۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
ڈاکٹر محمد علی نقوی

حوزہ/ میں آج اس عظیم کرشماتی انسان کے بارے میں قلم اٹھارہا ہوں جسے آنکھ بھرکے دیکھنے کی خواہش کے باوجود کبھی دیکھ نہیں سکا، ہمہ تن گوش ہوکر سننے کی تڑپ رکھنے کے باوجود سن نہیں سکا اور وہ دور بہت دور ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔ مگر میری آنکھیں اب بھی انہیں دیکھتی ہیں، میری سماعت اب بھی انکو سنتی ہے۔

تحریر :محمد بشیر دولتی

حوزہ نیوز ایجنسیمیں آج اس عظیم کرشماتی انسان کے بارے میں قلم اٹھارہا ہوں جسے آنکھ بھرکے دیکھنے کی خواہش کے باوجود کبھی دیکھ نہیں سکا، ہمہ تن گوش ہوکر سننے کی تڑپ رکھنے کے باوجود سن نہیں سکا اور وہ دور بہت دور ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔ مگر میری آنکھیں اب بھی انہیں دیکھتی ہیں، میری سماعت اب بھی انکو سنتی ہے۔
چونکہ میں ان کے بہت ہی قریبی دوستوں اور ساتھیوں کو دیکھ اور سن چکاہوں اور اب بھی دیکھ اور سن رہا ہوں۔
وہ مجھ جیسے ہزاروں بے سمت لوگوں کو ایک فکری جہت دے کر چلا گیا۔وہ مختلف تعلیمی اداروں میں بکھرے ہمارے موتیوں کو تسبیح کے دانوں کی مانند ایک مالے میں پروکر چلا گیا۔ وہ ہزاروں ذات، خاندان اور نوکری کیلئے جینے والوں کو ایک اعلیٰ اور معیاری مقصد دے کر چلا گیا۔وہ ہزاروں خاموش لبوں کو صدائےحق بلند کرنا سکھا گیا۔ وہ دینی اقدار کا ایسا رکھوالا تھا کہ دلیپ کمار کے ساتھ فوٹو سیشن کیلئے کھڑا ہونے کے بجائے اس نوکری سے نہ فقط استعفیٰ دیا بلکہ اسی وقت سارے مراعات بھی واپس کردیئے، یوں چند روپوں کے عوض اپنی خودی بیچنے والوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔نوکری، گاڑی اور مقام کیلئے ہرجائز و ناجائز کام کر گزرنے والوں کو حیرت میں ڈال دیا۔

وہ نہ فقط اپنی ذات میں انجمن تھے بلکہ تنظیم ساز شخصیت بھی تھے، شہید قائد کے دست و بازو ہونے کے ساتھ آئی ایس او اور آئی او جیسی الہی تنظیموں کے بانی تھے ۔ہاں وہ تنظیموں اور اداروں کے بانی ضرور تھے مگر تنظیموں اور اداروں میں خود کو کبھی مضبوط نہیں کیا چونکہ وہ نظام کو مضبوط کرنے والا بےلوث خدمت گزار تھے یہی سبب ہے کہ اپنی زندگی میں تنظیم کے کئی مرکزی پروگراموں میں ایک عام بندے کی طرح آکر پنڈال میں عوام کے ساتھ کھڑے رہتے اور پروگرام ختم ہونے پر چپکے سے چلے جاتے تھے۔وہ کسی کلینک میں بیٹھ کر وقت گزارنے والے ڈاکٹر نہیں تھے بلکہ اپنے زمانے کے طبیب دوّار تھے۔ہاں وہ فقط جسمانی بیماریوں کے ڈاکٹر نہیں تھے بلکہ روحانی اور معاشرتی بیماریوں کے بھی ڈاکٹر تھے۔وہ ایسے ڈاکٹر تھے جو مریضوں کی شفا اور کمزوریوں کو آرام پہنچانے خود دربدر پھرتے تھے۔وہ بیماروں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کیلئے خود تھکن سے چور چور ہوتے تھے۔

وہ صرف مؤمن ہی نہیں مؤمن ساز بھی تھے وہ فقط مرد صالح نہیں بلکہ مرد مصلح بھی تھے جو بھی ان سے ایک بار ملا وہ پھر ان کی ذات سے جڑ گیا اور آج بھی ڈاکٹر، انجینئر، ٹیچر، آفیسر سے پہلے ایک مؤمن ایک حسینی و ایک عزادار ہیں۔بالمشافہ کبھی شہید کی زیارت نہیں ہوئی مگر جو جو ان کے قریبی ساتھی رہے انہیں دیکھ کر اور ان کی زبانی سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ ”وہ“ کیسا شاہکار ، مدبر ، معلم و مبلغ تھے۔
وہ تنظیم سے لیتا کچھ نہیں تھا پر اپنا سب کچھ دے دیتا تھا۔وہ اپنی جیب خرچ بھی تنظیمی امور پہ خرچ کرتے تھے۔وہ گھریلو وقت کو بھی ملت کیلئے وقف کیا کرتےتھے، وہ تنظیمی دفتر بند ہوتے وقت سب کے ساتھ نکل جاتے مگر جب سب چلے جاتے تو چپکے سے اکیلے آکر صفائی کیا کرتے تھے۔وہ گھر میں ہوں تو ہمیشہ میزبان ہوتے تھے،سفر پر ہو تو نہ فقط مونس و مددگار ہوتے بلکہ ایک مؤذن، ایک مربّی اور ایک عالم دین ہوتے تھے ۔ وہ نہ صرف عام دنوں کو تنظیم کیلئے وقف کرتے بلکہ شادی کے دنوں میں بھی تنظیمی امور میں مشغول رہے ۔وہ دن کی روشنی میں نہ فقط میٹنگوں کی صدارت کرتے بلکہ رات کے اندھیرے میں ساتھیوں کے ساتھ وال چاکنگ بھی کیا کرتے تھے ۔ وہ جوانوں کی تعلیم افادیت کے ساتھ ساتھ تربیت کی ضرورت پر بھی زور دیتے تھے۔
وہ نہ فقط شیطان بزرگ کی چالوں اور مکاریوں سے آگاہ کرتے بلکہ ان کی آمد پہ ہزار رکاوٹوں کو توڑ کر، ہزار سزاؤں و مشکلات  سے بے خوف ہو کر ان کے سامنے ہی "مردہ باد امریکہ مردہ باد اسرائیل" کی صدا بلند کرتے تھے ۔ نہ صرف اندرون ملک اس زمہ داری کو نبھایا کرتے بلکہ بیرون ملک بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ براءت المشرکین وبراءت الظالمین کا بھر پور اظھارکرتے تھے۔

وہ جتنا نظریاتی تھے اس سے زیادہ عملی انسان تھے یہی سبب ہے کہ ایران عراق جنگ میں جب امام خمینی(رح) نے جوانوں کو رضاکارانہ اس جنگ میں شرکت کی دعوت دی تو کہتے ہیں کہ اس وقت آپ سفر پر تھے مگر اعلان سنتے ہی اپنے ساتھی سے پوچھا کہ جیپ میں کتنا پیسہ ہے؟  جو بھی ملا اسے لیا اور لاہور کا رخ کیا وہاں چند دوستوں سے مل کر دوائیوں کا اہتمام کیا اور انہیں لے کر چند دنوں میں اہواز کے گرم ترین محاذ پہ پہنچ گئے۔گھر والوں کو اس کی اطلاع بھی دوستوں کے ذریعے سے ملی۔محاذ پر اس طرح زخمیوں کی خدمت کی کہ خود ایرانی ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ہم تو ہر روز کچھ دیر آرام بھی کرتے تھے مگر ڈاکٹر نقوی دو دو دن تک مسلسل کام کرتے تھے۔ اکثر اوقات ہم نیند سے اٹھتے تو انہیں کام میں مشغول پاتے۔
عجیب آدمی تھا کہ دوسروں کے دکھ درد کیلئے خود بےچین رہتے تھے۔ وہ شہادت کے مبلغ بھی تھے اور مشتاق بھی، ایسے متقی، پرہیزگار، بےلوث، اور درد مند لوگوں کو یہ دنیا جینے نہیں دیتی  مگر خدا بھی ایسے متحرک و فرض شناس لوگوں کو کبھی مرنے نہیں دیتا۔وہ شہادت جیسی نعمت کے ذریعے ہمیشہ کیلئے زندہ و جاوید ہوگیا ۔ بقول، ایران عراق محاذ پہ ساتھ کام کرنے والے ایرانی ڈاکٹروں کے کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی اگر شہید نہ ہوتے تو یہ ان کے ساتھ ظلم ہوتا۔یہ ان ہستیوں میں سے تھے جن کو خود شہادت نے انتخاب کیا ہے۔
میں آج بھی جب کسی سینئر دوست کو خلوص میں ڈوب کر عملی میدان میں قوم و ملت اور دین حق کی خدمت کرتے ہوے دیکھتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے شہید ڈاکٹر زندہ ہو گئے ہوں۔میں آج بے لوث جوانوں کو اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر دین اسلام کی خدمت کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو میرے یقین میں اضافہ ہوتا ہے کہ واقعی شہید زندہ ہوتا ہے۔میں جب بھی کسی عالم دین کو ولایت فقیہ کی بات کرتے سنتا ہوں تو مجھے یقین ہوتا ہے کہ شہید آج بھی زندہ ہے چونکہ پاکستان میں ولایت کے جتنے عظیم خطیب آئیں وہ آپ کے ہی بے لوث جہد مسلسل کا ہی نتیجہ ہے ۔خدا ایسے تمام علماء کرام و خطیب حضرات کو سلامت رکھے۔

میں جب بھی پاکستان میں القدس کی ریلیوں اور ان میں موجود لوگوں کو دیکھتا ہوں، یا مختلف شہروں ،گاٶں اور قصبوں کے مرکزی ماتمی جلوسوں میں نماز جماعت ہوتے دیکھتا ہوں تو مجھے یقین ہوتا ہے کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی زندہ ہیں ۔ اب بھی کسی بچے کے منہ سے سنتا ہوں کہ ”ڈاکٹر کانعرہ یاد ہے امریکہ مردہ باد ہے“یا یہ نعرہ کہ ”رہبر کے فرمان پہ جان بھی قربان ہے“  تو مجھے یقین کامل ہو جاتا ہے کہ شہید آج بھی زندہ ہیں اور مجھے ہر طرف شھید ڈاکٹر محمد علی نقوی ہی نظر آتا ہے۔

خدا شہید کے خون کے صدقے میں ہم سب کو ان کے فکر وعمل کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ،آخر میں دعوت فکر و عمل کیلئے شہید کے ہی ایک نورانی و فکری جملے کے ساتھ اجازت چاہتاہوں کہ۔۔، ”حق کو پہچاننے کے بعد ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رہنا حق کی توہین ہے۔“

خدا ہم سب کو معاشرے کے اندر حق کو پہچاننے، حق کو سننے، حق بولنے، حق پر عمل کرنے ،حق پر قائم رہنے اور حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .