی اسی مہینہ کی ۳ ؍ تاریخ کو ہوئی ہے۔ اس طرح اگر جمادی الاخری کو شاہزادی کا مہینہ اور رجب کو مولیٰ کا مہینہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا شعبان کو حضورؐ اور مضان کو خدا نے اپنا مہینہ کہا ہے۔ اس طرح ایک تسلسل قائم ہو جاتا ہے۔ روایتوں کا اختلاف ختم نہیں ہو سکتا۔ البتہ کوئی محقق اپنا قول فیصل دے کر کسی روایت کو صحیح اور کسی روایت کو غلط قرار دے سکتا ہے۔ چنانچہ یہ بات بھی زیربحث ہے کہ آپؐ حضورؐ کی اکلوتی بیٹی تھیں یا آپ کی تین بہنیں اور تھیں جن کے نام زینبؐ ، ام کلثومؐ اور رقیہ ہیں۔ اس میں کوئی شبہ ہیں ہے کہ یہ تینوں لڑکیاں حضورؐ کے گھر میں پلی بڑھی اور پروان چڑھی تھیں اور ان کے غم نے حضورؐ کو بہت مغموم کیا تھا۔ لیکن یہ حضورؐ کی بیٹیاں تھیں یا جناب خدیجہؑ کی ۔ لیکن اس سلسلہ کا سب سے جامع اور مانع اور مکمل فقرہ مولانا عینی شاہ نظامی کا ہے جو مصور فطرت خواجہ حسن نظامی دہلوی کے شاگرد تھے اور حیدر آباد میں مقیم تھے۔ انھوں نے اس موضوع پر لکھا تھا کہ رسولؐ کی بیٹی ہونا اور ہے اور فاطمہ زہراؐ ہونا اور ہے۔ آپ کے کمالات نے آپ کو فاطمہ زہراؐ بنایا ہے۔ صرف رسولؐ کی بیٹی ہونے نے آپ کو فاطمہ زہراؐ نہیں بنایا ۔ کسی نے اسی وزن اور قافیہ میں یہ بھی اچھی بات کہی ہے کہ شریک حیات ہونا اور ہے اور رفیق مقصد ہونا اور ہے۔ خدیجہؑ صرف شریک حیات پیغمبرؐ نہ تھیں بلکہ رفیق مقصد نبوت بھی تھیں۔ شاہزادیؑ کے سلسلہ میں کسی مختصر مضمون میں کچھ لکھنا ممکن نہیں ہے مگر اتنا ذکر تو کم از کم کرنا ہی ہے کہ آپ جب تشریف لے جاتی تھیں تو حضورؐ آپ کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے۔ حضورؐ کا یہ قیام احترام تھا۔ اہتمام تھا۔ محبت تھا۔ اعزا ز تھا یا سب کچھ تھا۔ اسے حضورؐ رہی بہتر جانتے ہیں لیکن ہم پر حضورؐ کی تاسی لازم ہے لہذا شاہزادی کا احترام کرنا۔ آپ کی ذات کے لئے اہتمام کرنا ۔ آپ کے کردار سے محبت کرنا۔ آپ کی تعظیم کرنا ہم مسلمانوں کا فرض ہے۔
حضورؐ کا ایک خصوصی طرز عمل اور بھی تھا کہ آپ جب سفر پر روانہ ہوتے تھے تو سب سے رخصت ہوتے اور سب سے آخر میں اپنی بیٹی سے ملتے تھے اور جب سفر سے واپس آتے تھے تو سب سے پہلے باپ بیٹی ہی کا چہرہ دیکھتا تھا۔
آپ کے بارے میں حضورؐ کی بے شمار حدیث کتب حدیث میں موجود ہیں خصوصاً صحیح بخاری میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا فاطمہؐ میرا ایک حصہ ہے جس نے فاطمہؐ کو غضبناک کیا اس نے مجھے غضبناک کیا۔ اس حدیث اور دوسری حدیثوں کی روشنی میں آپ کی ذات گرامی ایک فیصلہ کن ذات ہے۔ آپ جس پر ناراض اور غضبناک ہو جائیں اس کا شمار مغضوب علیہم میں ہو جائے گا جبکہ ہم ہر نماز میں مغضوب علیہم اور ضالین سے بچنے کی دعا مانگتے ہیں۔اگلی پچھلی شخصیتوں کے حق وباطل پر ہونے کے لئے یہ دیکھنا کافی ہوگا کہ شاہزادی اس سے ناراض ہیں یا نہیں جس طرح جناب ابوذر کے لئے حضورؐ نے فرمایا کہ زمین کے اوپر آسمان کے نیچے ابوذر سے زیادہ سچا کوئی نہیں ہے۔ اس حدیث نے جناب ابوذر کی شخصیت کو فیصلہ کن بنا دیا ہے۔ کدھر حق ہے کد ھر باطل ہے اس کی ایک پہچان یہ ہوگی کہ دیکھا جائے کہ ابوذر کدھر ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ جناب ابوذر کے لئے ہر وہ شخص ناقابل برداشت تھا جو اسلام کے احکام کا پابند نہ ہو اور یہ بھی سب جانتے ہیں شاہزادی فاطمہ ؐ بھی اس سے بیزار ہو جاتی تھیں جو دین کے احکام کے سامنے سر نہ جھکائے بلکہ اپنے مقصد کے لئے دین میں نئی نئی باتیں پیدا کرے۔
لہذا اگر ہم غضب خدا ، غضب نبیؐ ، غضب فاطمہؐ ،غضب امامؐ ،غضب ابوذرؒ سے بچنا چاہتے ہیں تو ہم کو ہر حکم دین کی تعمیل کرنا ہوگی اور دین میں طرح طرح کی نئی باتیں پیدا کرنے سے گریز کرنا ہوگا اور ان لوگوں سے اپنے کو الگ رکھنا ہوگا جو دین میں یا مومنین میں رخنہ ڈالیں۔
از مقالات خطیب اعظمؒ
جلد: ۳ ، صفحہ ۵۳
ناشر: تنظیم المکاتب ، گولہ گنج ، لکھنؤ