۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
امام علی علیه السلام

حوزہ/ علامہ اقبال فرماتے ہیں:مسلم اول شہ مردان علی،عشق را سرمایہ ایمان علی! سب سے بڑا امتیاز اور اہم ترین بات جس کے متعلق خود حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام بار بار ذکر فرماتے ہیں: خود حضرت کا مؤمن اول اور پہلا مسلمان ہونا ہے۔

تحریر: مولانا محمد حسین بہشتی

حوزہ نیوز ایجنسیعلامہ اقبال فرماتے ہیں:مسلم اول شہ مردان علی، عشق را سرمایہ ایمان علی! سب سے بڑا امتیاز اور اہم ترین بات جس کے متعلق خود حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام بار بار ذکر فرماتے ہیں: خود حضرت کا مؤمن اول اور پہلا مسلمان ہونا ہے۔چنانچہ ستر قسم کے فضائل جو تنہا اور صرف اور صرف علی(ع) سے تعلق رکھتے ہیں،کے ضمن میں فرماتے ہیں:﴿ اِنِّی اَوَّلُ النَّاسِ اِیْمَانًا وَّ اِسْلَامًا﴾ ادھر رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم  ایک دن مسجد نبوی میں صحابہ کرام کی موجودگی میں علی سے فرماتے ہیں: یا علی کل آپ بقیع کے پہاڑ پر جاکر جب سورج طلوع کرے تو سورج سے بات کرنا! دوسرے دن صبح کو حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ حضرت ابوبکر و عمر مہاجر اورانصار کی ایک جماعت بھی ہمراہ تھی حضرت امیر المومنین علیہ السلام بقیع کے پہاڑ پر تشریف لے گئے جب سورج ہوا تو آپ نے سلام کیا السلام علیک یا خلق اللہ الجدید جب آپ نے سلام کیا تو آسمان اور زمین کے درمیان ایک آواز گونج اٹھی۔ اس آواز میں حضرت امیر المومینن علیہ السلام کے سلام کا جواب  موجود تھا "وعلیک السلام یا اول و یا آخر و یا ظاہر یا باطن یا من ھو بکل شئی علیم"، اس حدیث کے مطابق یہاں اول سے مراد سب سے پہلے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لانے والا اور تصدیق کرنے والا ہے اسی طرح دوسری صفات کی بھی تاویل موجود ہے ایک مقام پر آپ فرماتے ہیں:مَا شَکَکْتُ فی الْحَقِّ مَذَارِیتہ.

جب سے میرے اوپر حق ظاہر و آشکار ہواہے کبھی بھی حق کے بارے میں شک اور گمان کو راستہ نہیں دیاہے۔

اسی خصوصی امتیاز پرآپ نے اپنے مخالفین اور دشمنوں پر حجتّ قائم کی ہے چنانچہ ایک مقام پرآپ فرماتے ہیں:جو لوگ منافق ہوتے ہیں جو لوگ دوغلی پالیسی رکھتے ہیں اور جو ظاہر میں کچھ باطن میں کچھ، سامنے کچھ اور غائب میں کچھ اور ہوتے ہیں ظاہراً حضرت کے لشکر میں ہوتے تھے لیکن حقیقت میں یہ لوگ مولا علی  کے دشمن ہوتے تھے ان کی مذمت سخت لہجے میں فرماتے ہیں :وَلَقَدْ بَلَغَنی اَنَّکُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلِیّ یَکْذِبُ قَاتَلَکُمُ اللّٰہُ فَعَلٰی مَنْ اَکْذِبُ ؟أَعلٰی اللّٰہ ؟ فَاَنَا اَوَّلُ مَنْ آٰمَنَ لَہ، اَمْ عَلٰی رَسُوْلِہ ؟ فَاَنَا اَوَّلُ مَنْ صَدَّقَہ ''مجھے رپورٹ دی گئی کہ کہتے ہیں علی جھوٹ بولتے ہیں خدا تم لوگوں کو ہلاک کرے۔ کس کے بارے میں میں نے جھوٹ بولاہے؟ کیا خدا کے بارے میں جھوٹ بولاہے؟ خدا کی قسم میں تو وہ ہوں جو سب سے پہلے ایمان اور اسلام لانے والا ہوں اور سب سے پہلے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کرنے والا ہوں اور دوسرے مقام پر آپ فرماتے ہیں :اَتَرَانی اُکَذِّبُ عَلٰی رَسُوْلِ ۖ اللّٰہِ؟وَاللّٰہِ لَاَنَا اَوَّلُ مَنْ صَدَقَہ فَلاَاَکُوْنُ اَوَّلَ مَنْ کَذِبَ عَلَیْہِ ؟
''کیا یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہو کہ میں رسول پر جھوٹ کی نسبت دے رہا ہوں؟ خدا کی قسم میں اس کی رسالت کی تصدیق کرنے والا ہوں اس بنا پر میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں گا جنہوں نے ان کی طرف جھوٹ کی نسبت دی ہے۔ اسی لیے حضرت افتخار اور امتیاز کے ساتھ فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا،میں کبھی بھی گمراہ نہیں ہوا اور نہ ہی کسی صورت میں گمراہی کی طرف جاؤں گا ان کی فضیلت میں سے ایک امتیاز اور افتخار کی بات یہ ہے کہ آپ بچپن سے ہی مؤمن تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کی فضیلت، آپ کی خصوصیت اور آپ کی شان اور عظمت مسلمانوں میں منفرد ہے جیسا کہ آپ خود فرماتے ہیں'' اِنِّیْ لَمْ اُشْرِکْ بِااللّٰہِ طَرْفَةَ عَیْنٍ وَلَمْ اَعْبُدْ اللّٰاتَ وَالْعُزّٰی"میں نے کبھی بھی حتی کہ چشم زدن میں خداوند عزوجل کا شریک قرار نہیں دیا اور کبھی بھی لات و منات و عزا اور زمانہ جاہلیت کے بتوں کی پرستش نہیں کی ہے۔

اس بات کی طرف غور کریں کہ اصحاب اور انصارپیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں وہ صفات اور وہ شوق اقتدار نہیں پائے جاتے تھے جو ان کے اسلام لانے سے قبل اورحالت کفر میں پائے جاتے تھے ۔ لہذا آپ نے بہت ہی خوبصورت انداز میں ان منافقوں کو جواب دیا ہے جب سوال کرنے والے نے یہ سوال کیا کہ آپ کب مسلمان ہوئے ہیں؟ تو جواب دیا علی کب کافر تھا کہ مسلمان ہوجائے !!؟  

اس نےحقیقت میں فطرت اسلام کے مطابق ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا ہے۔  
ہاں! یہ فقط علی ہی تھے جو کبھی بھی کسی بت کے سامنے سجدہ ریز نہ ہوئے۔ آپ دنیا میں آتے ہی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیر تربیت رہے اسی لیے علی علیہ السلام کے مربّی اور استاد خود ذات مقدس پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔

لہذا جیسے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ویسے علی اور خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  انا و علی من نور واحد ''میں اور علی ایک ہی نور سے ہیں لہذا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبوت و رسالت کے عہدہ پر فائز ہیں تو علی امامت اور وصایت کے عہدہ پر فائز ہیں۔ خداوند عالم نے مسلمانوں کو عقل دی ہے کہ وہ منافقوں کے پروپیگنڈہ میں آکرکہیں رسول اور امام کی توہین نہ کریں ورنہ خسارتِ دنیاوآخرت کے دھبّے ان کی پیشانی پرلگ جائیں گے۔

خود امیرالمؤمینن علی علیہ السلام نے معاویہ اور ان کے مزدوروں کے حوالے سے جب آپ کے اوپر سبّ کرنے کے غمناک واقعہ کی پیشن گوئی کی تھی اسی ضمن میں آپۖ نے فرمایا تھا: معاویہ ابن ابی سفیان لوگوں سے کہے گا ''کہ علی کو برا بھلا کہے اور علی سے بیزاری کا اظہار کریں'' اوریہ بات بھی حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا تھا:'' کہ مجھ سے بیزاری کا اظہار کرنے کا کیا معنی جبکہ میں فطرت اسلام  پر اور سب سے پہلا مسلمان ہوں!! اسلام میں ہجرت اورایمان کے حوالے سے کسی نے مجھ پر سبقت نہیں لی ہے''۔

ایک مقام پر آپ فرماتے ہیں: خداوند ا! میں اس امت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی کو نہیں جانتا جس نے تیری عبادت کی ہو۔

جو کچھ اس مختصر سی تحریر میں نقل کیا ہے وہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے کلام ہی سے نقل کیا ہے اور آخرمیں بھی امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دو روایتوں پر اختتام کرتا ہوں۔ اس روایت کو اہلسنّت کے مشہور مفسر زمخشری نے اپنی تفسیر میں ایک روایت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ والسلام سے نقل کی ہے آپ نے فرمایا:امتوں کے درمیان فقط تین اشخاص ہوا کرتے تھے جو سب سے پہلے خدا پر ایمان لانے میں سابق ہوئے ہیں اور کبھی  یہاں تک کہ چشم زدن میں بھی خدا کا کسی کو شریک نہیں قرار دیا اور ان تین اشخاص کے نام  یہ ہیں :
١۔علی ابن ابی طالب 
٢۔صاحب یس 
٣۔مؤمن آل فرعون 
اسی مطلب کواہل سنت کے دوسرے دانشور اور مفسر علامہ سیوطی نے اپنی تفسیر میں ابن عباس کے حوالے سے اس حدیث کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا ہے البتہ اس حدیث میں حضرت علی علیہ السلام کو دوسرے دونوں سے افضل قرار دیا ہے۔ اسی حدیث کو شیعہ منابع سے بھی نقل کیا گیاہے۔

دوسری حدیث میں حضرت علی علیہ السلام کے صحابی بنام عاصم بن ظریف نقل کرتے ہیں:۔ میں اور مسلمانوں میں سے چند افراد حج کو انجام دینے کے بعد واپسی پر ربزہ کے مقام پر رک گئے اور جناب ابوذر غفاری سے ملاقات کی اور ان سے مفصل گفتگو کی جب ہم خدا حافظی کررہے تھے تودرمیان میں مسلمانوں کے درمیان اختلافات کے بارے میں بات ہوئی اس وقت فتنہ و فساد نے چاروں طرف سے مسلمانوں کو گھیر لیا تھا اور حق و باطل خلط ملط ہو چکا تھا۔اس پر آشوپ دور کے بارے میں میں نے جناب ابوذر سے پوچھاکہ ایسی حالت میں کیا کیا جائے تاکہ ایمان ہاتھ سے جانے نہ پائے؟ جناب ابوذر نے فرمایا: ان حالات سے بچنے کے لیے صرف ایک ہی راہ ہے وہ کتاب خدا اور عترت یعنی علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے مضبوطی کے ساتھ متمسک رہیں۔خدا کی قسم  میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھ کو پکڑ کر فرمایا: یہی علی ہیں جس نے سب سے پہلے میرے اوپر ایمان لایا اور میری نبوت کی تصدیق کی۔ قیامت کے دن سب سے پہلا شخص یہی ہوگا جو مجھ سے ملحق ہوگا اور علی مجھ سے مصافحہ کریں گے۔ وہ مؤمنین کے رہبر اور مددگار ہوں گے جب کہ مال و دولت ظالموں کے مدد گار ہوں گے۔ وہ صدیق اکبر یعنی سب سے پہلے تصدیق کرنے والے ہیں  اور فاروق اعظم یعنی حق کو باطل سے جدا کرنے والے ہیں۔

کلام اقبال
مسلم اول شہہ مردان علی
عشق را سرمایۂ ایمان علی
از ولای دودمانش زندہ ام
درجہان مثل گہر تابندہ ام
مرسل حق کرد نامش بوتراب
حق یداللہ خواند در ام الکتاب
ہرکہ دانای رموز زندگیست
سر اسمای علی داند کہ چیست
ذات او دروازۂ شہر علوم
زیر فرمانش حجاز وچین وروم!

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .