۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
News ID: 366056
25 فروری 2021 - 13:24
محمد رضا مبلغ

حوزہ/ ۱۳رجب وہ بابرکت دن تھا جب فاطمہ بنت اسد امانت الٰہی کو لئے خانۂ کعبہ کے پاس گئیں۔آپ کو دیکھتے ہی کعبے کی فصیلوں نے مسکراکر آپ کا اور اس آنے والے ناصر دین مبیں کا استقبال کیا۔

تحریر: محمد رضا مبلغ جامعہ امامیہ تنظیم المکاتب

حوزہ نیوز ایجنسی | ۱۳رجب وہ بابرکت دن تھا جب فاطمہ بنت اسد امانت الٰہی کو لئے خانۂ کعبہ کے پاس گئیں۔آپ کو دیکھتے ہی کعبے کی فصیلوں نے مسکراکر آپ کا اور اس آنے والے ناصر دین مبیں کا استقبال کیا۔جسے شاعر نے یوں رقم کیا ہے:

"غیروں کے واسطے ہے کہ آئیں تو در سے آئیں 

لیکن جو اہل بیتؑ ہیں چاہے جدھر سے آئیں"

کیوں کہ وہ حامی حق اور کل ایمان آنے والا ہےجو دین اسلام کو بچانے اور پھیلانے میں رسول اسلامؐ کی مدد کرے گا ۔فاطمہ بنت اسدخانۂ حق کے اندر تشریف لے گئیں ،جہاں پرکائنات کی افضل ترین صاحب عصمت وطہارت بی بیوںکی دیکھ بھال میں علی ابن ابی طالب علیہ السلا م کی ولادت ہوئی۔

یہ صرف علیؑ کی ولادت نہ تھی،بلکہ عدل وانصاف کاایسا آفتاب طلوع ہورہاتھا جو اپنی روشنی سے پورے عالم میںپھیلے ظلم وستم اور ناانصافی کے اندھیرے کو ختم کردے گا ،زمانے میں امن وامان قائم کرے گا ،بھوکوں کو کھانا،بے لباسوں کو لباس اور بے مکانوں کو رہنے کا سہارا عطا کرے گا۔جس کی تعریف اپنے تو اپنے غیر بھی کرتے نظر آئیں گے ۔ ’’ندائے عدالت انسانی ‘‘اسی جرس عدل کی آواز ہے۔

ولادت کےتیسرے دن فاطمہ بنت اسد خانہ زاد رب اکبر کو اپنے ہاتھوں پہ لئے کعبہ سے باہر آئیں۔سید الانبیاء ،سید الاوصیاء کے استقبال کے لئے آگے بڑھے،علی کواپنے ہاتھوں پہ لیا۔فرمایا:خصصتنی للنظر خصصتک للعلم کہ تم نے مجھے اپنی پہلی نگاہ کے لئے منتخب کیا میں بھی اپنے علم کے لئے تمہیں مخصوص کرتا ہوں ،علیؑ نے چار آسمانی صحیفوں کی تلاوت کی ،رسول ؐ نے یہ سند دی کہ تم نے صاحبان کتاب سے اچھی تلاوت کی اور قرآن کو مجھ جیسا پڑھا۔ہنستے مسکراتےمحسن اسلام حضرت ابوطالبؑ تشریف لائے ۔بیٹے کو دیکھاا ور حکم خدا سے مولودکعبہ کا نام ’’علی‘‘رکھا۔

علامہ محمد ابنِ یوسف کنجی شافعی، اپنی کتاب ’’کفائتہ الطالب‘‘ میں جنابِ ابو طالب (ع) کا یہ شعر لکھتے ہیں:

سمیته بعلی کی یدوم له عز العلو فخر العزا دومه

(میں نے ان کا نام علی اس لئےرکھا تاکہ سربلندی کی عزت ان کے لئے ہمیشہ رہے اور عزت کا فخر ان کو ہمیشہ اپنے ساتھ لئے رہے)۔

تمام تذکرہ نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت علی (ع)، نبی اکرم (ص) کے بعد اسلامی تاریخ میں ہرطرح سے ممتاز و مثالی شخصیت کے حامل تھے۔حقیقت بھی یہی ہے کہ آپ کی ذات اقدس واعلیٰ تھی ،آپ کے لئے قدرت نے خاص انتظام کیا تھا۔آپ کےشرف و امتیازات میں یہ بھی ہے کہ کعبہ میں صرف آپ ہی کی ولادت ہوئی۔سب سے پہلے رسول اسلام ؐ کے چہرۂ پرنور کی زیارت کی۔بتوں کو آپ ہی نے توڑا،رسول ؐ کے دوش مبارک پر آپ ہی کے قدم آئے،ذوالعشیرہ میں آپ ہی کو وصایت رسول کی ذمہ داری ملی،تمام تر فتوحات کا سہرہ آپ ہی کے سر بندھا ،خیبر میں علم آپ ہی کو ملا،تبلیغ سورۂ برات کی ذمہ داری آپ ہی کو دی گئی،فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاآپ کی ہمسر بنیں،شب ہجرت بستر رسول ؐ پرجانشینی کاشرف آپ کو ملا،ناصر رسول ؐ کا تمغہ آپ کے سینے پر لگا،غدیر میں سوالاکھ حاجیوں کے درمیان رسولؐ نےاپنے ہاتھوں پر بلند کرکے آپ کی ولایت کا اعلان کیا ،رسول کو غسل وکفن آپ ہی نے دیا ،رسول اسلامؐ کو لحد میں آپ نے اتارا،حالت سجدہ میں آپ کی شہادت ہوئی۔اس کے علاوہ بہت سے امتیازات ہیں جو تاریخ کے سینے پر مرقوم ہیں۔

علی کے فضائل میں ایک بڑا شرف ہے کعبۃ اللہ میں آپ کی ولادت ہونا۔

بقول نباض ادب :

"یہ اتنی حسیں راہ گذر تیرے لئے ہے

آجلد کہ دیوار میں در تیرے لئے ہے

ممکن ہے صدا آئے ولادت پہ علیؑ کی

میں تیرے لئے ہوں میرا گھر تیرے لئے ہے"

لوگ کہتے ہیں کہ یہ کوئی امتیاز اور فضیلت کی بات نہیں ہے۔بلکہ آپ سے پہلے بھی حزیمہ ابن حاکم کی ولادت ہوچکی ہے۔

جب کہ شاہ محدث دہلوی اپنی کتاب ازالۃ الخفاء ص ۲۵۱ پر تحریر فرماتے ہیں:

(قَدْ تَوَاتَرَتِ الأَخْبَارُ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَسَدٍ وَلَدَتْ أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ عَلِيًّا فِي جَوْفِ الكَعْبَةِ... وَلَمْ يُولَدْ فِيهَا أَحَدٌ سِوَاهُ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ).

 اِزَالَۃ الخَفَاء ۲۔۲۵۱۲

متواترروایات سے ثابت ہوتا ہے کہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام بروز جمعہ ۱۳ رجب سنہ ۳۰ عام الفیل کو وسط کعبہ میں فاطمہ بنت اسد کے بطن مبارک سے ولادت پائی،اور آپ کے علاوہ نہ آپ سے پہلے اور نہ آپ کے بعد کوئی خانۂ کعبہ میں پیدا ہوا۔

اس طرح کی بے شمار ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ امام علی علیہ السلام خانۂ کعبہ میں پیداہوئے، اور آپ سے پہلے خانۂ کعبہ میں کسی کی ولادت نہیں ہوئی۔اور اگر کسی کی ولادت کو محمد بن عثمان کی روایت سے ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو وہ بھی غلط ہے اس لئے کہ علمائے رجال کے نزدیک محمد بن عثمان کی کوئی حیثیت نہیں ہے،وہ روایت بھی مرسل ہے اورمحمد عثمان نے جو واقعہ بیان کیا ہے اس واقعہ کے برسوں بعد پیدا ہوا ہے۔

آخر کلام میں بس یہی کہوں گا کہ ۱ عام الفیل کو آدھا نور رب کریم سرزمین بطحا پر بھیج چکا تھا اور بچا ہوا آدھا نور ۳۰ عام الفیل کو سرزمین بطحا پر اپنے گھر میں اتارا:

شاعر نے بہت اختصار سے اس انداز میں بیان کیا ہے:

"جیسے ہی نصف نور ملا نصف نور سے

اپنے کو کردگار نے دیکھا غرور سے"

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .