۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
News ID: 386956
27 دسمبر 2022 - 15:52
مولانا علی ہاشم عابدی

حوزہ/ فَلَقَدِ اُسْتُرْجِعَتِ اَلْوَدِيعَةُ‘‘ (یا رسول اللہ ) امانت واپس ہو گئی۔اب میرا غم جاویدانی ہے اور میری راتیں بیداری میں بسرہوں گی۔ یہاں تک کہ آپ سے ملاقات کر لوں۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | حسب موقع آیتیں اور سورے لانے والے سید الملائکہ جبرئیل امینؑ پیغمبر ؐکی خدمت میں براق نامی آسمانی سواری لے کر حاضر ہوئے اور بعد درود و سلام عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم معراج دیا ہے۔ حبیب کبریاءؐ اپنے محبوب کا پیغام سنتے ہی روانہ ہوئے۔ سردار ملائکہ جبرئیلؑ آپؐ کے ہمراہ تھے آخر ایک منزل وہ بھی آئی کہ جہاں سید الملائکہؑ نے آگے بڑھنے میں اظہار عاجزی فرمایا لیکن سید الخلق سید الانبیاء والمرسلین کا سفر جاری رہا اور وہاں پہنچے جہاں حبیب و محبوب میں صرف ایک حجاب و کمان کا فاصلہ ہی باقی رہا۔ محبوب اپنے حبیب کی قربت پر خوش تو حبیب اپنے محبوب کے قریب ہونے پر نازاں نظر آیا۔ حکیم کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا تو حکمتوں کے خالق حکیم پروردگار کا یہ عمل کیسے حکمت سے خالی ہوتا لہذا اس نے بصورت سیب تحفہ معراج عطا کر کے مقصد معراج کی تکمیل کی۔ یہ عظیم تحفہ تھا کہ جس کی عطا میں اس نے امین وحی جبرئیل کے واسطہ کو بھی مناسب نہ جانا۔ ہاں اس کے اعلان میں ضرور جبرئیلؑ کو شامل کیا۔

’’بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ‏ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ‎‏ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ‘‘ عظیم اور دائمی رحمتوں والے خدا کے نام سے۔ بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے ۔ لہذا آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں ۔ یقینا آپ کا دشمن بے اولاد رہے گا ۔

اس سورہ کی شان نزول کے سلسلہ میں علماء کا اتفاق ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے فرزند جناب عبد اللہ کو دفن کر کے واپس آ رہے تھے تو آپ کے جانی دشمن عاص بن وائل ملعون نےآپؐ کو ابتر اور بے اولاد ہونے کا طعنہ دیا تو اللہ نے یہ سورہ نازل کر کے آپؐ کو کوثر عطا کرنے اور آپ کے دشمنوں کو ابتر ہونےکی بشارت دی۔

لفظ کوثر کے سلسلہ میں اکثر شیعہ مفسرین کا نظریہ ہے کہ اس سے مراد صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں۔ لیکن دیگر مذاہب و فرق کے مفسرین نے کوثر سے حوض کوثر، بہشت، بہشت میں ایک نہر، شفاعت، خیر کثیر، نبوت، قرآن، اصحاب اور پیروکاروں کی کثرت، حضرت زہراؑ کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ کی کثیر تعداد میں نسل مراد لی ہے۔ لیکن اگر ہم آخری آیت میں لفظ ابتر پر غور کریں تو واضح ہو جائے گا کہ کوثر کا مصداق اتم و اکمل سوائے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اور کوئی نہیں۔

معراج پر اللہ نے جو تحفہ اپنے حبیب کو دیا تھا ۲۰؍جمادی الثانی سن ۵بعثت کو وہ ظاہر ہوا یعنی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت با سعادت ہوئی یا یہ کہا جائے کہ باغ رسالت و نبوت میں وہ شجر لگا جسے قرآن نے شجرہ طیبہ کہا جس کی جڑیں ثابت اور شاخیں آسمان میں ہیں۔ کبھی کفر و شرک و الحاد کی ہواؤوں نے اسے مٹانا چاہا، کبھی نفاق نے جلا کر ختم کرنا چاہا، کبھی سقیفائی، اموی، عباسی، عثمانی، مغلیہ طوفانوں نے گھیرا لیکن اسے ختم کرنے والے خود ختم ہو گئے، مٹانے والے خود مٹ گئے، حبیب کبریاء کو ابتر کہنے والے خود ابتر ہو گئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نسل آج بھی باقی ہے اور ہمیشہ باقی رہے گی۔

اگر ہم اسلام و انسانیت کے دشمنوں پر غور کریں تو وہ دو قسم کے دشمن نظر آئیں گے ایک وہ کفار و مشرکین تھے جو کھلم و کھلا اسلام و رسول ؐاسلام کے دشمن تھے انہوں نے کھل کر دشمنی کی اگرچہ ہمیشہ ناکامی و نامرادی ان کا مقدر بنی دوسرے منافقین تھے جنہوں نے لالچ یا خوف میں اسلام قبول کیا اور ظاہرا ًمسلمان ہو گئے۔ اس گروہ نے بھی دشمنی کا کوئی موقع نہیں گنوایا لیکن ان کا انداز دشمنی کھلا ہوا نہیں بلکہ پوشیدہ رہا، یہ دشمنان اسلام منافقین کہلائے، اگر چہ اسلام ختم کرنے میں انکو بھی کامیابی نہیں ملی۔ لیکن جس طرح اپنے سبز رنگ کے سبب طوطا دوسرے پرندوں کے مقابلے باغ کو زیادہ نقصان پہنچاتا ہے اسی طرح ان منافقین نے بھی اسلام کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

دین اسلام کے سلسلہ میں منافقین کی سب سے بڑی خیانت اور جرم یہ ہے کہ ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد امت اسلامیہ کے سلسلہ ہدایت میں خلل ایجاد کرتے ہوئے اللہ و رسول ؐکے منتخب معصوم ائمہ ہدیٰ اور خلفائے الہی کے مقابلے میں اپنے من پسند حکمراں معین کئے بلکہ خود ہی قہر و غلبہ کے ذریعہ حاکم بن بیٹھے۔ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ میں بھی کئی مرتبہ پیغمبر ؐ کو قتل کر کے حکومت حاصل کرنے کی سازشیں رچ چکے تھے۔ عقبہ میں منافقین نے حبیب ؐخدا کو قتل کرنے کی سازش کی تو اللہ نے بجلی چمکا کر ان کے چہرے ظاہر کر دئیے اور حضور ؐنے اپنے جلیل القدر صحابی جناب حذیفہؓ کو منافقین کے نام بھی بتا دئیے۔ اسی طرح جب حضورؐ آخری حج کے لئے نکلے تو اپنے وصال کے قریب ہونے کا اعلان کیا اور یہ اعلان ایک بار نہیں بلکہ متعدد مقامات پر دنیا سے کوچ کرنے کی لوگوں کو اطلاع دی۔ تو منافقین نے مکہ مکرمہ میں صحیفہ ملعونہ اول لکھ کر خانہ کعبہ کے قریب دفن کیا جسمیں لکھا تھا کہ آپ ؐکے بعد ہدایت و حکومت آپ کے خاندان میں نہ رہے۔ اعلان غدیر اور امیرالمومنین علیہ السلام کی بیعت کرنے کے بعد جب منافقین مدینہ واپس آئے تو دوبارہ ایک گھر میں جمع ہوئے جہاں دوسرا صحیفہ ملعونہ لکھا گیا۔ جس کے بعد حضورؐ کے حکم کے باوجود لشکر اسامہ میں اکثر لوگ شامل نہیں ہوئے۔ نماز جماعت میں امامت کی کوشش کی اورجب حضورؐ نےامت کی ہدایت اور گمراہی سے بچانے کے لئے تحریر لکھنی چاہی تو کاغذ و قلم دینے سے انکار کر دیا وہ بھی شان رسالت میں انتہائی توہین کے ساتھ کہ جس سے انکار رسالت عیاں تھا۔ المختصر رسول اللہ صلی الہہ علیہ و آلہ وسلم انتہائی مظلومیت کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد ماجد (امام جعفر صادق علیہ السلام) سے پوچھا کہ جب ملائکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس سے رخصت ہوئے تو کیا ہوا؟ میرے والد(امام جعفر صادق علیہ السلام) نے فرمایا: رسول اللہ صلوآلہ وسلم نے امیرالمومنین علیہ السلام، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو اپنے پاس بلایا اور جناب ام سلمیٰ کو حکم دیا کہ دروازہ پر کھڑی رہیں اور کسی کو اندر نہ آنے دیں۔ حضور ؐنے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا ایک ہاتھ پکڑ کر اپنے سینہ مبارک پر رکھا اور دوسرے ہاتھ سے امیرالمومنین علیہ السلام کے ایک ہاتھ کو پکڑ کر اپنے سینہ پر رکھا، سب نے گریہ کیا، اس کے بعد حضور ؐنے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا ہاتھ جناب امیرالمومنین علیہ السلام کو پکڑا کر فرمایا: ائے ابوالحسنؑ! یہ (فاطمہؑ) تمہارے پاس اللہ اور اس کے رسول محمدؐ کی امانت ہیں۔ فاطمہ کے سلسلہ میں اللہ کے حق اور میرے حکم کی رعایت کرنا اور تم ایسا ہی کرو گے ۔ اے علیؑ! یہ فاطمہؑ گذشتہ اور آئندہ خواتین میں جنت کی عورتوں کی سردار ہیں، خدا کی قسم! یہ مریم کبریٰ ہیں، خدا کی قسم! میں نے فاطمہؑ اور تمہارے لئے جو کچھ اللہ سے مانگا اس نے عطا کیا، اے علیؑ! فاطمہؑ کے سلسلہ میں میں نے جو حکم دیا ہے اسے انجام دو۔ میں نے فاطمہؑ کو ان احکام کا حکم دیا ہے جو جبرئیل نے مجھ تک پہنچایا ہے۔

حضورؐ نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو اللہ و رسول ؐکی امانت بتایا اور امیرالمومنین ؑ کو اس عظیم امانت الہی کی رعایت کا حکم دیا کہ جب جانشین پیغمبرؐ پر انکی حفاظت واجب ہے تو دوسروں پر بدرجہ اولیٰ ان کی حفاظت، احترام اور اطاعت واجب و لازم ہے۔ لیکن افسوس بعد رسولؐ نام نہاد امتیوں نے اللہ و رسول ؐ کی اس امانت کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کیا اور ایسے ظلم ڈھائے کہ بی بی ؑ کو مرثیہ پڑھنا پڑا ’’صُبَّــــــتْ عَلَیَّ مَصَائِــبُ لَوْ أَنَّهَا۔ صُبَّـتْ عَلَـى الْأَیَّـامِ صِـرْنَ لَیَالِیَا‘‘ (اے بابا! آپؐ کے بعد ) مجھ پر وہ مصائب پڑے اگر وہ مصائب دنوں پر پڑتے تو تاریک شب میں بدل جاتے ۔

جو بیت، بیوت انبیاء ؑ سے افضل تھا اس پر حملہ کیا گیا، آیت تطہیر کے نزول کے بعد جس دروازے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چھ ماہ تک مسلسل آ کر سلام کرتے تھے۔ جہاں بغیر اجازت فرشتہ بھی داخل نہیں ہو سکتا تھا وہاں ظالم آگ اور لکڑی لے کر آ گئے اور امانت الہی در و دیوار کے درمیان پیس دی گئی اور بطن مادر میں نواسہ رسول ؐ حضرت محسن ؑ کو شہید کر کے ایک تہائی سادات اور نسل رسولؐ کو ختم کر دیا گیا ۔

طمانچے سے ناموس الہی کا چہرہ اور کان زخمی کر دیا گیا، پہلو تو پہلے ہی درو دیوار کے درمیان ہی شکستہ ہو گیا تھا اور اسی غم و اندوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اکلوتی یادگار بیٹی وقت مغرب اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ حسب وصیت امیرکائناتؑ نے شب کی تاریکی میں غسل و کفن کیا اور قبر کے حوالے کیا۔ دفن کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخاطب کر کے مرثیہ پڑھا۔ ’’یا رسول اللہ!آپ پر سلام ہو میری جانب سے اور آپ کی بیٹی کی جانب سے جو ابھی آپؐ کے جوار میں آئی ہیں اور عنقریب آپؐ سے ملحق ہو جائیں گی۔ یا رسول اللہ! آپؐ کی پاک و منتخب بیٹی کے فراق میں میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔ میری طاقت نے جواب دے دیا ہے۔ آپؐ کے فراق کی عظیم مصیبت کے بعد یہ مصیبت میرے لئے سخت ہے۔

آخر میں نوحہ و مرثیہ کرتے ہوئے فرمایا ’’فَلَقَدِ اُسْتُرْجِعَتِ اَلْوَدِيعَةُ‘‘ (یا رسول اللہ ) امانت واپس ہو گئی۔اب میرا غم جاویدانی ہے اور میری راتیں بیداری میں بسرہوں گی۔ یہاں تک کہ آپ سے ملاقات کر لوں۔

یعنی یا رسول اللہ ! جو امانت صحیح و سالم میرے حوالے کی تھی وہ واپس ہو گئی لیکن زخموں سے چور ہے ، پہلو شکستہ ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .