تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | مہمان کعبہ صدف ولایت حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا کے والد جناب اسد رئیس مکہ شیخ بطحا حضرت ہاشم کے فرزند اور جناب عبدالمطلب کے بھائی تھے۔ بچپن سے آپ کے کردار کی بلندی عیاں تھی جب جوان ہوئیں تو آپ کے چچا زاد حضرت ابوطالب ؑسے آپ کی شادی ہوئی۔
حضرت عبدالمطلب علیہ السلام کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کفالت کا شرف آپ کے شوہر جناب ابوطالبؑ کو ملا تو آپ بھی اپنے شوہر کےساتھ اس فضیلت میں برابر کی شریک ہوئیں۔ اللہ نے آپ کو چار بیٹے عطا کئے۔ طالبؑ، عقیلؑ، جعفرؑ اور حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام ۔ جب حضرت المومنین علیہ السلام کی ولادت با سعادت کا وقت نزدیک آیا تو آپ اپنے بیت الشرف سے نکلیں اور بیت اللہ کی جانب روانہ ہوئیں جب خانہ کے نزدیک پہنچیں تو اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور فرمایا۔ "رَبِّ اِنّی مُؤمَنِةٌ بِکَ و بما جاءَ مِن عِندِکَ مِن رُسُل و کُتُب و اَنّی مُصَدِّقَةٌ بِکَلامِ جدی اِبْراهیم الخَلیل و انَّه بنی البیت العتیق؛ فَبِحقِ الذَّی بنی هذا البَیْتِ و بِحَقَ الْمُولوُدِ الذَّی فی بَطْنی لما یسرت علی ولادتی" (خدایا!میں تجھ پر ایمان رکھتی ہوں، تیرے بھیجے ہوئے رسولوں اور کتابوں پر ایمان رکھتی ہوں، میں اپنے جد حضرت ابراہیم خلیل کے کلام کی تصدیق کرتی ہوں انھوں نے اس گھر کو تعمیر فرمایا، (خدایا) اس گھر کے معمار اور میرے بطن کے مولود کا واسطہ ولادت کے سلسلہ میں میری مشکل آسان فرما دے۔) ابھی آپ کی دعا ختم نہ ہوئی تھی کہ وہاں موجود لوگوں نے دیکھاکہ خانہ کعبہ کی دیوار میں شگاف ہوا اور بی بی اندر داخل ہو گئیں اور آپ کے اندر جاتے ہی دیوار آپس میں مل گئی۔ لوگ خانہ کعبہ کی طرف بڑھے اور دروازہ کھولنا چاہا لیکن تالا کھل نہ سکا اور اس دن یعنی 13 رجب 30 عام الفیل کو مولود کعبہ کی ولادت ہوئی، ماں بیٹے تین دن تک اللہ کے گھر میںاس کے مہمان رہے جسکے سبب پورے مکہ میں یہ خبر پھیل گئی اور چوتھے دن( یعنی 16 رجب 30 عام الفیل کو) لوگ خانہ کعبہ کے نزدیک گئے تو دیکھا کہ خانہ کعبہ کی دیوار دوبار شگافتہ ہوئی بنت اسد اپنے اسد اللہ بیٹے کو لے کر باہر تشریف لائیں۔(الغدیر۔ جلد ۶، صفحہ ۲۱) اور لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا!خدا وند عالم نے مجھے گزشتہ خواتین پر فضیلت دی، آسیہ بنت مزاحم لوگوں کے خوف سے ایسی جگہ چھپ کر عبادت کرتی تھی جو عبادت کی جگہ نہ تھی، مریم بنت عمران نے سوکھے کھجور کے درخت سے تازہ کھجور توڑے۔ لیکن میں اللہ کے گھر میں داخل ہوئی، وہاں بہشتی پھل کھائے اور جب میں نکل رہی تھی تو زمین و آسمان کے درمیان ھاتف غیبی کی آواز سنی:’’ائے فاطمہ! اس مولود کا نام علی رکھو کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے کہ میں نے اس مولودکا نام اپنے نام سے ماخوذ کیا ہے۔ یہی مولود میرے گھر کو بتوں کی کثافت سے پاک کرے گا اور خانہ کعبہ کی چھت سے اذان دے گا جسکی آواز پورے مکہ میں پھیلے گی۔‘‘
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اعلان اسلام کیا تو خواتین میں جناب خدیجہ سلام اللہ علیہ کے بعد اسلام لانے والی دوسری خاتون اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کرنے والی پہلی خاتون جناب فاطمہ بنت اسد تھیں (الفصول المھمہ، صفحہ ۳۷) اور آپ کا شمار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں ہوتا ہے۔
اعلان اسلام کے بعد مکہ مکرمہ میں کفار و مشرکین کی جانب سے مسلمانوں کو جن مصائب سے گذرنا پڑا ان مصائب و مشکلات سے آپ بھی دوچار ہوئیں اور دیگر مسلمانوں کی طرح آپ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تین برس شعب ابی طالب میں بھی رہیں۔ اور جب حضورؐ نے حکم خدا سے ہجرت فرمائی تو آپ نے بھی مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی۔ ہجرت کے چوتھے سال مدینہ منورہ میں آپ کی وفات ہوئی۔ جب مولا علی علیہ السلام نے اپنی والدہ ماجدہ کے انتقال کی خبر حضورؐ کو دی تو آپ نے فرمایا: آج میری ماں گذر گئیں، اپنا پیراہن بطور کفن دیا، نماز جنازہ پڑھی، ستر تکبیریں کہیں، پہلے خود قبر میں اترے اور لیٹے۔ جب لوگوں نے پوچھا تو فرمایا:وہ میری ماں تھیں، پہلے مجھے کھلاتی تھیں پھر اپنے بچوں کو کھلاتی تھیں، پہلے مجھے نہلاتی تھیں پھر اپنے بچوں کو نہلاتی تھیں، واقعی وہ میری ماں تھیں۔ (ترجمه تاریخ یعقوبی، ص۳۶۸-۳۶۹؛ به نقل آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۴۹)دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جناب ابوطالب کے بعد جس نے میرے ساتھ نیکی کی وہ فاطمہ بنت اسدہیں۔ (الاستيعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۸۹۱)