۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
حضرت علی

حوزہ/ مختلف مکاتب ومسالک، مذاہب و ادیان کے علماء و دانشوروں نے حضرت علی علیہ السلام کو ان تمام انسانوں کے لئے نمونہ قرار دیا ہے ۔ اس مختصر مقالے میں حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں چند ایک غیر مسلم دانشوروں کے افکار و نظریات کو مختصر طور پہ بیان کیا گیا ہے۔ 

تحریر: مولانا اجمل حسین قاسمی
تمہید :
حوزہ نیوز ایجنسی | امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی شخصیت  کے بارے میں مختلف ملل و مذاہب کے مصنفین اور دانشمندوں نے گفتگو کی ہے اور بہت ساری کتابیں لکھی ہیں جن میں سے ہر ایک کتاب حضرت علی علیہ السلام کی زندگی کے ایک چھوٹے سے حصے کو بیان کرتی ہے اور ان کی زندگی کا ہر پہلو تمام  نوع انسانی بلا تفریق رنگ و نسل ، مذہب و مکتب ، قوم و ملت ، شرق و غرب    زندگی کے تمام مراحل ، شعبے اور ادوار کے لئے مشعل راہ ہے ۔ آج علماء و دانشور اپنی علمی پیاس بجھانے اور ناخواندہ اپنے ہادی سے درس ہدایت کی تلاش میں ہیں ۔ زاہد ، متقی ، عابد  امام المتقین کی تلاش میں ہیں ۔ حقوق انسانی سے لے کر حقوق غیر بشری تک یا گھریلو حقوق سے لےکر عالمی طبقاتی و غیر طبقاتی حقوق تک سب فطری طور پر ایک ایسے ہی فطری رہنماء کی تلاش میں ہیں ۔ سیاستدان اپنی سیاست ، دیندار اپنے دینی مسائل ، تاجر اپنی تجارت کے معاملات میں ، محقق اپنی تحقیق کے مراحل میں ، فطرت سلیم جیسے کامل ترین رہنماء کی تلاش میں ہیں ۔ مختلف مکاتب ومسالک ، مذاہب و ادیان کے علماء و دانشوروں نے حضرت علی علیہ السلام کو ان تمام انسانوں کے لئے نمونہ قرار دیا ہے ۔ ہم اپنے اس مختصر مقالے میں حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں چند ایک غیر مسلم دانشوروں کے افکار و نظریات کو مختصر طور پہ بیان کرتے ہیں۔ 


مادام دیالافو   (Jane Dieulafoy)
یہ ایک فرانسیسی سیاح ہے جو حضرت علی کے بارے میں لکھتا ہے : شیعہ علی علیہ السلام کا بی نہایت احترام کرتے ہیں اور حق بھی یہی ہے کیونکہ اس بزرگ ہستی نے اسلام کی سربلندی و سرافرازی کے لئے جنگوں کے علاوہ بہت ساری فداکاریاں انجام دی ہیں ۔ علم ، فضائل ، عدالت  اور نیک صفات میں بے مثال تھے ۔ اپنے بعد ایک پاک و پاکیزہ اور مقدس نسل کو باقی رکھا جنہوں نے ان کی پیروی کی اور اسلام کی سربلندی کے لئے مظلومانہ طریقے سے اپنی جانیں قربان کیں ۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام وہ ہستی ہیں جنہوں نے ان تمام بتوں کو توڑا جنہیں اعراب خدا کے شریک سمجھتے تھے ۔ علی علیہ السلام نے توحید و یکتا پرستی کی تبلیغ کی ۔ علی علیہ السلام وہ ہستی ہیں کہ جن کا کردار اور عمل تمام مسلمانوں کے لئے منصفانہ تھا  ۔
جانین:
یہ جرمنی کا ایک مشہور و معروف شاعر ہے جو حضرت علی کے بارے میں لکھتا ہے : "علی علیہ السلام سے محبت کرنے  اور اُن پر فدا ہونے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ ہی نہیں کیونکہ وہ شریف النفس اور بلند مرتبہ کے جوان تھے۔ ایسےپاک نفس کے مالک تھے جو مہربانی اور نیکی سے بھرا ہوا تھا۔ اُن کا دل جذبہ ایثار اور ہمدردی سے لبریز تھا۔ وہ بپھرے ہوئے شیر سے بھی زیادہ بہادر اور شجاع تھے، ایسی شجاعت جو لطف و مہربانی، ہمدردی اور محبت کے جذبات سے سرشار تھی"۔ 

پروفیسر استانسیلاس گویارد : Guyard , Stanisals
یہ فرانس کے ایک پروفیسر اور مشہور و معروف مصنف ہیں جو حضرت علی کے بارے میں فرماتے ہیں :"معاویہ نے قواعد اسلام کے خلاف بہت سے اقدامات کئے جیسے  علی ابن ابی طالب کے ساتھ جو بعد از پیغمبر اسلام شجاع ترین، پرہیزگار ترین، فاضل ترین اور خطیب ترین فردِ عرب تھے، سے برسرِ پیکارہوگیا"۔ 
واشنگٹن ارونیک  :  Washington Irving
یہ امریکہ کے ایک محقق اور مصنف ہیں جو حضرت علی کے بارے میں لکھتے ہیں : علی علیہ السلام کا تعلق عرب قوم کے با عظمت ترین خاندان یعنی قریش سے تھا ۔ وہ تین بڑی خصلتوں ، شجاعت ، فصاحت اور سخاوت کے مالک تھے ۔ ان کے دلیرانہ اور شجاعانہ روح کی وجہ سے انہیں شیر خدا کا لقب ملا ۔ وہ لقب جسے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں عطا کیا  ۔
جُرجی زیڈان : Jurji Zaydan
یہ عرب کے مشہور و معروف  عیسائی دانشور اور مصنف ہیں جو حضرت علی کے حوالے سے لکھتے ہیں : اگر میں کہوں کہ( مسیح حضرت عیسی) علی علیہ السلام سے بالا تر تھے تو میری عقل اس بات کی اجازت نہیں دیتی اور اگر میں کہوں کہ علی علیہ السلام  مسیح سے بالاتر تھے تو میرا دین اجازت نہیں دیتا  ۔ "معاویہ اور اُس کے ساتھیوں نے اپنے  فردی مقاصد کے حصول کیلئے کسی بھی جنایت سے دریغ نہ کیا لیکن علی علیہ السلام اور اُن کے ساتھی صراطِ مستقیم اور حق کے دفاع سے کبھی پیچھے نہ ہٹے"۔ 
ڈاکٹر پولس سلامہ  : Dr.Bolas Salameh
یہ ایک عیسائی ادیب و حقوق دان ہیں جو حضرت علی کے بارے میں لکھتے ہیں:علی علیہ السلام اس مقام و منزلت تک پہنچ چکے تھے کہ ایک دانشور اسے علم و ادب کے آسمان کا درخشان ستارہ سمجھتا اور ایک اعلی و برجستہ مصنف علی علیہ السلام کے شیوہ نگارش کی پیروی کرتا ہے۔  ایک فقیہ ہمیشہ علی علیہ السلام کے تحقیقات و ابتکارات پہ تکیہ کرتا ہے۔ علی علیہ السلام اپنے فیصلوں میں کسی استثناء کے قائل نہیں ہوتے  اور عدل و انصاف کے مطابق حکم کرتے ، غلام و آقا کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے تھے۔ علی علیہ السلام ہمیشہ یتیموں و فقیروں کی حالت پہ غمگین ہوتے اور ان کا خیال رکھتے تھے  
ایلیاپاولویچ پطروشفسکی:  Pavlovich Petrushevsky Ilya
یہ روس کے معروف مورخ و تاریخ دان ہیں جو حضرت علی کے بارے میں لکھتے ہیں : "علی ،محمد کے تربیت یافتہ اور  دین اسلام کے بےحد وفادار تھے۔ علی علیہ السلام عشق کی حد تک دین کے پابند ، سچے اور صادق تھے۔ اخلاقی معاملات میں انتہائی منکسر المزاج تھے۔ وہ شاعر بھی تھے۔ اُن کے وجودِ پاک میں اولیاء اللہ ہونے کیلئے لازم تمام صفات موجود تھیں"۔ 
روڈلف زیگر  : Rudolf Zechner
یہ جرمنی کے معروف محقق و مصنف ہیں جو حضرت علی کے بارے میں فرماتے ہیں :صدر اسلام میں علی علیہ السلام بے مثال دانشمندوں میں سے ایک تھے۔ علی علیہ السلام مختلف ممالک خصوصا ایران میں اچھی طرح جانے پہچانے جاتے تھے ۔ جبکہ وہ ایک جوان مرد تھے اور بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ ایک جوان دانشور اپنی زادگاہ  و  ملک سے باہر معروف ہو اور  احترام پیدا کرے  ۔
بارون کارادوو :  Bernard Carra de Vaux
یہ فرانس کے ایک مشہور و معروف محقق  و مورخ ہیں جو کہ حضرت علی کے بارے میں لکھتے ہیں : "علی علیہ السلام ایسے بلند ہمت، شجاع اور بہادرانسان تھے جو پیغمبر اسلام کے ہمراہ اُن کے قدم بہ قدم دشمنوں کے ساتھ جنگ لڑتے رہے اور آپ نے بڑے بڑے معجزہ نما کام انجام دئیے۔ معرکہٴ بدر میں علی علیہ السلام 20سالہ جوان تھے کہ اپنے ایک ہی وار میں قریش کے ایک گھڑ سوار کو دو ٹکڑے کردیا۔ جنگ ِ اُحد میں پیغمبر اسلام کی تلوار(ذوالفقار) کو اپنے ہاتھ میں لیا اور دشمن کے سروں کو کاٹ دیا۔ اُن کی زرہوں کو پھاڑ دیا۔ جنگ ِخیبر میں ایک ہی حملے میں یہودیوں کے قلعہ کے بہت ہی وزنی دروازے کو اپنے ایک ہاتھ سے اکھاڑ دیا اور اُسے اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ پیغمبر اسلام اُن کو بہت عزیز رکھتے تھے اور اُن پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ ایک دن پیغمبر نے علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:"مَنْ کُنْتُ مَوْلاہُ فَعَلِیٌ مَوْلَاہُ ۔ 
ویل دورانٹ : Will Durant
یہ انگلینڈ کے مشہور خاور شناس ہیں کو حضرت علی کے بارے میں فرماتے ہیں :علی علیہ السلام جوانی کے عالم میں ہی دین کی راہ میں تواضع ، تقوی ، خوش خلقی و اخلاص کے نمونہ کامل تھے  ۔
جرج جرداق :  George Jordac
یہ ایک مسیحی لبنانی مشہور و معروف مصنف ہیں جنہوں نے (الامام علی صوت العدالۃ الانسانیۃ )کے عنوان سے پانچ جلدوں پر مشتمل حضرت علی علیہ السلام پہ کتاب لکھی ہے جو عصر حاضر میں اپنی نوعیت کی بے مثال کتاب ہے ۔
جرج جرداق علی علیہ السلام کی عدالت کے بارے میں فرماتے ہیں : " قتل فی محرابہ لعدالتہ " علی علیہ السلام  اپنی عدالت کی وجہ سے نماز کے محراب میں مارے گئے ۔ خرد میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔ وہ اسلام کے قطب اور معارف و علوم عرب کے سرچشمہ تھے۔ عرب میں کوئی ایسا علم پایا نہیں جاتا جس کی بنیاد علی علیہ السلام نے نہ رکھا ہو یا اس کے وضع میں شریک و سہیم نہ رہے ہوں  ۔ علی علیہ السلام کی لوگوں کے ساتھ الفت اور لوگوں کی علی علیہ السلام کے ساتھ محبت اور دوستی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ حقیقی بزرگوار وہ ہے جو نیکی کا دوستدار ہو اور اسی نیکی کی راہ میں شہید ہو۔ علیہ علیہ السلام وہی شہید بزرگوار ہیں  ۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام منبر پر بڑے اطمینان اور اعتمادِ کامل کے ساتھ اپنے ارشاداتِ عادلانہ کا پرچار کرتے اور تقریر کرتے۔ وہ بہت سمجھ دار اور جلد نتیجہ پر پہنچنے والے انسان تھے۔ وہ لوگوں کے دلوں کے رازوں سے آگاہ تھے اور اُن کی اندرونی ہوس و خواہشات سے بھی واقف تھے۔ علی علیہ السلام  ایسا دل رکھتے تھے جو محبت و مہربانی سے مالا مال تھا اور آزادی اور فضائلِ انسانیت سے پُر تھا۔ علی علیہ السلام سچائی اور راست گوئی سے زندگی میں پہچانے گئے اور یہ ان کا طرہ امتیاز ہے  ۔ 
آج کے دور میں جب ایسے حالات پیدا کردئیے گئے ہیں جو اقوام کی بدبختی کا باعث ہیں اور دنیا جنگ کے شعلوں میں جل رہی ہے، یقینا واجب ہے کہ ہم حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ارشادات و اقوال پر کان دھریں اور اُن کو مشعلِ راہ بنالیں اور اُن کے آگے سرِ تعظیم خم کردیں"۔ 
شبلی شُمَیِّل : Shameel Shibly
یہ ایک عیسائی محقق و ڈاکٹر ہیں جو حضرت علی کے بارے میں لکھتے ہیں :"امام علی ابن ابی طالب علیہما السلام تمام بزرگ انسانوں کے بزرگ ہیں اور ایسی شخصیت ہیں کہ دنیا نے مشرق و مغرب میں، زمانہٴ گزشتہ اور حال میں آپ کی نظیر نہیں دیکھی"۔ 
جبران خلیل جبران : Kahlil Gibran
یہ ایک مشہور و معروف عرب عیسائی مفکر مصنف و دانشور ہیں جو حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں :"میرے عقیدے کے مطابق ابو طالب کا بیٹا علی علیہ السلام پہلا عرب تھا جس کا رابطہ کل جہان کے ساتھ تھا ۔ وہ عرب کے پہلے شخصیت تھے جنہوں نے روح کلی کے نغمے لوگوں کے گوش گزار کئے جنہیں کسی نے اس سے پہلے نہیں سنا تھا ۔ علی علیہ السلام نے اس حال میں  دنیا فانی سے رخت سفر باندھا کہ اپنی رسالت کو دنیا والوں تک نہیں پہنچا سکے ۔ ان پیغمبروں کی طرح جو کسی قوم یا ملت میں مبعوث ہوتے تھے لیکن ان میں پیامبران کے لئے کوئی گنجائش اور ان کی معرفت نہیں ہوتی تھی اور ایسے لوگوں کے درمیاں ہوتے تھے کہ وہ ان پیغمبران کے لائق اور قابل نہیں تھے۔ اور ایسے زمانے میں ظہور کرتے تھے جو ان کا زمانہ نہیں ہوتا تھا۔ اس کام میں خدا کی کوئی مصلحت پوشیدہ ہے کہ خدا خود دانا تر ہے  ۔
ہنری لامنس  : Henri Lammens
یہ بیلجیم کے مشہور خاورشناس ہیں جو حضرت علی کے بارے میں لکھتے ہیں :علی علیہ السلام کی عظمت کے لئے اتنا بس ہے کہ وہ تمام اخبار و معارف کے سرچشمہ ہیں ۔ ان کا حافظہ و توانائی حیرت انگیز تھی ۔ تمام علماء و دانشور اپنی احادیث اور اخبار کو وثاقت اور اعتبار بخشنے کے لئے ان تک پہنچاتے ہیں اور تمام علمائے اسلام ، مخالف و موافق ، دوست و دشمن اس بات پر افتخار کرتے ہیں کہ وہ اپنی باتوں کو علی علیہ السلام سے استناد کرتے ہیں  ۔
 تھامس کارلائل : Thomas Carlyle
یہ ایک انگریز فلاسفر اور رائٹر ہیں جو حضرت علی کے بارے میں لکھتے ہیں :"ہم علی کواس سے زیادہ نہ جان سکے کہ ہم اُن کو دوست رکھتے ہیں اور اُن کو عشق کی حد تک چاہتے ہیں۔ وہ کس قدر جوانمرد، بہادر اور عظیم انسان تھے۔ اُن کے جسم کے ذرّے ذرّے سے مہربانی اور نیکی کے سرچشمے پھوٹتے تھے۔ اُن کے دل سے قوت و بہادری کے نورانی شعلے بلند ہوتے تھے۔ وہ دھاڑتے ہوئے شیر سے بھی زیادہ شجاع تھے لیکن اُن کی شجاعت میں مہربانی اور لطف و کرم کی آمیزش تھی۔
حضرت علی کوکوفہ میں قتل کیا گیا ۔عدالت میں سختی  اس جنایت کی وجہ بنی۔ وہ دوسروں کو بھی اپنی طرح عادل تصور کرتے تھے ۔شہادت سے پہلے اپنے قاتل کے بارے میں فرمایا :اگر میں زندہ رہا تو میں جانتا ہوں(کہ مجھے کیا فیصلہ کرنا چاہئے) ۔اگر میں زندہ نہ بچ سکا تو یہ کام آپ کے ذمہ ہے۔اگر آپ نے قصاص لینا چاہاتو آپ صرف ایک ہی ضربت لگا کر سزا دیں اور اگر اس کو معاف کردیں تو یہ تقویٰ کے نزدیک تر ہے"۔ 
میخائل نعیمہ : Mikha'il Na'ima
"یہ عرب کے مشہور عیسائی متفکر و مصنف ہیں جو حضرت علی کے بارے میں فرماتے ہیں : امام علی علیہ السلام کی قوت و شجاعت  صرف میدانِ جنگ تک محدود نہیں تھی ۔ بلکہ فاتح تھے طہارت ضمیر میں ، حرارتِ ایمانی میں ، تقویٰ میں ، نرم خوئی  میں ، بلند ہمتی میں ، دردِ انسانی میں ، جادوبیانی میں ، مددِ محروم و مظلوم اور حمایت ِحق میں ۔ اورہر حال میں  سر تسلیم خم تھے حق کے لئے چاہے حق جس شکل و صورت میں بھی تجلی پیدا کرے۔ یہ فاتحانہ توانائی  ہمارے لئے ہمیشہ محرک اور شوق آور ہے اگرچہ زمانے گزرچکے ہوں  ۔ 
نرسیسان : Nrsysan
یہ ایک مشہور و معروف عیسائی دانشور ہیں جو حضرت علی کے بارے میں لکھتے ہیں :اگر یہ با عظمت خطیب امام علی علیہ السلام  آج اسی زمانے میں مسجد کوفہ کے منبر پہ بیٹھ جاتا ، آپ دیکھتے  کہ مسجد کوفہ اپنی اس وسعت کے باوجود ، علی علیہ السلام کے علم بیکراں سے استفادہ کرنے کے لئے مغرب کے لوگوں اور دنیا کے دانشوروں سے کھچا کھچ بھر جاتی ۔ 
ابولفرج اہرون معروف بہ ابن العبری :
یہ ایک معروف عیسائی مورخ و دانشور ہیں جو حضرت کے بارے میں لکھتے ہیں :وہ علی علیہ السلام ہی تھے کہ جس نے خلفاء کے زمانے میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فقدان اور خلا کو پر کیا  پیغمبر اسلام کے بعد عقیدتی جنگوں کی ذمہ داری ان کے اوپر تھی ۔ جس کی گواہی تاریخ میں ثبت شدہ علی علیہ السلام کے مناظرات و احتجاجات دیتے ہیں ۔ خلفاء کے درمیان حضرت علی علیہ السلام کے وجود مقدس نے پیغمبر کے با عظمت مقام و منزلت کو پر کیا ہوا تھا ۔ شیعہ و سنی کتابیں ایسے مطالب سے پر ہیں جس کا ایک چھوتا سا نمونہ عمر کی یہ بات ہے " لولا علی لھک عمر " جو کہ کم از کم ستر دفعہ تاریخ میں ثبت و ضبط ہو چکی ہے  ۔
حرف آخر :
اس مختصر سے مقالے میں اس ہستی کے بارے میں غیر مسلم دانشوروں کی نگاہوں کی جستجو کی کوشش کی گئی ہے جیسا کہ معلوم ہوا ہر ایک نے ایک خاص زاویے سے امام علی علیہ السلام کی شخصیت پر نگاہ ڈال کر آنحضرت علیہ السلام کے کمالات کا اعتراف کیا ہے ۔ امام علی علیہ السلام کے کمالات کے مطابق اگر کل کائنات بھی آنحضرت علیہ السلام کی مدح و ستائش میں گفتگو کرے تب بھی اس ہستی کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ چودہ صدی گزرنے کے باوجود اب بھی اس ہستی کے بارے میں بات کرنا ایسا ہے جیسے آج ہمارے دور کی کسی ہستی کے بارے میں گفتگو ہورہی ہو ۔ اس طولانی مدت میں اس ہستی کے بارے میں بے حد کتابیں لکھی جاچکی ہیں لیکن اس کے باوجود اس ہستی کی حقیقت تک کوئی نہیں پہنچ سکا ۔ جس طریقے سے اسے جانا اور پہچانا جاتا ، اس کی معرفت حاصل نہیں کرسکے ۔ حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں گفتگو کرنا فقط ان کی زندگی کے ادوار ، نشوونما  اور زندگی کی تاریخ پر منحصر نہیں ہے ۔ ان کے اعمال ، گفتار ، خطوط ، احکام و فیصلہ جات سب کے سب اپنے اندر حکمت و دانش کی ایک دنیا سمیٹے ہوئے ہیں جو ہر ایک اپنی جگہ پہ دنیا والوں کے لئے مشعل راہ اور دستورالعمل بن سکتے ہیں ۔ اسی وجہ سے تاریخ کی اس بزرگ ہستی ، پرچم دار و منادی حقوق انسانی کے بارے میں گفتگو کرنا حقیقت میں کسی ملت و مذہب کے ساتھ مختص و منحصر نہیں اور دنیا کے تمام لوگوں کے ساتھ متعلق اور کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے ۔ 
 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .