۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
محمد حسین بہشتی حوزہ علمیہ مشہد مقدس  

حوزہ/ ایران میں برپا ہونے والا انقلاب اور اس انقلاب کے فوراً بعد ہی مذہبی،سیاسی،سماجی اور ثقافتی سطح پر جو حالات رونما ہوئے وہ عالمی توقعات اور تصورات کے بر عکس ہیں تاہم اس حقیقت پر سب متّفق ہیں کہ انقلاب اور انقلاب کے بعد کی کامیابیوں کا سہرا ایران کے عظیم مذہبی اور سیاسی رہنما حضرت امام خمینی (رح) کے سر پر ہے۔

تحریر: مولانا محمد حسین بہشتی

یہ وہ زندہ حقیقت ہے جس سے دشمن نے بھی مانا
ملی اسلام کوعزت خمینی کی قیادت سے! شاعر 

حوزہ نیوز ایجنسی | ایران میں برپا ہونے والا انقلاب اور اس انقلاب کے فوراً بعد ہی مذہبی ،سیاسی،سماجی اور ثقافتی سطح پر جو حالات رونما ہوئے وہ عالمی توقعات اور تصورات کے بر عکس ہیں تاہم اس حقیقت پر سب متّفق ہیں کہ انقلاب اور انقلاب کے بعدکی کامیابیوں کا سہرا ایران کے عظیم مذہبی اور سیاسی رہنما حضرت امام خمینی (رح) کے سر پر ہے۔حضرت امام خمینی کی جد و جہد نے ایران میں جس انقلاب کو برپا کیا اس پر ساری دنیا انگشت بدنداں ہے۔ دنیا کی سیاست میں تہلکہ مچا دینے والے اس معمر درویش صفت رہنما حضرت امام خمینی کی زندگی شجاعت اور بے باکی کے ساتھ ساتھ ایک سادہ اور دکھ بھری داستان ہے۔ حضرت امام خمینی (رح) 20 جمادی الثانی 1320ھ 1900ء کو ایران کے شہر خمین میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد کا نام شہید مصطفی موسوی اور دادا کا نام سید احمد موسوی تھا۔ایک روایت کے مطابق آپ کے دادا کا تعلق مشہور و معروف عالم ،محقق اور مصنف سید میرحامد حسین نیشاپوری کےخاندان سے ہے جو لکھنؤ میں آباد تھے ۔سید مصطفی امام خمینی کے والد نے ابتدائی تعلیم نجف اشرف میں حاصل کی۔ان کا شمار کم عمری میں ہی نامور علماء اور مجتہدین میں ہونے لگا۔تعلیم سے فراغت کے بعد وہ خمین چلے آئے ۔آیت اللہ سید مصطفی موسوی نہ صرف عوام کی رہنمائی کے فرائض انجام دیتے تھے بلکہ وہ اس وقت کے جاگیردارانہ نظام کے بھی سر سخت مخالف تھے چنانچہ آپ کے علاقے کے ایک مشہور جاگیر دار کی سازش کے تحت صرف 47 سال عمر میں آپ کو قتل کردیا گیا۔شہید سید مصطفی موسوی نے اپنے پیچھے چھے اولاد چھوڑیں جن میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ان میں سے ایک امام خمینی تھے۔والد کی شہادت کے وقت امام خمینی صرف نو ماہ کے تھے ۔اس لیے آپ کی ابتدائی تربیت آپ کی والدہ گرامی بانو حاجرہ اور پھوپھی بانو صاحبہ نے کی لیکن ان دونوں کا بھی کچھ عرصہ بعد انتقال ہوگیا۔حضرت امام خمینی نے ان مصائب اور مشکلات میں بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ۔تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ حوزہ علمیہ قم کے معلم اور استاد مقرر ہو گئے ۔جلد ہی آپ کا شمار قم کے برجستہ اور ممتاز علماء میں کیا جانے لگا ۔عوام میں دینی رجحانات کو فروغ دینے کے لئے آپ نے خصوصی اجتماعات کا آغاز کیا۔آپ کی دلفریب خطابت اور عالمانہ گفتگو سے یہ اجتماعات اس قدر مقبول ہوئے کہ بیرون قم سے بھی لوگ جوق در جوق ان اجتماعات میں شرکت کرنے لگے۔ امام خمینی کی عوام میں بڑھتی شہرت سے رضا خان کے کان کھڑے ہوئے اس نے پولیس کے ذریعے ان اجتماعات کو ختم کرنے کی ہدایت کی لیکن کامیاب نہیں ہوا۔یہ حکومت سے ان کی پہلی جھڑپ تھی جس کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔ اس وقت ان کی زراعت  اور معیشت مفلوج  ہو کر گئی تھی درسگاہوں میں قرآن کی جگہ "انقلاب سفید" پڑھایا جارہا تھا اس وجہ سے عوام دین کی راہ سے دور ہوتے جارہے تھے اس زمانے میں علماء کرام کا مقصد صرف دین کی خدمت تھا ، جبکہ امام خمینی اور ان کے رفقاء اس نظریے کے سخت مخالف تھے وہ سیاست میں علماء کرام کی شرکت ضروری سمجھتے تھے اور ایک ایسی حکومت کے قیام کو ضروری گردانتے تھے جو نہ صرف خود شعائر اسلام  کی پابند ہو بلکہ عوام کو بھی ان کی طرف راغب کرے۔دوسری جانب امریکہ ،ایران میں تیل کے مفادات کی وجہ سے شہنشاہیت کو قائم رکھنا چاہتا تھا چنانچہ 1961ء میں شہنشاہ ایران نے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ امریکہ اس صورت میں ایران  کو امداد دے سکتا ہے جب اس کی تجویز کردہ اصلاحات ایران میں نافذ ہوں۔ اگر چہ یہ تجاویز" انقلاب سفید"کے نام سے نافذ کی گئیں لیکن انہیں امریکی حکومت کے بجائے شہنشاہ ایران کے زور فکر کا نتیجہ بتایا گیا ۔امام خمینی اور دیگر علمائے قم نے "انقلاب سفید" کے پس منظر اور اس کے منفی اثرات سے عوام کو آگاہ کیا۔شہنشاہ اور وزیراعظم کے نام انہوں نے"ملت اسلام کی  خیرخواہی کی ہدایت پر اعلی حضرت کو یہ مشورہ دیا کہ وہ چاپلوس اورخوشامد عناصر پر بھروسہ نہ کریں وہ تو اسلام اور ملک کے قانون اساسی کے خلاف اپنے تمام اقدامات کو اعلی حضرت سے منصوب کرکے خود بری الذمہ ہونا چاہتے ہیں وہ ناجائز قوانین وضع کرکے قانون اساسی کو ختم کرنا چاہتے ہیں اب مسلمان عوام اس بات کے منتظر ہیں کہ آپ وزیراعظم کو تاکید کریں کہ وہ  اسلامی قانون اور ملک کے قانون اساسی کی پابندی کریں اور اس نے قرآن مقدس کے بارے میں جس جسارت سے کام لیا ہے اس سے استغفار کریں ورنہ مجھے اپنے اس کھلے خط میں آپ کے نام کے ساتھ دوسرے الفاظ کا سہارا لینا پڑے گا۔
یہ شہنشاہ کی حکومت سے براہ راست  ٹکر لینے کی ابتداء تھی ۔ایک اور موقع پر حضرت امام خمینی نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا کہ حکومت،اسلام کے اساسی اور مقدس احکام سے تجاوز کرنا چاہتی ہے اور مساوات مرد وزن کا نعرہ لگا کر خواتین کو بے حیائی اور بے راہ روی کی راہ پر ڈالنا چاہتی ہے ۔ میرے نزدیک بھلائی اسی میں ہے کہ یہ استبدادی حکومت ،احکام اسلام سے انحراف کی بناء پر ختم کردی جائے اور ایسی حکومت قائم ہو جو احکام اسلام کی پابند اور ملت ایران کی غم خوار ہو ۔ علماء کرام کی اس جدوجہد کو شہنشاہ نے اپنے اقتدار کےلیے بہت بڑا خطرہ تصور کیا ۔اس نے علماء کرام پر نظر رکھی۔ان کے اجتماعات کو درہم برہم کیا ان کو گولیوں کا نشانہ بنایا اور انہیں قید و بند کی صعوبتوں سے بھی گزرنا پڑا ان حالات میں آیت اللہ محسن طباطبائی اور آیت اللہ حکیم نے امام خمینی اور دیگر علماء کو عراق ہجرت کرنے کی دعوت دی ۔امام خمینی نے ترک وطن کرنے کے بجائے ایران میں ہی رہ کر شہنشاہ کی حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے کو مناسب خیال کیا بعد میں امام خمینی اور ان کے رفقاء شاہ کی حکومت کے خلاف بر سر پیکارہوگئے۔12محرم بمطابق 1963ء کو امام خمینی کو قم سے گرفتار کر لیا گیا مرد و زن،بچے،جوان اور بوڑھے غرض جس نے بھی یہ خبر سنی وہ سب سڑکوں پر نعرہ لگاتے ہوئے نکل آئے۔
یہ نعرہ قم سے نکل کر ایران کے دوسرے شہروں میں بھی پہنچ گیا۔احتجاج کرنے والوں پر ٹینک،توپ اور ہوائی جہازوں سےحملے کئے لیکن یہ ہنگامے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی رہے عوام کے اس شدید رد عمل کے باعث بالآخر شہنشاہ کی حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی اور12ربیع الاول 1383ھ کو انہیں رہا کیا گیا عوام نے ان کی رہائی کا زبردست خیر مقدم کیا اس گرفتاری کے بعد حکومت کے خلاف ان کے لہجے میں مزیدطاقت پیدا ہو گئی عوام میں اپنی بے پناہ مقبولیت کے باعث وہ شہنشاہ کےلیے قطعی ناقابل برداشت ہوگئے ان دنوں یہ قیاس کیا جارہا تھا کہ شہنشاہ شاید کسی وقت امام خمینی کو پھانسی دے دے۔لہذا اس اندیشے کے پیش نظر قم کے پانچ آیت اللہ نے رسمی طور پر امام خمینی کو "آیت اللہ "بنانے کا اعلان کردیا البتہ آپ مجتہد تھے۔ ایران کے رواج کے مطابق کسی آیت اللہ کو پھانسی نہیں دی جاسکتی تھی اس لئے شہنشاہ نے مجبورا امام خمینی کو 1962ء میں جلا وطن کرکے ترکی بھیج دیا ۔ترکی میں ایک سال قیام کے بعد آپ عراق چلے گئے ۔وہاں بھی آپ نے شہنشاہ کے خلاف اپنی مہم جاری رکھی ۔ان کے خطابات ٹیپ ریکارڈ کے ذریعے ایران بھیجتے رہے اسی دوران رضاشاہ کی خفیہ پولیس "ساواک"کے  کارندوں نے آپ کے بڑے فرزند مصطفی خمینی کو عراق ہی میں شہید کرادیا۔ 1978ء میں ایران کے ایک سرکاری اخبار میں مضمون شائع کیا گیا جس میں امام خمینی کی شان میں انتہائی گستاخ آمیز الفاظ استعمال کئے گئے اور ان کے کردار کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ۔عوام رضاخان کی حکومت سے پہلے ہی بیزار تھے اس مضمون سے عوام سڑکوں پر نکل آئے عراقی حکومت پہلے ہی بہانے کی تلاش میں تھی وہ امام خمینی کی مقبولیت عراقی عوام میں ان کے اثرات کو خطرہ سمجھتی تھی اس لئے عراق سے رخصت کردیا گیا۔ اس کے بعد آپ پیرس چلے گئے۔وہاں پر بھی آپ خاموش نہیں رہے بلکہ اپنی جدوجہد کو تیز تر کردیا۔یہاں مہدی بازرگان ، بنی صدر اور قطب زادہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے ۔ادھر ایران میں رضاخان امام خمینی کے اثرات کو روکنے میں قطعی ناکام ہو چکا تھا ۔باالآخر شہنشاہ ایران، شاہ پور بختیار کو وزارت عظمی کے عہدے پر فائز کر کے جنوری1979ء کو  ایران سے نکلنے پر مجبور ہو گیا جس پر ایران کے عوام نے بڑی خوشی منائی۔ 19جنوری کو امام خمینی کی ایران آمد متوقع تھی۔ لیکن وزیراعظم کی ہدایت پر ہوائی اڈے کو بند کردیا گیا  ادھر پیرس میں حضرت امام خمینی نے اعلان کیا وہ جمعےکو ایران جائیں گے اور اسی دن نماز جمعہ کی امامت کے بعد تہران کے مرکزی قبرستان بہشت زہرا میں جاکر رضاخان کے خلاف جدوجہد میں شہید ہونے والوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کریں گے یہ خبر سنتے ہی شاہ پور بختیار نے 25 جنوری کی شب ہی سے ہوائی اڈے کو غیر معینہ مدت کےلئے بند کردیا۔ شاہ پوربختیار خود پیرس جاکر امام خمینی سے مذاکرات کرنا چاہتا تھا چونکہ امام خمینی نے اس کی حکومت کو شیطان کی حکومت قرار دیا تھا اسی لئے شاہ پور بختیار پیرس نہ جا سکا۔ آخر کار یکم جنوری 1979ء کو امام خمینی تہران مہرآباد ایئرپورٹ پر ایربیس کے طیارے سے ایران پہنچے۔ تہران پہنچنے پر 50 لاکھ سے زائد افراد نے"اللہ اکبر خمینی رہبر" کے فلک شگاف نعروں سے ان کا تاریخي استقبال کیا ۔اتنی بڑی تعداد میں تاریخ بشریت میں آج تک کسی شخصیت کا استقبال نہیں ہوا تھا۔ایران کے اس مرد مجاہد نے اندرونی اور بیرونی  مزاحمتوں کا نہایت ہی سنجیدگی سے مقابلہ کیا کوئی بھی ان کے نظریات کو تبدیل نہ کرسکا  اندرونی سیاست ہو یا  یرغمالی کا مسئلہ،امریکی مزاحمت ہو یا عراق سے جنگ،حضرت امام خمینی (رح) اپنے اصولوں پر سختی سے ڈٹے رہے۔ حضرت امام خمینی (رح) کے انتقال کے بعد اس کے نائب بر حق حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ رہبر انقلاب منتخب ہوئے۔   
جب انقلاب اسلامی ایران کو 33 سال پورے ہو رہے تھے اس دوران اسلام کے دشمنون خصوصا امریکہ اور اسرائیل نے اس عظیم انقلاب کو ختم کرنے کے لئے تمام طاقت اور توانائی کا استعمال کیا۔
ہم یہاں پر اس عالمگیر انقلاب کے بارے میں کچھ نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

1۔ انقلاب کیوں کر آیا؟

2۔ انقلاب کی افادیت اور برکات

3۔ اسلامی انقلاب کے دشمنوں کی خرمستیاں!

4۔ اسلامی انقلاب کے رہبر اور قا‏ئد!

5۔ اسلامی انقلاب کے موجودہ رہبر اور قائد!

انقلاب  کیوں کر آیا؟

ایران کے اندر انقلاب سے پہلے بادشاہت چل رہی تھی اس بادشاہت کے زیر سایہ سوائے بدبختی اور محرومی کے ایرانی عوام کو کچھ حاصل نہیں ہوا پھر اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ تھی کہ اسلام اور قرآن کا مذاق اڑایا جارہا تھا اس حوالے سے عوام بہت مضطرب اور پریشان تھے اور کسی مصلح اور مسیحا کا انتظار کر رہے تھے ایسے میں حضرت امام خمینی(رح) عوامی امنگوں اور مظلومیت کو دیکھتے ہوئے ظالم اور جابر شاہ کے خلاف صدا‏ئے احتجاج بلند کیا اس احتجاج کے ساتھ پورے ایران میں مظاھرے اور احتجاجی ریلیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا اور یہ سلسلہ  اسلامی انقلاب کی کامیابی تک جاری رہا  آخر کار 22 بہمن کو انقلاب اسلامی کا سورج ایران کی سرزمین پر طلوع ہوا اس دوران ہزاروں شہید اور زخمی  ہو‏‏ئے در واقع اس انقلاب کو حضرت امام خمینی (رح) کی قیادت اور مخلص شہیدوں کے خون اور عوام کی جدو جہد نے کامیابی سے ہمکنار کیا۔

انقلاب اسلامی کی افادیت اور برکات!

اس انقلاب کی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ عظیم انقلاب خالص اسلام اور قرآن کے نام پر آیا ہے اور اس انقلاب کو کسی معمولی اور عام شخص نے نہیں لایا بلکہ ایک ایسی شخصیت نے لایا جو دینی علوم میں مرجع تقلید اور آیت اللہ العظمی کے عہدے پر فائز تھے دنیا کے فلاسفر کے استادوں کے استاد تھےاصول اور فقہ کے ماھر! یہی وجہ ہے آج ایران کا قانون، خالص قرآن اور حدیث کی بنیاد پر مبنی ہے اور ہزاروں مجتہدین کی زير نگرانی اسلامی قانون کے نفاذ کا بندوبست ہورہا ہے اور جاری ہے اور جدید دنیا میں یہ نظام بہترین انداز میں ترقی اور کمال کی راہ پر گامزن ہے جہاں تک ترقی اور پیشرفت کی بات ہے انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں کافی حدتک ترقی اور عروج حاصل کیا ہے اور کررہے ہیں نظام تعلیم کے حوالے سے دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں شامل ہے سائنس اور ٹیکنالوجی  میں کافی ترقی کر چکا ہے تمام ادارہ جات کمپیوٹر سسٹم کے تحت چلتے ہیں۔فلاح و بہبود کے حوالے سے انقلاب سے پہلے کی نسبت 90 فیصد ترقی ہو چکی ہے اور دیگر ضروریات زندگی میسّر ہیں ۔حمل و نقل کے لئے عالی شان سڑکیں بنی ہیں صفائی کے لحاظ سے دنیا کے پیشرفتہ ترین اور خوبصورت ترین ملکوں میں شامل ہو چکا ہے ،انقلاب اسلامی کے فوائد اور برکات میں سے اہم ترین بات یہ ہے ایران امن و امان کے لحاظ سے دنیا کی صف اوّل حکومتوں  میں سے ایک ہے در حقیقت عوام کے لئے یہی چیز بہت اہمیت کی حامل ہے آج جمہوریت کا جو تصور یورپ اور دنیا کے دوسرے خطوں میں رائج ہے اس سے بہتر اور صحیح معنی میں ایران کے اندر جمہوریت اور جمہوری نظام موجود ہے یہ اور بات ہے سامراجی طاقتیں اپنے مفاد کے چکر میں اسلامی جمہوریت سے خوفزدہ ہیں اور جمہوری نظام کو تسلیم نہیں کرتی اس کے باوجود دنیا میں ایک بڑی تعداد اسلامی انقلاب کو دل و جان سے مانتی ہے خواہ وہ کسی بھی ملک اور فرقے سے تعلق رکھتا ہو یہی اسلامی انقلاب کی کامیابی اور طرۂ امتیاز ہے۔
 
انقلاب اسلامی کے دشمنوں کی خرمستیاں!

 چونکہ رضاشاہ پہلوی مشرق  وسطی میں امریکہ کے سب سے بڑے نوکر اور ایران اڈے کے طور پر استعمال ہوا کرتے تھے جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا تو امریکہ اپنے دیرینہ دوست اور مفادات حاصل کرنے والی جگہ سے محروم ہو گیا پھر  تہران میں امریکی سفارت خانے سے امریکی جاسوس پکڑے جانے کے واقعے نے امریکہ کو پوری دنیا میں بے نقاب کردیا اور امریکہ نے اپنی رسوائی کا بدلہ لینے کی  ٹھان لی۔ لہذا امریکہ نے اس الہی انقلاب کو ختم اور نابود کرنے کا منصوبہ بنا لیا اس حوالے سے اس نے مختلف قسم کے حربے استعمال کئے مثال کے طور پر: انقلاب اسلامی کے ظہور کے فوراً بعد امریکہ نے اس انقلاب کو ختم کرنے کے لئے  بڑا فوجی منصوبہ بنایا اور اس فوجی آپریشن کےتحت ایران کے اندر طبس کے مقام پر امریکی کمانڈوز کو مقرر کیا جسمیں  ہزاروں جنگی لڑاکا طیارے اور جنگی سازو سامان اور فوجی اتارے اسی دوران قہر خداوندی  ان پر نازل ہوا  اور تمام جہاز اور سازو سامان اور فوجی طوفان کی نذر ہوگئے امریکہ سمیت پوری دنیا نے اس طوفان کا مشاہدہ کیا۔
اس وقت کے امریکی صدر جیمی کاٹر کا یہ بیان مشہور ہوا کہ "اللہ خمینی کے ساتھ ہے۔"

دوسری امریکی جارحیت یہ ہے کہ صدام کے ذریعے اسلامی انقلاب کو نابود کرنے کے لئے ایران کے اوپر حملہ کروایا اور یہ جنگ ٹھیک آٹھ سال تک جاری رہی اس دوران امریکہ اور تمام سامراجی طاقتوں اور ان کے اتحادیوں نے صدام کی مدد کی اس ملعون نے بھی ظلم کی انتہا کی۔ عراقی عوام اور ایرانی  عوام کے خلاف ایٹمی اور جراثیمی بم استعمال کیا جس سے ہزاراوں انسانوں کی جانیں ضائع ہوئیں اور ایک بڑی تعداد مجروح اور زخمی ہو گئی اور  اس آٹھ سالہ جنگ میں دو لاکھ چالیس ہزار ایرانی شہید ہوگئے۔

تیسری امریکی جارحیت یہ ہے کہ انقلاب اسلامی کو اقتصادی بحرانوں کی طرف دھکیلنے کےلئے غیر قانونی اقتصادی بائیکاٹ کیا جو اب تک جاری ہے اور نہ صرف خود امریکہ نے بائیکاٹ کیا بلکہ پوری دنیا کو اس بات پر غور کرنے کا مطالبہ کیا لیکن اس میں امریکہ ناکام اور نامراد رہ گیا لیکن وہ اب بھی اپنے طور پر آب وتاب کے ساتھ یہ کوشش کر رہا ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے ایران کو اقتصادی طور پر تباہ کرے۔ اس نے ایران و عراق کی جنگ کے دوران ایرانی تیل کے کنویں پر حملہ کیا۔

چوتھی جارحیت یہ ہے کہ امریکہ حقوق بشر کی پائیمالی میں دنیا کے پہلے نمبر  پر ہے اس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں ایرانی مسافر جہاز پر میزائل حملہ کر کے جہاز سمیت 290 افراد کو موت کی نیند سلادیا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ دہشت گردی افغانستان ہو یا عراق ہو یا پھر فلسطین کے مظلوم عوام ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے آج پوری دنیا میں امریکہ کی خباثت اور شقاوت واضح اور روشن ہوچکی ہے امریکہ  اسرائیل کی مکمل حمایت اور فلسطین میں انسانیت سوز جرائم  کی تمام حدوں کو کراس  کر چکا ہے اس کے باوجود، ایران پر الزام لگاتا ہے کہ وہ دہشت گردی کی حمایت کر رہا ہے بہر حال امریکہ اب مزید اپنی غلطی اور باطل نظریات کو نہیں پھیلا سکے گا اور اب وہ دن دور نہیں کہ امریکہ کا حشر بھی روس سے مختلف نہیں ہوگا اور جلد وہ  اپنے کئے کی سزا خداوند ربّ العزّت سے پائے گا "أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِين وسَیعلَمُ الّذینَ ظَلَموا أَی مَنقَلَبٍ ینقَلِبونَ"

اسلامی انقلاب کے رہبر

حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ وہ عظیم الشان شخصیّت ہیں جس کی نظیر تاریخ اسلام میں بہت کم ملتی ہے آپ کا علمی مقام اور زہد و تقوی کے لحاظ سے بہت بلند مرتبہ پر فائز تھے۔ اگر آپ کو اس صدی کا سلمان فارسی کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا۔ فقر و قناعت کے حوالے سےآپ کو اس صدی کا ابوذر کہا جائے زیب دیتا ہے، شجاعت اور بہادری میں اپ کو اس زمانے کا مالک اشتر کہا جائے تو مناسب ہے، سیاست اور فراست میں آپ تاریخ میں اپنی مثال آپ ہیں، آپ دینی علوم سے لیکر فلسفہ ‏‏، منطق ،فقہ واصول تفسیر و معانی بیان میں بے نظیر تھے، کردار اور گفتار میں آپ لوگوں کے لیے نمونہ عمل تھے، سیاست سے لیکر عرفان و تصوف میں کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے۔ دنیائے فلسفہ اور منطق میں ایک بڑی طاقت کا حامل روس کے صدر گوربا چوف بعد میں افسوس کرتے ہیں کاش میں امام خمینی کی باتوں پر عمل کرتا تو روس کے ٹکڑے نہ ہوتے اور روس اقتصادی طور پر تباہ نہ ہوتا آپ نے تاریخ اسلام میں نظام حکومت کا ایک نیا سسٹم  متعارف کرایا جس کا نام ولایت فقیہ ہے اگر چہ یہ نظریہ شیعہ مکتب میں پہلے سے موجود تھا لیکن عملی نہیں ہوا تھا۔ یہ امتیاز بھی حضرت امام خمینی کو ملتا ہے کہ انہوں نے اس نظام اور سسٹم کو ایک مملکت میں نافذ کردیا اور یہ نظام کامیاب  ہوا اور آج ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے، آپ لوگوں کےلیے ایک منارہ نور ہے لوگ آپ کی سیرت اور کردار سے فائدہ اٹھارہے ہیں اسی لیے موجودہ رہبر انقلاب حضرت آیۃ اللہ العظمی امام خامنہ ای مدّظلّہ نے فرمایا:امام خمینی ہمیشہ زندہ و جاوید رہنے والی حقیقت کا نام ہے۔

شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

حال مادر کم تر از یعقوب نیست                         او پسر گم کردہ بود ما پدر گم کردہ ایم

اسلامی انقلاب کے موجودہ رہبر اور قائد

اسلامی انقلاب کے موجودہ رہبر اور قائد حضرت آیت اللہ العظمی سیّد علی خامنہ ای وہ  عظیم المرتبت انسان جو امام خمینی کے بعد اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں جیسا کہ آپ جانتے ہیں امریکہ اس انقلاب کا سرسخت دشمن ہے اور ایرانی عوام اس سے دشمن قسم خوردہ کے نام سے پکارتے ہیں اسرائیل اور دوسری باطل قوتوں نےاس انقلاب کو شروع سے آج تک قبول نہیں کیا اور آئے دن الزام تراشی اور بہانے کے بازار کو گرم کر رکھا ہےاور پوری کوشش میں ہیں کہ اس انقلاب کو کسی نہ کسی طریقے سے ختم کیا جائے اس حوالے وہ اپنی پوری طاقت اور زور صرف کررہے ہیں ایسے میں قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس کی حفاظت اور ترقی و کمال کے لیے اپنی مدبرانہ قیادت کا ثبوت فراہم کیا ہے اور اس عرصے میں انقلاب اور ملت کو ترقی و کمال کی شاہراہ پر گامزن کیا ہے اور آج پوری دنیا میں ایران کی کامیاب خارجہ پالیسی نے داد وصول کرلیا ہے اور یہ سب کچھ حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی روش قیادت کا مرہون منّت ہے آج آیت اللہ خامنہ ای نے انقلاب اور ملّت ایران کو دشمن کے شر اور گزند سے محفوظ رکھا ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جو پوری دنیا میں واضح اور روشن ہے میں تو یہی عرض کروں گا کہ یہ تو پوری ملت اسلامیہ کی خوش قسمتی ہے کہ خداوند ربّ العزّت نے ہمیں اس نازک اور پر آشوب دور میں ایسی قیادت عنایت کیا ورنہ امام خمینی کی پیامبرانہ جیسی قیادت کے بعد اس خلاء کو پر کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا آج خمینی کے خلف صالح اور وارث نے ثابت کیا کہ آپ کی مخلصانہ اور ایثار و قربانی سے بھر پور قیادت نے ملت اسلامیہ کی لاج رکھ لیا ہے آپ اسلام کی عزت ہے، آپ اسلام کی آبرو ہیں، آپ کی روشن فکری نے یورپ اور دنیا کے مفکروں کو حیرت میں ڈال دیا ہے تو دوسری طرف آپ فرماتے ہیں میں علامہ اقبال لاہوری کے مریدوں میں سے ہوں آج آپ نے علامہ اقبال کے فلسفہ خودی کو دنیا والوں کے اوپر عمل کر کے دیکھا دیا ہے اور آپ نے خودی اور غیر خودی کا خط کھینچ کر پوری ملت اسلامیہ پر احسان کیا ہے اور واضح راستہ دکھا دیا ہے ہند و پاکستان  کے مسلمانوں کو اس قائد کے عاشق ہوناچاہئے ایسے عظیم علماء نے ہند و پاکستان کے مسلمانوں کے سر کو اونچا کیا ہے،آج ایران میں  علامہ اقبال کے افکار کی بڑے  پیمانے پر نشر و اشاعت اور عمل ہو رہا ہے ۔ آیت اللہ خامنہ ای نے انقلاب اسلامی کے آغاز سے ہی اس انقلاب کے ساتھ عاشقانہ اور رضا کارانہ طور پر خدمت کی۔ اگر اقبال کا شعر یہاں ذکر کیا جائے تو مناسب ہو گا:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود   میں عشق
عقل ہے محوی تماشا لب بام ابھی

آج پوری دنیا کی طاقتیں اور روشن فکر طبقہ آپ کی مدبرانہ قیادت سے متاثر ہیں آپ کے پر نور بیانات سے متاثر ہیں آپ کی پر نور شخصیت سے متاثر ہیں اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا"خامنہ ای خمینی دیگر است"
اور ان شاء اللہ پوری دنیا پر واضح ہورہا ہے کہ آپ واقعی خمینی کے سچّے وارث اور خلقا و خلقا و منطقا خمینی سے ملتے جلتے ہیں کردار میں خمینی ، رفتار میں خمینی ،امانت میں خمینی ،دیانت میں خمینی ، شرافت میں خمینی ، زہد وتقوی میں خمینی،وضع و قطع خمینی و تفکر و تدبر میں خمینی آپ کے پورا وجود خمینی ہی خمینی نظر آتا ہے آج ہم اس الہی نعمت عظمی ولایت پر خوش ہیں ہماری آنکھیں اس رہبر فرزانہ کے دیدار کے وقت پر نم ہو جاتی ہیں ہمارے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے۔
اے کاش! مسلمان اور مؤمنین آج اس عظیم رہبر کو پہچان لیتے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا! شاعر 

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .