باسمہ سبحانہ
کتاب حق کی اہانت کا جو بھی مجرم ہو
گلے میں طوق ملامت کا اسکے لازم ہو
یزید وقت کا جو شخص بھی ملازم ہو
اب اسکے واسطے مولا کی تیغِ دو دم ہو
یہ ظلمتوں کے دروں پر گداگری کیسی۔
چراغ علم جلاو اگر کہ عالم ہو
در یزید پہ سر خم لبوں پہ یا مولا
ذرا یہ دل سے بتاو کہ کس کے خادم ہو
ڈکیت چوروں کے ہاتھوں زمام دینے پر
ضمیر چیخ رہا ہےکہ تم بھی ملزم ہو
زبانی لعن جو ظالم پہ بھیجتا ہے کوئی
تو خود سکوت یہ کہتا ہے تم بھی ظالم ہو .
علم اٹھا کے بھی ظالم کی گر حمایت کی
قلم کو لکھنا پڑے گا جری کے مجرم ہو
یہاں کے منصف و قاضی ہی گونگے بہرے ہیں
بتاو شہر میں انصاف کیسے قائم ہو
خبیث لوگ علاقوں کو روند ڈالیں گے
اٹھے کوئی تو یہاں پر کوئی تو عاصم ہو
یہ جانور سے بھی پستی میں آگے بڑھ جائے
مزاجِ ظلم جو انسانیت پہ حاکم ہو
یہ پورا شہر شہادت کا خون مانگتا ہے
شہادتوں کے چمن میں کوئی تو عازم ہو ۔
کبھی فقیر وہ دنیا میں ہو نہیں سکتا
عطا غریبوں پہ جس شخص کی بھی دائم ہو
وہ جس کے قلب میں مولا علی ع کی الفت ہو ۔
یہ کیسے ہوگا وہی درپے مظالم ہو
یہ بکھرے دانے بڑی قیمتوں کے حامل ہیں
کوئی تو انکو پروئے کوئی تو ناظم ہو ۔
وہ آسمانِ شہادت کا آفتاب بنے
در حسین پہ تارا جو جھک کے نادم ہو
تری کتاب کے شاتم کو سر اٹھائے ہیں
دعاء یہی ہے خدایا ظہورِ قائم ہو
یہ بھوک و پیاس کا روزہ تو ایک دھوکہ ہے
فریب، جھوٹ، دغا، مکر کیسے صائم ہو
تعلقات کے اصنام پوجنے والوں
کہاں ہے دین تمہارا یہ کیسے مسلم ہو ۔
نجیب حشر کے میداں میں رو نہیں سکتی۔
غم حسین ع کےاشکوں سے آنکھ جو نم ہو
از قلم: مولانا سید نجیب الحسن زیدی قم مقدسہ