۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
News ID: 390669
6 فروری 2024 - 21:42
کاشف رضا

حوزہ/ ابی الحدید معتزلی لکھتے ہیں کہ ابوطالب علیہ السلام اور آپ کے پدر بزرگوار جناب عبدالمطلب علیہ السلام قریش کے سردار اور مکۂ مکرمہ کے سرور و امیر تھے۔

تحریر: مولانا کاشف رضا گلزار
حوزہ نیوز ایجنسی| حضرت ابو طالب علیہ السلام: رسول اکرمؐ کے چچا اور امیرا لمومنین حضرت علی علیہ السلام کے والد بزرگوار اور جناب عبدالمطلب کے وصی و جانشین اور سرکار ختمی مرتب کے سب سے بڑے حامی و مددگار تھے۔

ولادت:
آپ رسول خدا ؐ کی ولادت سے ۳۵ سال پہلے ۲۹ شوال کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے،آپ کے والد گرامی جناب عبدالمطلبؑ اور والدۂ گرامی جناب فاطمہ بنت عمرو بن عائذبن مخزوم تھیں۔

آپ کی حیات طیبہ آپ کے بے نظیر کارناموں سے بھری ہے جن کا یہاں رقمطراز کرنا امر ناممکن ہے، آپ کے وجود اقدس میں ایثار و فداکاری، جانثاری و وفاداری ، ترحم و تکرم انسانوں سے بے لوث محبت کوٹ کوٹ کر بھری تھی، جس کو مجسم شکل میں ذات علی ابن ابی طالب علیہ السلام میں بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے جناب ابن ابی الحدید معتزلی لکھتے ہیں کہ ابوطالب علیہ السلام اور آپ کے پدر بزرگوار جناب عبدالمطلب علیہ السلام قریش کے سردار اور مکۂ مکرمہ کے سرور و امیر تھے اور آپ اس شہر کے باشندے، مہاجرین، مسافرین، اور بیت اللہ کے زائرین سب کی مہمان نوازی اور رہنمائی فرماتے تھے۔(۱)

آپ ایک لمحہ بھی خدا ئے وحدہ لاشریک لہ سے غافل نہ تھے، بلکہ دین ابراہیم علیہ السلام پر تھے اور جناب ابراہیم کے جانشین تھے اور انبیائے کرام کی پیشنگوئیوں کے مطابق حضرت ختمی مرتب ، رحمۃ للعالمین حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ کی نبوت و رسالت کے منتظر تھے ، اسی لئے آپ آنحضرت ؐ کی ولادت باسعادت کے وقت جب آپ کی زوجہ جناب فاطمہ بنت اسدؑ نے آپ کو آنحضرتؐ کی ولادت و باسعادت اور اس وقت عجیب و غریب واقعات ظہور پذیر ہونے کی خبر دی تو آپ نے فرمایا: تم ان واقعات اور بابرکت مولود کے بارے میں متعجب ہو؟ صبر کرو! تین سال بعد تمہارے شکم سے بھی ایک ایساہی بچہ پیدا ہوگا جو اس مولود کا وزیر ، وصی و جانشین ہوگا۔ (۲) یہاں پر این نکتہ کی طرف اشارہ کرکے گزرجانا چاہتا ہوں کہ آپ کے اعمال و کردار اور اشعار، رسول اکرمؐ کی حمایت ، ان کا حد درجہ خیال، اپنے بچوں کو رسول اسلامؐ کے سلسلے سے مسلسل نصیحت ؛(لا تخذلا و انصرا بن عمکما اخی لامی من بینھم و ابی؛ [میرے بیٹو!] اپنے چچازاد بھائی کی تنہا مت چھوڑو اور اس کی مددکرو کہ رے بھائیوں کے درمیان والد اور والدہ دونوں طرف سے میرے بھائی کا فرزند ہے)(۳) بلکہ مورخین نے عبداللہ بن عباس ؓ سے نقل کی اہے کہ جناب ابوطالب ؑ رسول خدا ؐ کو بہت چاہتے اور دوست رکھتے تھے اور بیٹوں پر بھی اتنی مہربانی روا نہیں رکھتے تھے جتنی کہ وہ آنحضرتؐ پر روا رکھتے تھے پوری حیات آپ کے ہمراہ رہے اور کبھی آپ کو تنہا نہیں چھوڑا، ساتھ ہی ساتھ مشرکین مکہ کے مد مقابل آہنی دیوار تھے آپ کی حیات میں کسی میں ہمت نہ تھی کہ آپ کو آزار آذیت پہنچائے، لیکن آپ کی وفات کے بعد مشرکین مکہ نے رسول کو آزار و اذیت دینا شروع کردیا جس کی طرف آپ نے بارہا اشارہ کیا کہ چچا ابوطالبؑ کی حیات میں کسی میں ہمت نہ تھی مگر اب لوگ مجھے تنہا سمجھ بیٹھے ہیں میں تو کہوں گا کہ یہ سلسلہ اتنا آگے بڑا کہ آپ کو مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔

لہذا ایسے بامعرفت، وظیفہ شناس حامی رسول کے اوپر کفر کا فتویٰ لگانا یا ان کے ایمان باللہ کو زیر سوال لانا در واقع رسول اسلامؐ کی توہین ہے نہ کہ ان کے چچا جناب ابوطالبؑ کی، افسوس تو اس بات کا ہے کہ مسلمانوں نے نہ رسول اسلامؐ کو پہچانا اور نہ ہی ان کے حامی و مددگار کو۔(دعوت غورو فکر۔۔۔)

آپ کے کمالات و صفات کا احصاء بھی امر ناممکن ہے کیونکہ آپ کے آداب و اطوار، اخلاق و صفات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ آپ بھی اولیائے خدا میں سے ایک ہیں، آپ کے کمالات و اوصاف کی طرف صرف اشارہ کرکے اپنی بات ختم کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اہل فکرو نظر کے لئے اشارہ ہی کافی ہے، آپ رسول اسلام ؐ کے سرپرست و حامی تھے، آپ مشرکین کے مد مقابل آہنی دیوار تھے، آپ کا رسول اسلامؐ کے دشمنوں اور گستاخی کرنے والوں کو فورا سزا دینا، اپنے بیٹوں پر رسول اسلامؐ کو فوقیت دینا، واقع ذوالعشیرہ میں واضح اور علی الاعلان حمایت روسول کا اعلان، آپ دین اسلام کے مبلغین کے حامی و مددگار تھے۔

غرض آپ کے فضائل و کمالات بے شمار ہیں خود زبان رسول میں آپ کی جو عظمت و منزلت ہے دشمنان اسلام کی اصلیت روشن کرنے کے لئے کافی ہے۔

آخر کلام میں صرف یہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پرودرگا عالم ہم شیعیان حیدر کرار ؑ کو بھی توفیق دے کہ ہم بھی جناب ابوطالبؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین اسلام، رسول اسلامؐ کی حمایت کریں اور ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ کریں بلکہ موجودہ دشمنوں بھی محکم و قوی انداز میں مقابلہ کریں۔

حوالہ جات:
۱۔ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید معتزلی، ج۱، ص۴، (مقدمہ)
۱۔ اصول کافی، ج۱، ج۲۵۴
۳۔ بحارالانوار، ج۳۵، ص۱۲۱
۴۔ تاریخ طبری، ج۲، ص۲۲۹

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .