۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ/ ثانی زہرا، زینت حیدر حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی زندگی کا لمحہ لمحہ انسانیت کے لئے اسوہ و قدوہ ہے اور اس پر چل کر ہی انسان کے لئے راہ سعادت ممکن ہے۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | انسانی اقدار کے پاسبان واقعہ کربلا کہ جہاں اسلام کو تحفظ، ایمان کو کمال اور یقین کو تقویت ملی کی اگر تاریخ لکھی جائے گی تو معلمہ توحید، مبلغہ رسالت، حامی ولایت، امین پیغام امامت حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا تذکرہ نہ ہو تو تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ 
صداقت محمدی، کمال حیدری، عفت فاطمی، حلم حسنی اور شجاعت حسینی کے جلوے اس ذات میں نمایاں ہیں۔ 
چودہ صدیاں بیت جانے کے باوجود آج بھی جب عاشور کے ہولناک مناظر بیان ہوتے ہیں تو بلا تفریق مذہب و ملت انسانیت گریہ اور آدمیت اشکبار ہو جاتی ہے، صرف ان مصائب کو پڑھ کر یا سن کر انسان اپنے آپے میں نہیں رہتا لیکن اللہ رے صبر زینبی کہ سارے دردناک مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھا لیکن نہ عبادت میں کمی آئی نہ منزل اطاعت میں قدم لڑکھڑائے حتی شام غریباں میں بھی جلی ہوئے خیام کی راکھ کے مصلی پر نماز شب ادا کی، اور جب 12 محرم کو ابن زیاد نے توحید خدا سے متعلق سوال کیا تو فرمایا: "وما رایت الا جمیلا" یعنی ہم نے خدا میں حسن و جمال کے سوا کچھ نہ دیکھا، اور صرف توحید ہی نہیں بلکہ رسالت و ولایت کے عقیدہ کو بھی جلا بخشی اور اپنے امام زمان یعنی حضرت سید سجاد علیہ السلام کی حفاظت کر کے سلسلہ ہدایت کو بقا دی۔  

ثانی زہرا، زینت حیدر حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی زندگی کا لمحہ لمحہ انسانیت کے لئے اسوہ و قدوہ ہے اور اس پر چل کر ہی انسان کے لئے راہ سعادت ممکن ہے۔ 

ذیل میں آپ کی مقدس حیات کے چند گوشوں کی جانب اشارہ مقصود ہے کہ اگر عمل کی توفیق شامل حال ہو جائے تو سعادت و خوش بختی انسان کا مقدر بن جائے۔ 

1. تقویت ایمان : اگر چہ ہر انسان فطرتا مسلمان ہوتا ہے لیکن حوادث زمانہ اکثر اوقات اس کے ایمان کو متزلزل کر دیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے نانا، امیرالمومنین علیہ السلام جیسے بابا، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جیسی ماں اور حسنین کریمین جیسے بھائ اللہ نے نوازے اور ان تمام بزرگان کی خاص محبت بھی نصیب ہوئی لیکن جہاں یہ فضیلیتوں کی بلندیاں ہیں وہیں مصائب کا نہ رکنے والا سلسلہ ہے لیکن یہ حالات آپ کے یقین کو متاثر نہ کر سکے اور رہتی دنیا تک کے صاحبان ایمان کے لئے سبق ہیں۔ 
2۔ مقصد میں ثابت قدمی: حضرت زینب سلام اللہ علیہا پر اتنی مصیبتیں پڑیں کہ آپ کو ام المصائب کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے لیکن ان سب کے باوجود آپ اپنے مقصد میں ثابت قدم رہیں۔ 
3۔ ولایت الہیہ سے وفاداری: اگرچہ حضرت عبداللہ ابن جعفر صاحب ثروت تھے اور جود و سخا کی تاریخ کا سنہرا باب ہیں لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے امام زمان یعنی امام حسین علیہ السلام کی محبت و اطاعت میں ان تمام اسباب سکون و راحت کو خیر باد کہا اور عشق حسینی کے سفر پر روانہ ہو گئیں اور صرف خود ہی نہیں بلکہ اپنی اولاد کو بھی اس راہ میں قربان کر دیا۔ امام وقت کی اطاعت کو ہر چیز پر ترجیح دی۔ 
4۔ صداقت و امانت داری۔ صداقت و امانتداری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمایا صفت ہے کہ جس کا کلمہ کفار و مشرکین بھی پڑھتے تھے۔روایات کے مطابق امین وہی ہے جو امانت واپس کرے چاہے مقابل مومن ہو یا کافر، حضرت امام حسین علیہ السلام نے آپ کو اپنے مقصد اور امامت کا امین بنایا تو آپ نے ایسی امانت داری فرمائی کہ جس میں رسول امین کی امانت داری کے جلوے نمایاں ہیں کہ جس کے نتیجہ میں کربلا کی حقانیت رہتی دنیا کے لئے آشکار ہوئی۔ یعنی اسلام کو دوام ملا اور یزیدیت ہمیشہ کے لئے رسوا ہو گئی۔ 
5۔ صبر: میدان صبر میں بہت سے اللہ والے بہادروں نے کامیابی حاصل کی لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا صبر اپنی مثال آپ اور ہر ایک کے لئے قابل تاسی ہے۔  
6۔ علم و فہم : اس ذات کے علم و فہم پر کوئی کیا کلام کرے جس کی علم و فہم کا قصیدہ حجت الہی، عالم علم لدنی امام سجاد علیہ السلام پڑھتے نظر آئیں کہ ائے پھوپھی! آپ بحمدللہ ایسی عالمہ ہیّں کہ جسے کسی نے پڑھایا نہیں اور ایسی صاحب فہم و فراست ہیں کہ کسی نے آپ کو سمجھایا نہیں۔ 
7۔ بندگی خدا: وحی معبود کی روشنی میں انسان کا مقصد خلقت عبادت ہے، نماز شب واجب نہیں ہے لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے ہر حال میں ادا کیا۔ اور صرف نماز ہی نہیں بندگی کے تمام تقاضوں میں حسن ادائگی کے وہ نمونے پیش کئے جس کی نظیر مل پانا ناممکن ہے۔ 
8۔ ہدایت: سماج کی اصلاح کا دارومدار ہادی و رہبر کے حرکات و سکنات پر منحصر ہے۔ حضرت زینت سلام اللہ علیہا نے اپنے اقدامات، خطبات اور کلام و سکوت کے ذریعہ انسانیت کو راہ ہدایت کی ایسی رہنمائی کی کہ اگر انسان عمل کی منزل میں آ جائے تو کامیابیاں اس کے قدم چومیں۔ 
9۔ شجاعت و تدبیر: سماج کی اصلاح کے لئے مصلح کی شجاعت و تدبیر کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے اقدامات و خطبات اس زاویہ سے بھی بشریت کے لئے نمونہ عمل ہیں۔ آپ نے کمال شجاعت سے ظالم حاکم کے سامنے کلام کیا، اپنے امام وقت کی حفاظت کی اور اپنی تدبیر سے اہل حرم کی رہنمائی فرمائی کہ کربلا کا عظیم پیغام آفاق پر چھا گیا اور امویت تاریخ کے قبرستان میں بے نشاں ہو گئی۔ 
10۔ اسلامی اقدار کی پاسبانی: حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے دین اور اس کے اقدار کی پاسبانی کی اور اس راہ میں اپنی جان، مال حتی اولاد قربان کر دی اور جن مقدس مقاصد کے لئے امام حسین علیہ السلام نے قیام فرمایا انکو تحفظ بخشا اور تبلیغ و ترویج فرمائی۔ 

مذکورہ تمام نکات بشریت کی سعادت کے لئے مشعل راہ ہیں۔ اللہ ہم سب کو معرفت و اطاعت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تبصرہ ارسال

You are replying to: .