۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی

حوزہ/ جب اسلامی انقلاب اور مقاومت کا نام لینے والا کوئی نہ تھا، جب مظلوم کی ہر آواز کو دبا دیا جاتا تھا، جب جوانوں کو سہارا دینے والا کوئی نہ تھا،  جب ہر شخص تنگئ حالات کے باعث نا امیدی و مایوسی کا شکار ہوگیا تھا ایسے پرآشوب دور میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی رح نے مزاحمت و مقاومت کا نعرہ بلند کیا اور اسلامی انقلاب کی پہچان کروائی۔

تحریر: مولانا شاہد عباس ہادی

حوزہ نیوز ایجنسی | جب اسلامی انقلاب اور مقاومت کا نام لینے والا کوئی نہ تھا، جب مظلوم کی ہر آواز کو دبا دیا جاتا تھا، جب جوانوں کو سہارا دینے والا کوئی نہ تھا،  جب ہر شخص تنگئ حالات کے باعث نا امیدی و مایوسی کا شکار ہوگیا تھا ایسے پرآشوب دور میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی رح نے مزاحمت و مقاومت کا نعرہ بلند کیا، اسلامی انقلاب کی پہچان کروائی، سامراج اور عالمی طاقتوں کے زہریلے پروپیگنڈوں کے خلاف پرچم اسلام بلند کیا، امریکہ مردہ باد کے نعروں سے صیہونیوں کو ہلا کر رکھ دیا، بے سہارا نوجوانوں کا ہاتھ تھاما اور انکو تاریکی و مایوسی کے راستوں سے نکال کر امید کی راہ دکھائی، نوجوانوں کی زندگی کو جمود سے تحرک میں تبدیل کردیا، خداداد صلاحیتوں کی پہچان کروائی اور فرمایا "خدا کی عطاکردہ عظیم نعمتوں میں سے باصلاحیت نوجوان عظیم نعمت ہیں جو شخص خدا کی عطاکردہ صلاحیتوں کو قوم، ملک اور اسلام کی خدمت کیلئے بروئے کار لاتا ہے وہ عدل کرتا ہے۔" 

مقاومت کے دشوار اور کٹھن مراحل وہی شخص طے کرسکتا ہے جس کی زندگی صرف خدا کیلئے ہو، جو دنیا اور اسکی لذتوں سے نکل کر شہادت کو اپنی زندگی کا محور قرار دے، یہ شہید ڈاکٹر ہی تھے جنکی پوری زندگی خداتعالی کی رضا میں گزری، انکی زندگی میں رضایت خدا کا ہر پہلو نظر آتا ہے، جب عالمی طاقتوں نے جوانوں کی زندگی کو مفلوج کرنا شروع کیا تو اس دور میں شہید ڈاکٹر نے ان صیہونی طاقتوں کے خلاف جہاد کا علم بلند کیا، انکی ہر سازش کو ناکام بنا دیا، ناصرف اسلام و انسانیت کی خدمت کی بلکہ میدان جنگ میں فرنٹ لائن پر دشمن کا مقابلہ کیا۔ جب امام خمینی رح نے صدائے ھل من ناصر ینصرنا بلند کی اور کہا جو شخص جنگ کی طاقت رکھتا ہے وہ محاذ پر جائے تو اس فرزند زہراء نے جان ہتھیلی پر رکھ کر مظلومیت کی آواز پر لبیك کہا اور پوری طاقت سے میدان جنگ میں حاضر ہوگئے، انسانیت اور اسلام کی خدمت کرکے "من يشري نفسه إبتغاء مرضات الله" کے مصداق بن گئے۔ شہادت کا اشتیاق اس قدر تھا کہ محاذ جنگ سے واپسی پر بہشت زہراء کے مقام پر فرماتے ہیں دل چاہتا ہے کہ ان شہداء کے ساتھ زندہ اس قبرستان میں لیٹ جاؤں۔ ہائے افسوس کہ اس قدر شہداء کی چاہت رکھنے والے شہید ڈاکٹر کا نظریہ ابھی تک صرف کاغذ کی زینت بنا۔

آج تمام تنظیمیں، جماعتیں، شخصیات خود کو ڈاکٹر شہید کے نقش قدم پر چلنے والا کہتی ہیں۔ ہر جماعت، ہر شخصیت ان کے نام کا نعرہ بلند کرتی ہے۔ کیا انہوں نے شہید کے نظریے کو عملی جامہ پہنایا؟ آخر انہوں نے شہید کے نظریے کی کتنی عہد سازی کی، ان افراد نے شہید ڈاکٹر کی زندگی سے کون سا درس لیا، کتنے جوانوں کو یکجا کیا؟ کتنے جوانوں کی زندگی میں تحرک پیدا کیا؟ کتنے جوانوں کا ہاتھ تھاما؟ کتنے جوانوں کو مقاومت کا راستہ دکھایا؟ کتنے جوانوں کو حوصلہ دیا؟ جذبہ پیدا کیا؟ انکو منزل دکھائی؟ آخر ان شخصیات نے جوانوں کیلئے کیا کیا؟ بلکہ جب بھی جوانوں کی طرف سے مقاومت کا نعرہ بلند ہوتا، انکی آواز کو دبا دیا جاتا، حوصلہ افزائی کی بجائے حوصلہ شکنی کی جاتی، جذباتیت کا طعنہ دے کر افکار و نظریات کے ٹکڑے کر دئیے جاتے۔ 

ہمیں شہید کے نظریے کو عملی جامہ پہنانا چاہیے۔ خود کو محدودیت سے نکال کر اسلام اور انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کردینا چاہیے جیساکہ ڈاکٹر شہید کی زندگی میں یہ پہلو روزِ روشن کی طرح واضح تھے، شہید ڈاکٹر مقاومتی شخصیت تھے، شہید ایک روشن چہرہ رکھتے تھے، وہ افکار و کردار میں سچے تھے، وہ مصلحت کے نام پر دوغلہ پن سے مبریٰ تھے، وہ جرأت کردار رکھتے تھے، وہ گھر، ہسپتال، تنظیم، تحریک، معاشرہ، محفل، تنہائی، عوام و خواص سب میں وہ ایک ہی محمد علی تھے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .