۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
عظمت علی

حوزہ/ عورت مارچ پر ایک سوال ہمیشہ سے ذہن میں گشت کرتا ہے کہ یہ خواتین باہر روڈ پر نکل کر کس سے کس چیز کا مطالبہ کرتی ہیں؟ان کو حکومت سے پریشانی تو ہے نہیں کہ سڑک پر اتر پڑتی ہیں ، شوہر سے پریشانی ہے تو وہ خود شوہر حل کرے گا۔ گھر سے باہر کوئی دوسرا شخص ایسی عورت کا سہارا تو بن نہیں جائے گا۔ اگر شوہر ہے ہی نہیں تو فردی آزادی کی بات ہوگی...

تحریر: عظمت علی، لکھنؤ

حوزہ نیوز ایجنسی اسلام سے پہلےتمام تہذیبوں میں عورت کو نہایت نچلی سطح کا جاندار سمجھاجاتا تھا ، صرف ایک جسمانی وجود۔ تاریخ میں یونان، قدیم ترین تہذیب مانا جاتا ہے ، وہاں عورت کو محض جنسی تسکین کا ذریعہ سمجھاجاتا ۔یہاں تک تو پھر بھی ایک مثبت وجود مان سکتے ہیں مگر تاریخ بیان کرتی ہے کہ یونانیوں کے نزدیک عورت ،زہرآلود درخت کی مانند ہے ۔ تمام مصائب ومشکلات کی وجہ عورت کو قرار دیا جاتا ۔ روم کی بات کریں تو وہاں عورت کو عذاب سے تشبیہ دی جاتی اور شوہر کی زر خرید غلام مانی جاتی ۔ایرانی تہذیب میںبھی عورت ،شوہر کی ملکیت ہوتی ، اس کاخود کا کوئی اختیار نہیں ہوتا ،ہاں! شوہر چاہے تو اس کے ذریعہ جنسی تجارت بھی کرلے ۔

اسلام سے پہلے عورت کے احترام کاکوئی تصور نہیں ملتا۔ خود عرب میں اسلام سے قبل، اسے زندہ در گور کردیا جاتا ۔اسلام نے سب سے پہلے عورت کو حقوق فراہم کیے۔عورت، اگر بیٹی ہے تو رحمت ، ماں ہے تو جنت اس کے قدموں تلے ۔جس اسلام نے عورت کو قبر سے اٹھا کر جنت تک پہونچا دیا، اُسی اسلام پر الزام ہے کہ اس نے عورت کی حق تلفی کی ہے ۔

عورت مارچ پر ایک سوال ہمیشہ سے ذہن میں گشت کرتا ہے کہ یہ خواتین باہر روڈ پر نکل کر کس سے کس چیز کا مطالبہ کرتی ہیں؟ان کو حکومت سے پریشانی تو ہے نہیں کہ سڑک پر اتر پڑتی ہیں ، شوہر سے پریشانی ہے تو وہ خود شوہر حل کرے گا۔ گھر سے باہر کوئی دوسرا شخص ایسی عورت کا سہارا تو بن نہیں جائے گا۔ اگر شوہر ہے ہی نہیں تو فردی آزادی کی بات ہوگی ، اس پر توقانون عام بن نہیں سکتا ۔ یہ کس جذبہ اور منشور کے تحت نکلتی ہیں ۔ جتنے بھی مقاصد بیان کئے جاتے ہیں ، ان کا ریلی یا اجتماع سے حل ہوناضروری نہیں ۔وہ مل بیٹھ کر بھی حل کئے جاسکتے ہیں۔

پریشانی کا سامناتو سب کو کر نا پڑتا ہے ۔ کبھی مرد، عورت سے پریشان توکبھی عورت، مرد سےخفا ۔ مگر یہ سب گھریلو مسئلہ ہے ۔ اس میں کوئی دوسرا کیوں ٹانگ اڑائے ؟فرض کریں کہ حکومت قانون بنا بھی دے تو اس کا نفاذ ایک مسئلہ بن کے رہ جائے گا۔ ہر شخص اپنی حیثیت سے اس کو چیلنج کرسکتا ہے اور اس پر کارروائی تو ہو ہی نہیں سکتا ، اس کے ثبوت درکار ہوں گے جو کہ بمشکل میسر ہوں گے۔ کیوں کہ معاملہ گھر کے اندر کا ہے۔

آپ دیکھیں کہ عورت مارچ میں کس قسم کے بے ہودہ پوسٹرز ہوتے ہیں ۔ کیا ایک اسلامی ملک میں ایسا ہونا مناسب ہے ؟گالیاں لکھی ہوتی ہیں ، مرد کے خلاف ہرزہ سرائی اور جانے کیا کیا بے ہودہ باتیں ۔ مگر ان سب سےتو راہ حل تو نہیں نکلے گا۔ یہ تو معاشرہ کومزید ابتری کی جانب ڈھکیل دے گا۔اب اس کا راہ حل وہی ہے جو ایک عام سلجھا ہوا انسان سمجھتا ہے ، مل بیٹھ کر حل کیا جائے ۔گھر کی بات گھر تک محدود رہے ، باہر نہ جائے ، نہیں تو رائی کا پہاڑ بن جائے گی اور گھریلو جھگڑا طلاق تک لا کھڑا سکتا ہے ۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .