۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
News ID: 366274
4 مارچ 2021 - 20:09
علی ہاشم عابدی

حوزہ/ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "اے ابوذر !خدا تم پر رحم کرے ۔تم تنہا زندگی بسر کرو گے ۔تنہا دنیا سے کوچ کرو گے ۔تنہا مبعوث ہوگے ۔تنہا جنت میں داخل ہوگے اور اہل عراق کا ایک گروہ تمھارے سبب سے سعادت حاصل کرے گا ۔یعنی وہ تمھیں غسل دے گا ۔کفن پہنائے گا اور تم پر نماز پڑے گا"۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | فتح مکہ کے ایک برس بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اطلاع ملی کہ روم والے ایک بڑے لشکر کے ساتھ عالم اسلام پر حملہ کرنا چاہتے ہیں لہذا آپ نے لشکر اسلام کو رومیوں سے جنگ کا حکم دیا۔  لیکن کچھ صحابہ بالخصوص منافقین نے لشکر اسلام میں شامل ہونے سے انکار کر دیا اور مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔ چوں کہ منافقین مدینہ میں بغاوت کا ارادہ رکھتے تھےلہذا اس سے پہلے کی تمام جنگوں کے برخلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیرالمومنین علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا اور جنگ سے روک دیا جس سے منافقین کے تمام منصوبوں پر پانی پھر گیا لہذا ناراض منافقوں نے افواہ پھیلا دی کہ رسول اللہؐ مجاہدین کے درمیان علیؑ کی موجودگی کو پسند نہیں کرتے یا گرمی اور جنگ کی دشواریوں سے پہلو تہی کرنے والوں نے کہا کہ علیؑ بھی ان ہی کی طرح جنگ سے پیچھے ہٹ گئے،  بعض لوگوں نے کہا کہ حضورؐ امیرالمومنین ؑ کو اپنے ساتھ لے جانا نہیں چاہتے لہذا انہیں اپنے گھر کی سرپرستی کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ امیرالمومنین علیہ السلام مقام جرف پر حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: "‌يا نبى الله زعم المنافقون أنك إنما خلفتني انك استثقلتني وتخففت منى"۔ (اے اللہ کے نبی! منافقین گمان کرتے ہیں کہ آپ نے مجھے چھوڑ دیا ہے، مجھے اپنے لئے بوجھ سمجھا ہے اور مجھے خفیف کردیا ہے ) تو رسول اللہؐ نے فرمایا: "‌كَذِبُوا وَلكِنِّي إنَّما خَلَّفتُكَ لِما وَرائِي... أنتَ مِنّی بِمَنزلةِ هارونَ مِنْ مُوسی، اِلّا أنـّه لانَبی بَعدی۔(انھوں نے جھوٹ کہا ہے بلکہ میں نے تمہیں اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے۔  اے علی! تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارونؑ کو موسیٰؑ سے تھی۔ مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔(تاریخ الطبري، ج2، ص368) )

یہی حدیث بعد میں حدیث منزلت کے نام سے مشہور ہوئی جسے عامہ و خاصہ نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ یہ حدیث حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی بلا فصل خلافت پر دلیل ہے۔ 

 المختصر حضورؐ نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کو مدینہ واپس بھیجا اور خود تبوک کی جانب روانہ ہوئے۔ لشکر اسلام  نے۲۰ ؍ دن تک تبوک میں قیام کیا ، رومیوں نے جنگ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور جزیہ (ٹیکس) دینے پر صلح ہوئی اور لشکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ مدینہ کی جانب روانہ ہو گیا۔ 

واپسی میں عقبہ نامی علاقہ میں منافقوں نے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حضورؐ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن اللہ نے ان منافقین کی صورتیں رسول اللہ پر ظاہر کر دی اور آپؐ نے اپنے جلیل القدر صحابی جناب حذیفہؓ کو ان منافقین کے نام بتا دئیے۔

جنگ تبوک کے لئے حضرت ابوذر غفاری بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لشکر میں شامل ہوئے چونکہ آپ کا اونٹ بہت کمزور تھا اس لئے آپ قافلہ سے بچھڑ گئے۔ کافی کوششیں کیں لیکن کوئی فایدہ نہیں ہوا لہذا آپ سواری سے اترے، اپنا سامان لیا اور پیدل چل دئیے۔ 

موسم گرما میں پیادہ روی کے سبب تشنگی نے شدت اختیار کر لی، پانی کی کافی جستجو کی تو ایک گڑھا ملا جس میں بارش کا پانی جمع تھا جیسے ہی پانی پینا چاہا محبوب خدا کی یاد آگئی لہذا فیصلہ کیا کہ پہلے حضور کو پانی پلائیں گے پھر خود پانی نوش کریں گے۔  مشک میں پانی بھرا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب روانہ ہو گئے۔ جیسے ہی آپ تبوک کی سرحد میں داخل ہوئے تو مسلمانوں کی نگاہ آپ پر پڑی مگر وہ دور سے آپ کو پہچان نہ سکے اور حضور کو اپنی جانب کسی کے آنے کی اطلاع دی۔ آپ نے فرمایا ائے کاش ابوذر ہوتے، جب نزدیک پہنچے تو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ابوذر ہی ہیں۔ جناب ابوذر حضور کی خدمت میں پہنچے، ٹھکاوٹ اور پیاس کے سبب زمین پر گر گئے، حضور نے حکم دیا کہ ابوذر کو پانی پلایا جائے۔ جناب ابوذر نے عرض کی یا رسول اللہ میرے پاس پانی ہے تو آپ نے فرمایا پھر پیا کیوں نہیں؟  ابوذر نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے دل نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ میں آپ سے پہلے خود پانی پی لوں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "اے ابوذر !خدا تم پر رحم کرے ۔تم تنہا زندگی بسر کرو گے ۔تنہا دنیا سے کوچ کرو گے ۔تنہا مبعوث ہوگے ۔تنہا جنت میں داخل ہوگے اور اہل عراق کا ایک گروہ تمھارے سبب سے سعادت حاصل کرے گا ۔یعنی وہ تمھیں غسل دے گا ۔کفن پہنائے گا اور تم پر نماز پڑے گا"۔

(بحارالانوار، ج21، ص215)

غزوہ تبوک میں مندرجہ ذیل نکات قابل غور ہیں:

1۔ اس غزوہ نے مومن و منافق کا تعارف کرا دیا۔ 

2۔ دشمنوں کو اسلام کی قدرت کا احساس ہوا لہذا جنگ کے بجائے جزیہ کا انتخاب کیا۔ 

3۔ امیرالمومنین علیہ السلام کی بلا فصل خلافت ثابت ہوئی 

4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور اطاعت کی اہمیت ظاہر ہوئی۔ 

5۔ جناب ابوذر کے مخالفین اور انکو اذیت پہنچانے والوں کی حقیقت واضح ہوئی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .