۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
News ID: 366247
3 مارچ 2021 - 20:01
ڈاکٹر پیام اعظمی

حوزہ/ اغیار ہماری مجلسوں اور ہمارے علماء کی صحبت میں بیٹھ کر سخن گستری کا سبق لیتے تھے۔ مگر آج صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ کچہریوں کی زبان میں فلاں بنام فلاں کہے بغیر علمی گفتگو شروع ہی نہیں ہو سکتی ۔ اور ہمارے نوزائیدہ ذاکرین تو منبر پر بیٹھتے ہی ٹوپی اتار کے نام بہ نام شروع ہو جاتے ہیں ۔

حوزہ نیوز ایجنسی

مرزا غالب کی مشہور غزل جس کا مطلع ہے:

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
 تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

اور اسی غزل کا مقطع ہے: 

ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا 
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے 

مقطع کے اس شعر پر غالب کے  معاصر شاعر ذوق دہلوی جو مغلیہ حکومت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کے استاد تھے بہت خفا ہوئے اور بادشاہ سے شکایت کردی کہ غالب نے اس شعر میں میری ذات پر حملہ کیا ہے۔ بہادر شاہ ظفر غالب سے ناراض ہوئے کہ تم نے میرے استاد کی توہین کی ہے۔ نتیجے میں غالب کو منظوم معذرت نامہ لکھنا پڑا۔ جس کے چند شعر یہ ہیں ۔

روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
استاد شہ سے ہو مجھے پرخاش کا خیال 
یہ تاب یہ مجال یہ جرأت نہیں مجھے
مقطع میں  آپڑی تھی سخن گسترانہ بات
ورنہ کسی سے کوئی عداوت نہیں مجھے 

یقیناً مذکورہ شعر کی تخلیق کا سبب ذوق کی ذات تھی ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غالب نے بادشاہ کی استادی کے سہارے پر ٹکی ہوئی ذوق کی علمی اور شعری حیثیت پر طنز کیا ہو ۔ مگر یہ غالب کا کمالِ فن تھا کہ انہوں نے نام لیے بغیر ایک فرد واحد کے بارے میں اپنے ذاتی تاثرات کو "سخن گسترانہ" طریقہ سے ایک آفاقی حقیقت کے طور پر پیش کر کے اردو ادب کو ایک لازوال شعر عطا کردیا۔۔۔۔۔۔ ذوق کو شکایت کے بجائے غالب کی فنی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا چاہیے تھا۔
 غالب کا یہ شعر ایک عالمی سچائی کا عکاس ہے جو تاریخ کے ہر دور اور ہر منظر نامہ میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ اس شعر کے آئینے میں وہ سارے چہرے نظر آتے ہیں جو ہر طرح کی ذاتی صلاحیتوں سے محروم ہوتے ہیں مگر کسی بڑی شخصیت سے وابستگی اور اس کے حلقۂ اصحاب میں شامل ہونے کی وجہ سے بڑے نظر آتے ہیں۔

غالب اگر اپنے شعر میں ذوق کا نام شامل کر دیتے ۔ مثلاً وہ کہتے۔ 
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا 
وگرنہ ذوق کی دلی میں آبرو کیا ہے 

تو یہی شعر اپنے اسی مفہوم کے باوجود سخن گستری کے بجائے بچکانہ دشنام طرازی بن جاتا اور تنگئ مصداق کا شکار ہو کے نذر طاق نسیاں ہو جاتا ۔ 

سخن گستری کا مطلب ہے کہ گفتگو اصل موضوع سے نکل کے ذاتیات کے دائرہ میں نہ داخل ہونے پائے اور کوئی قول ہو یا نقطۂ نظر ذاتیات کے دائرے سے نکل کے علمی آفاق میں پہنچ جائے ۔

ساری دنیا کا علمی ادبی سرمایہ، اسی سخن گستری کا رہین منت ہے ورنہ ہر گفتگو کسی نہ کسی "وجہ گفتگو" کی بنیاد پر عالم وجود میں آتی ہے ۔ مگر سخن گستری کا تقاضا ہے کہ بات اس سے اوپر اٹھ کے کی جائے۔۔۔۔۔۔ قرآن کریم کی آیات کی تنزیل کے پس منظر میں افراد بھی ہیں اور اقوال بھی ۔ مگر قرآن کی ہر آیت کائناتی صداقت بنی ہوئی ہے اور بنی رہے گی ۔کسی قول کا علمی تجزیہ سخن گستری کے خلاف نہیں ہے، مگر صاحب قول کی شیروانی کے بٹن شمار کرنا یقینا مذموم حرکت ہے ۔

سخن گستری، گفتگو کو ایمائیت اور ہمہ گیری عطا کر کے وسیع کر دیتی ہے ۔ جب کہ "ذاتیات" اسے سُکیڑ کے اس کے مفہوم کو چھوٹا کر دیتی ہے ۔ 

ڈاکٹر پیام اعظمی نے تقریبا ٢۵ سال پہلے کراچی یونیورسٹی کے ایک سیمنار میں جو "تعلیم نسواں" کے موضوع پر ہو رہا تھا. اپنے مرثیے "عورت" کے کچھ بند پڑھے اس میں یہ بند بھی تھا..... 
جان تہذیب ہے بے لوث محبت اس کی 
مثل آئینے کے شفاف ہے طینت اسکی 
پیار کی ہے یہ امیں عشق ہے فطرت اس کی 
دور ہر جنگ و جدل سے ہے طبیعت اسکی 
ہاں مگر خو کبھی اس کی جو بگڑ جاتی ہے 
ہم ہیں کیا شیر الہٰی سے بھی لڑ جاتی ہے

ایک بزرگ صاحب ریش دراز، مسلک غیر سے وابستہ پرجوش انداز میں تعریف کر رہے تھے ۔ بعد میں گرم جوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے فرمانے لگے ۔بہت اچھا کہا ہے آپ نے میں سمجھ گیا آپ کا اشارہ محترمہ اندرا گاندھی اور ذوالفقار علی بھٹو کی طرف ہے۔۔۔۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ سخن گسترانہ بات ہر جگہ برابر سے سمجھی جاتی ہے ۔ بس مصداق بدل جاتے ہیں ۔ مگر ذاتیات پر مبنی گفتگو صرف اسی حلقہ میں سمجھی جاتی ہے جہاں کے لوگ گفتگو میں شامل کرداروں سے واقف ہوتے ہیں ۔ 

کلام کو موضوع بنانا چاہیئے نہ کہ صاحبِ کلام کو۔۔۔۔۔۔ 
معصوم نے فرمایا ہے کہ یہ نہ دیکھو ! کون کہہ رہا ہے ؟ بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہا جا رہا ہے ؟

افسوس اس کا ہے کہ سخن گستری کا سلیقہ ہم سے چھنتا جا رہا ہے ۔ "ذاتیات" کی شکل میں پھوہڑپن بڑھتا جا رہا ہے ۔ اس علمی انحطاط اور فکری زوال کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ ہَول آتا ہے، گذشتہ نسل کے علماء و ذاکرین ہمیں یاد ہیں ۔ اس قدر سخن گسترانہ گفتگو کرتے تھے کہ جس پر چوٹ پڑتی تھی وہی واہ بھی کرتا تھا۔

اغیار ہماری مجلسوں اور ہمارے علماء کی صحبت میں بیٹھ کر سخن گستری کا سبق لیتے تھے۔۔۔۔ مگر آج صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ کچہریوں کی زبان میں فلاں بنام فلاں کہے بغیر علمی گفتگو شروع ہی نہیں ہو سکتی ۔ اور ہمارے نوزائیدہ ذاکرین تو منبر پر بیٹھتے ہی ٹوپی اتار کے نام بہ نام شروع ہو جاتے ہیں ۔

مضمون نگار ق_ح، نباض ادب ڈاکٹر پیام اعظمی

تبصرہ ارسال

You are replying to: .