تحریر: مولانا محمد لطیف مطہری کچوروی
حوزہ نیوز ایجنسی। جب بھی زبانوں اور کانوں میں لفظ وفا آتا ہے، ایک ہی لمحے میں ذہن ایک پیکر وفا کی طرف جاتا ہے، جس نے صحیح معنوں میں وفا کے مفہوم کو دنیا والوں کو سمجھا دیا۔ وہ پیکر وفا جس نے وفا کا اصلی روپ دکھایا، وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا بہادر اور شیر دل فرزند حضرت عباس علیہ السلام ہے۔ حضرت عباس علیہ السلام کی قدر و منزلت اس حدیث سے معلوم ہوتی ہے کہ:(وَإنَّ لِلْعَبّاسِ عِنْدَ اللَّهِ تَبارَكَ وَتَعالی مَنْزِلَةٌ يَغبِطَهُ بِها جَمیعَ الشُّهدَاءِ يَوْمَ القِیامَةِ)1 "روز قیامت تمام شہداء حضرت عباس علیہ السلام کے مقام و منزلت پر رشک کریں گے۔" حضرت عباس اگرچہ امامت کے درجے پر فائز نہیں تھے لیکن مقام و منزلت میں اتنے کم بھی نہیں تھے، عباس علیہ السلام کے مقام و منزلت پر فرشتے قیامت کے دن رشک کرینگے۔ عباس بن علی بن ابی طالب، کنیت ابو الفضل امام حسن اور حسین علیہما السلام کے بھائی چار شعبان سن 26 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور 61 ہجری کو کربلا میں مقام شہادت پر فائز ہوئے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک 34 سال تھی۔ چودہ سال اپنے پدر بزرگوار امیر المومنین علیہ السلام کے زیر سایہ، نو سال اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام اور گیارہ سال امام حسین علیہ السلام کے زیر تربیت گزارے۔ آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ بنت حزام نسل بنی کلاب سے ہیں، جن کی کنیت ام البنین ہے۔
حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی شہادت کو دس برس ہوچکے تھے، ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے جناب عقیل کو بلایا (کہ جو نسب شناسی میں ماہر تھے) اور کہا: میرے لئے ایسے خاندان کی خاتون تلاش کرو، جو شجاعت اور دلیری میں بے مثال ہو، تاکہ اس خاتون سے ایک بہادر اور شجاع فرزند پیدا ہو۔ جناب عقیل نے قبیلہ بنی کلاب کی ایک خاتون کی امیر المومنین علیہ السلام کو پہچان کروائی کہ جس کا نام بھی فاطمہ تھا، جس کے آباؤ اجداد عرب کے شجاع اور بہادر لوگ تھے۔ ماں کی طرف سے بھی عظمت و نجابت کی حامل تھیں۔ اسے فاطمہ کلابیہ کہا جاتا تھا اور بعد میں انہوں نے ام البنین کے نام سے شہرت پائی۔ جناب عقیل رشتہ کے لئے ان کے باپ کے پاس گئے، اس نے بڑے ہی فخر سے اس رشتہ کو قبول کیا اور مثبت جواب دیا۔ فاطمہ کلابیہ نہایت ہی نجیب اور پاکدامن خاتون تھیں۔ شادی کے بعد آپ امیر المومنین علیہ السلام کے گھر تشریف لائیں اور بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی خدمت شروع کی۔ جب انہیں فاطمہ کے نام سے بلایا جاتا تھا تو کہتی تھیں: مجھے فاطمہ کے نام سے نہ پکارو، کہیں تمہارے لئے تمہاری ماں فاطمہ کا غم تازہ نہ ہو جائے۔ میں تمہاری خادمہ ہوں۔ اللہ نے آپ کو چار بیٹوں سے نوازا۔ عباس، عبداللہ، جعفر اور عثمان، یہ چاروں بھائی کربلا میں شہید ہوگئے۔ ام البنین کے ایمان اور فرزندان رسول کی نسبت محبت کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ انہیں اپنی اولاد پر ترجیح دیتیں، جب واقعہ کربلا درپیش آیا تو اپنے بیٹوں کو امام حسین علیہ السلام پر قربان ہونے کی خاص تاکید کی اور ہمیشہ جو لوگ کربلا اور کوفہ سے خبریں لے کر آرہے تھے، ان سے سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں سوال کرتی تھیں۔
امام سجاد علیہ السلام اپنے چچا عباس علیہ السلام کی اس طرح توصیف کرتے ہیں:(رَحِمَ اللَّهُ عَمِىَّ الْعَبَّاسَ فَلَقَدْ آثَرَ وأَبْلى وفَدى أَخاهُ بِنَفْسِهِ حَتَّى قُطِعَتْ يَداهُ فَأَبْدَلَهُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ مِنْهُما جِناحَيْن يَطيرُ بِهِما مَعَ الْمَلائِكَةِ فى الْجَنَّةِ كَما جُعِلَ لِجَعْفَرِ بْنِ أَبى طالِبْ عليه السلام؛ وَإنَّ لِلْعَبّاسِ عِنْدَ اللَّهِ تَبارَكَ وَتَعالى مَنْزِلَةٌ يَغبِطَهُ بِها جَميعَ الشُّهدَاءِ يَوْمَ القِيامَةِ)2"خدا میرے چچا عباس پر رحمت کرے کہ جنہوں نے ایثار و فداکاری کی اور اپنے آپ کو مشکلات میں ڈالا اور اپنے بھائی پر فدا ہوگئے، یہاں تک کہ ان کے دونوں بازوں قلم ہوگئے، پس خدا نے انہیں دو پر دیئے جن کے ذریعے وہ جنت میں ملائکہ کے ساتھ پرواز کرتے ہیں، جیسا کہ جناب جعفر بن ابی طالب علیہ السلام کو دو پر دیئے۔ عباس کا اللہ کے نزدیک ایسا رفیع مقام ہے، جس پر دوسرے شہداء قیامت کے دن رشک کریں گے۔" امام صادق علیہ السلام جناب عباس علیہ السلام کی توصیف میں فرماتے ہیں:(كانَ عَمُّنَا الْعَبَّاسَ نافِذَ البَصيرَةِ، صَلْبَ الْأيمانِ، جاهَدَ مَعَ أَبى عَبْدِاللَّهِ عليه السلام وَأَبْلى بَلاءً حَسَناً وَمَضى شَهيدا)3"ہمارے چچا عباس علیہ السلام اہل بصیرت تھےو مستحکم ایمان کے مالک تھےو ابا عبد اللہ علیہ السلام کے رکاب میں جہاد کیا اور اس امتحان میں کامیاب ہوئے اور آخرکار مقام شہادت پر فائز ہوئے۔" جناب عباس علیہ السلام کے بچپنے کے بارے میں تاریخ کے اندر زیادہ معلومات نظر نہیں آتیں، صرف اتنا نقل ہوا ہے کہ ایک دن اپنے بابا امیر المومنین کے زانو پر بیٹھے ہوئے تھے، امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: بیٹا کہو ایک۔ حضرت عباس نے کہا ایک۔ پھر آنحضرت نے کہا: کہو دو۔ عرض کیا: جس زبان سے ایک کہا اس سے دو کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔
آپ کی دوران جوانی کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ آپ جنگ صفین میں موجود تھے۔ بعض نے ابوالشعثاء اور اس کے سات بیٹوں کے قتل کی آپ کی طرف نسبت دی ہے۔4 خوارزمی نے لکھا ہے کہ جنگ صفین میں جب کریب نامی ایک شخص امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھ جنگ کرنے آیا تو آپ نے جناب عباس کا جنگی لباس پہنا اور اس کے ساتھ جنگ کی۔ حضرت علی علیہ السلام کو ایک ایسے بہادر فرزند کی تمنا تھی، جو اپنے بعد اسلام کی حفاظت کرسکے اور حسین بن علی علیہ السلام کے لئے مددگار بنے۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی دعا عباس کی شکل میں پوری ہوئی۔ حسین علیہ السلام کے محافظ نے اس دنیا میں آنکھ کھولی۔ حضرت علی علیہ السلام نے حضرت عقیل کے ذریعے عرب کے بہادر قبیلے کی بہادر خاتون ام البنین کے ساتھ عقد کیا۔ ام البنین سیرت و کردار میں نہایت باکردار خاتون تھیں۔ یوں علی ابن ابی طالب کے نامور فرزند عباس کی شکل میں دنیا میں تشریف لائے، جس نے ایک دفعہ پھر جنگوں میں اپنے بابا کی یاد تازہ کر دی۔ عباس شجاعت کے دو سمندروں کے آپس میں عجین ہونے کا نام ہے۔ عباس وہ ذات ہے جسے باپ کی طرف سے بنی ہاشم کی شجاعت ملی اور ماں کی طرف سے بنی کلاب کی شجاعت ملی۔ صفین کی جنگ کے دوران، ایک نوجوان امیر المومنین علیہ السلام کے لشکر سے میدان میں نکلا کہ جس نے چہرے پر نقاب ڈال رکھی تھی، جس کی ہیبت اور جلوہ سے دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ گئے اور دور سے جاکر تماشا دیکھنے لگے۔
معاویہ کو غصہ آیا، اس نے اپنی فوج کے شجاع ترین آدمی (ابن شعثاء) کو میدان میں جانے کا حکم دیا کہ جو ہزاروں آدمیوں کے ساتھ مقابلہ کیا کرتا تھا۔ اس نے کہا: اے امیر لوگ مجھے دس ہزار آدمی کے برابر سمجھتے ہیں، آپ کیسے حکم دے رہے ہیں کہ میں اس نوجوان کے ساتھ مقابلہ کرنے جاؤں؟ معاویہ نے کہا: پس کیا کروں؟ شعثاء نے کہا میرے سات بیٹے ہیں، ان میں سے ایک کو بھیجتا ہوں، تاکہ اس کا کام تمام کر دے۔ معاویہ نے کہا: بھیج دو۔ اس نے ایک کو بھیجا۔ اس نوجوان نے پہلے وار میں اسے واصل جہنم کر دیا۔ دوسرے کو بھیجا وہ بھی قتل ہوگیا، تیسرے کو بھیجا چوتھے کو، یہاں تک کہ ساتوں بیٹے اس نوجوان کے ہاتھوں واصل جہنم ہوگئے۔ معاویہ کی فوج میں زلزلہ آگیا۔ آخرکار خود ابن شعثاء میدان میں آیا یہ رجز پڑھتا ہوا: اے جوان تو نے میرے تمام بیٹوں کو قتل کیا ہے، خدا کی قسم تمہارے ماں باپ کو تمہاری عزا میں بٹھاؤں گا۔ اس نے تیزی سے حملہ کیا، تلواریں بجلی کی طرح چمکنے لگیں، آخرکار اس نوجوان نے ایک کاری ضربت سے ابن شعثاء کو بھی زمین بوس کر دیا۔ سب کے سب مبہوت رہ گئے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام نے اسے واپس بلا لیا اور نقاب کو ہٹا کر پیشانی کا بوسہ لیا۔ یہ قمر بنی ہاشم شیر خدا کا فرزند تھا۔ قمر بنی ہاشم ہمیشہ امام حسین علیہ السلام کے شانہ بہ شانہ رہے۔ جوانی کو امام کی خدمت میں گزار دیا۔ بنی ہاشم کے درمیان آپ کا خاص رعب اور دبدبہ تھا۔ جناب عباس بنی ہاشم کے تیس جوانوں کا حلقہ بنا کر ہمیشہ ان کے ساتھ چلتے تھے۔ جو ہمیشہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کے ساتھ ساتھ رہتے اور ہر وقت ان کا دفاع کرنے کو تیار رہتے تھے اور اس رات بھی جب ولید نے معاویہ کے مرنے کے بعد یزید کی بیعت کے لئے امام کو دارالخلافہ بلایا، اس وقت بھی جناب عباس تیس جوانوں کو لے کر امام کے ساتھ دارالخلافہ تک جاتے ہیں اور امام کے حکم کے مطابق حکم جہاد کا انتظار کرتے ہیں، تاکہ اگر ضرورت پڑے تو فوراً امام کا دفاع کرنے کو حاضر ہو جائیں۔
حضرت عباس (ع) عرب کے عظیم بہادروں میں شمار ہوتے تھے، کوئی عباس کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا، لیکن ایک مقام پر جب اسلام کو خطرے میں دیکھا، نانا محمد(ص) کا دین سرے سے نابود ہوتے دیکھا، 61 ہجری میں یزید، علی ابن ابی طالب کے ہاتھوں بدر و احد میں واصل جہنم ہونے والے بڑے بڑے سرداروں کا بدلہ لینا چاہا تو عباس (ع) سے برداشت نہ ہوسکا کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا عظیم فرزند حسین علیہ السلام اور علی کی شیر دل بیٹیاں یزیدی فوجیوں کا سامنا کریں، اس لئے عباس (ع) نے حسین علیہ السلام کی فوج سے اسلام کا علم بلند کیا، وہی علم جسے محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ واآلہ وسلم نے خیبر میں علی علیہ السلام کے سپرد کیا تھا، اسی علم کو حسین بن علی علیہ السلام نے کربلا میں حضرت عباس کو عطا کیا۔
مجھے جب حکم ملا عنوان وفا لکھنے کا
میں نے عباس لکھا اور قلم توڑ دیا
تعداد میں بہتر جان نثاروں کے سپہ سالار اور جرنیل عباس علمدار تھے، لیکن یہی بہتر افراد یزیدی افواج کے ہزاروں افراد سے مقام و منزلت میں بالا درجوں پر فائز تھے۔ حضرت عباس (ع) نے اس مشکل وقت میں اسلام کو بچانے کے لئے جان کی پروا نہ کی اور دنیا والوں کو وفائے عباس دکھا دی۔ یزیدی فوجوں نے عباس کو امان نامہ پیش کرکے راہ مستقیم سے ہٹانے کی کوشش کی، تاکہ قمر بنی ہاشم حسین (ع) کا ساتھ نہ دیں اور حسین اکیلے میدان میں رہ جائیں، لیکن قمر بن ہاشم نے ایسا عملی نمونہ پیش کیا، جو قیامت تک کے لئے اسوہ بن گیا۔
عباس کبریا کا عجب انتخاب تھا
طفلی میں بھی علی کا مکمل شباب تھا
حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے مشہور القاب میں سے ایک باب الحوائج ہے اور آپ کا یہ لقب آشنا ترین اور مشہور ترین القاب میں سے ہے۔ حضرت عباس علمدار علیہ السلام کو دو جہت سے باب الحوائج کہا جاتا ہے، ایک یہ کہ آپ واقعہ کربلا میں اہل بیت اطہار کی ہر مشکل گھڑی میں ان کا سہارا تھے اور ہر ایک کی حاجت روائی فرماتے تھے۔ دوسری علت یہ ہے کہ آپ کا روضہ آج بھی لوگوں کی مشکلات اور حاجت روائی کا مرجع ہے، جہاں سے ہزاروں لاکھوں حاجت مند آپ کے روضے سے اپنی مرادیں پوری کرکے واپس ہوتے ہیں، اس بنا پر بھی آپ کو باب الحوائج یعنی مرادیں پوری کرنے والا در کہا جاتا ہے۔ سلام ہو اس عظیم غازی پر، حسین (ع) کے علمدار پر، سقائے سکینہ پر، جس نے فرات کے پانی پر حوض کوثر کے پانی کو ترجیح دی اور نانا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور بابا علی مرتضٰی علیہ السلام کے ہاتھوں سیراب ہونے کے لئے اسلام پر قربان ہوئے۔ عباس علمدار نہ صرف حسینی فوج کے علمدار تھے بلکہ سقائے سکینہ بھی تھے، اس لئے مشک اٹھا کر علقمہ کا رخ کرتے ہیں۔ یزیدی فوج فرزند علی علیہ السلام سے بخوبی واقف تھی کہ کوئی عباس کا مقابلہ نہیں کرسکتا، اس لئے عباس کو گھیرے میں لینے کا حکم ہوا اور یوں عباس اشقیاء کے گھیرے میں آگئے۔
شجاعت کا صدف مینارہ الماس کہتے ہیں
غریبوں کا سہارا بے کسوں کی آس کہتے ہیں
یزیدی سازشیں جس کے علم کی چھاوں سے لرزیں
اسے ارض و سماء والے سخی عباس کہتے ہیں
عباس (ع) جو سکینہ سے پانی لانے کا وعدہ کرکے آئے تھے، اس لئے مشک پانی سے بھر کر جلدی سے خیمے کا رخ کرتے ہیں۔ یزیدی افواج کو یہ بات ناگوار گزری کہ خیمے کے اندر پانی پہنچ جائے اور حسین علیہ السلام کے معصوم بچے سیراب ہوں، اس لئے ہر طرف سے تیروں کی بارش شروع کر دی، لیکن عباس (ع) نے امام وقت کی دفاع کرتے ہوئے فرمایا:
وَاللَّهِ إِنْ قَطَعْتُمُ يَمينى
إنّى أُحامِى أبَداً عَنْ دينى
وَعَنْ إمامٍ صادِقِ الْيَقينِ
نَجْلِ النَّبىِّ الْطَّاهِرِ الأَمينِ5
خدا کی قسم اگر میرا دایاں ہاتھ قلم کیا (تو کوئی بات نہیں) میں اب بھی اپنے دین کا دفاع کروں گا اور اپنے سچے امام کی حمایت کروں گا، جو پاک اور امین نبی کا فرزند ہے۔ پیکر وفا نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اسلام اور وقت کے امام کا دفاع کرتے ہوئےقربان کر دیا۔
جنہیں بھی حق نے بنایا تھا کربلا کے لئے
وہ سب کے سب ہی نمونہ تھے دوسروں کے لئے
مگر یقین ہے قائم کہ حضرت عباس
بطور خاص بنائے گئے وفاء کے لئے
امام جعفرصادق علیہ السلام حضرت عباس علیہ السلام کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اَلسَّلامُ عَلَيْكَ اَيُّهَا الْعَبْدُ الصّالِحُ الْمُطيعُ للهِ وَلِرَسُولِهِ وَلاِميرِالْمُؤْمِنينَ وَالْحَسَنِ والْحُسَيْنِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِمْ وَسَلَّمَ۔ "سلام ہو آپ پر اے خدا کے نیک بندے، اے اللہ، اس کے رسول، امیرالمؤمنین اور حسن و حسین علیمَ السلام کے اطاعت گزار و فرمانبردار..."
امام زمانہ عج زیارت ناحیہ میں شہدائے کربلا کو سلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "السلام على أبي الفضل العباس بن أمير المؤمنين، المواسي أخاه بنفسه، الآخذ لغده من أمسه، الفادي له، الواقي الساعي إليه بمائه المقطوعة يداه۔6 "سلام ہو ابوالفضل العباس بن امیرالمؤمنین پر، جنہوں نے اپنے بھائی پر اپنی جان نچھاور کر دی، دنیا کو اپنی آخرت کا ذریعہ قرار دیا، وہ جو محافظ تھے اور لب تشنگانِ حرم تک پانی پہنچانے کی بہت کوشش کی اور ان کے دونوں ہاتھ قلم ہوئے۔"
حوالہ جات:
1۔ صدوق، محمد بن علی، الخصال، ج۱، ص۶۸
2۔ صدوق، محمد بن علی، الخصال، ج۱، ص۶۸
3۔ حسینی، سید جمالالدین، عمدة الطالب، ج۱، ص ۳۵۶
4۔ بیرجندی، محمدباقر، کبریت احمر، ج۱، ص۳۸۵
5۔ ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص۲۵۶
6۔ ابن طاووس، علی بن موسی، الاقبال بالاعمال الحسنه، ج۳، ص۷۴