۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
مولانا سید عمار حیدر زیدی

حوزہ/ بچوں کی تربیت سے پہلے ماں کو چاہیے کہ اپنی ذہنی اور جذباتی صحت کا بھرپورخیال رکھے۔ جب تک آپ خود ذہنی اور جذباتی طور پر درست حالت پر اور یکسو نہ ہوں ۔اس وقت تک  بحیثیت ماں اپنا درست کردار ادا کرنا بہت مشکل کام ہوسکتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مولانا سید عمار حیدر زیدی مقیم قم المقدس نے اولاد کی تربیت میں ماں کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے قرار دیتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

علم حاصل کرو ماں کی گود سے قبر کی آغوش تک۔

اس سے یہ بات واضح ہے کہ انسان کی ابتدائی درس گاہ ہی ماں ہے اب ماں کو چاہیے کہ اگر وہ اپنی اولاد کی اصلاح اور اچھی تربیت کرنی چاہتی ہے تو پہلے خود کی اصلاح کرے جو وہ عمل انجام دے گی اس کے اثرات اس کی اولاد پر نمایاں ہوں گے۔

بچوں کی تربیت سے پہلے ماں کو چاہیے کہ اپنی ذہنی اور جذباتی صحت کا بھرپورخیال رکھے۔ جب تک آپ خود ذہنی اور جذباتی طور پر درست حالت پر اور یکسو نہ ہوں ۔اس وقت تک بحیثیت ماں اپنا درست کردار ادا کرنا بہت مشکل کام ہوسکتا ہے۔ ذہنی طور پر درست ہونے کا مطلب یہ ہے۔ کہ آپ کے پاس بحیثیت ماں اپنے کردار اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے درست اور نافع علم ہو۔ جب تک یہ علم موجود نہ ہو۔اس وقت تک ایک ماں اپنے بچوں کے حوالے سے درست اقدام نہیں کرسکتی۔ اور جذباتی درستگی کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کے بعد ان کی ادائیگی کے لئے ذہنی اور جذباتی طورپر دل سے آمادہ ہوں۔

ماں کی یہ ذمہ داریاں صبرآزما ضرور ہیں کہ اولاد کی پرورش اور تربیت میں ماں کوبہت زیادہ کردار اداکرنا پڑتا ہے۔ تاہم اس کے حقوق بھی زیادہ ہیں۔ ہرماں کو چاہیے کہ اپنی ان ذمہ داریوں کو سمجھے ۔ان کا احساس کرے ۔اور زندگی میں اپنے کردار کو واضح اور متعین طور پر سمجھ کر زندگی گزارے اور اپنے فرائض کی تکمیل کی پوری کوشش کرے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ماں کے پاوں تلے جنت ہے۔ ایک اور حدیث میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا ،کہ والدین میں سے کس کا حق زیادہ ہے؟ تو آپ نے فرمایا :ماں کا ۔ اسی طرح سائل کے باربار پوچھنے پر آپ نے تین بار ماں کے حق کا ہی ذکر فرمایا ۔اور چوتھی بار جب پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا باپ کابھی حق ہے ۔ ان دونوں حدیثوں سے ماں کی اہمیت ظاہر ہوجاتی ہے۔ پہلی حدیث میں انسان کی کامیابی اور اس کی جنت کو ماں کی خدمت اور اس کے ساتھ حسن سلوک سے مشروط کیا گیا۔

اس حدیث کے ذیل میں یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ جبکہ دوسری حدیث میں جب ماں اور باپ کے حقوق کا تقابل کیا گیا۔ تو تین بار ماں کے حق کا ذکر آیا ۔اور آخر میں صرف ایک بار باپ کے حق کا ذکر کیا گیا۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ 75 فیصد حقوق ماں کے ہوگئے اور 25فیصد حقوق باپ کے ہوئے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .