۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے "تنظیمی مکتب" کی پہلی خصوصیت

حوزہ/ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے تنظیمی مکتب کی پہلی خصوصیت صرف اور صرف خدا کیلئے کام کرنا ہے۔ اسی لیے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی بھی ریا، خودنمائی اور خودپسندی سے پرہیز کرتے تھے۔ آپ جب سعودی عرب میں "برائت از مشرکین" کا معرکہ انجام دینے اور سعودی زندانوں میں قید و مشقت کے سخت ترین ایام گزار کر واپس پاکستان پہنچے تو کسی انفرادی یا اجتماعی محفل میں اپنے اوپر ہونیوالے ایسے کسی واقعہ یا تشدد کا ذکر نہیں کیا، جس میں انکی تعریف یا ستائش کا کوئی پہلو نکلتا تھا۔ جب میرے جیسے دوستوں نے بہت اصرار کیا تو بڑے دھیمے لہجے میں جواب دیا "میرا ثواب کیوں ضائع کرتے ہو؟ میں نے خدا کیلئے ایک کام انجام دیا ہے۔ اسے دوسروں کے سامنے پیش کرکے ایک خالص عمل کو کیوں ضائع کر دوں۔"

تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

حوزہ نیوز ایجنسی | شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے "تنظیمی مکتب" کی خصوصیات بیان کرنے کا بنیادی ہدف ان بنیادی نکات و صفات کو اجاگر کرنا ہے، تاکہ آنے والی نسلیں بالخصوص تنظیمی کیڈر اس طرف متوجہ ہو کہ تنظیم برائے تنظیم نہیں ہوتی اور تنظیم کے بانیان نے کچھ اہداف و مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کارِ خیر بلکہ صدقہ جاریہ کا آغاز کیا تھا۔ شہید ڈاکٹر کی شخصیت اور ان کے تنظیمی مکتب کا مطالعہ و تجزیہ بھی اس امر کا متقاضی ہے کہ ان صفات و خصوصیات کو تنظیمی عہدیداروں کے لیے قابل تقلید اور باقاعدہ لائحہ عمل و واضح روڈ میپ ہونا چاہیئے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کی مناسبت سے برسیاں، اجتماعات، سمینار حتی کہ اس موقع کی مناسبت سے جو کچھ بولا، لکھا اور پیش کیا جاتا ہے، سب کا بنیادی مقصد ان اہداف و مقاصد کو بیان کرنا ہے، جس کے لیے شہید نے اپنی زندگی سختیوں اور مشکلات میں گزاری اور اس راستے پر اپنی جان کا نذارانہ پیش کیا۔ اگر ہم ظاہری تعریفوں کے پل باندھتے رہے اور شہید کے زریں اصولوں اور عملی نصیحتوں کو نظرانداز کر بیٹھے تو یہ سب کیا کرایا ضائع جائے گا۔ شہید ڈاکٹر ایک عملیت پسند انسان تھے۔ پس ہماری کوشش بھی یی ہونی چاہیئے کہ ان کے "تنظیمی مکتب" کو ایک قابل عمل نقشہ راہ سمجھتے ہوئے اس پر عمل کریں۔ قرآنی حکم کے مطابق "فاستقم کما امرت۔" (سورہ مبارکہ شوریٰ آیت نمبر ۱۵)

شہید ڈاکٹر کے تنظیمی مکتب کا پہلا درس للھیت اور تنظیمی امور کو صرف اور صرف خداوند عالم کی خوشنودی کی خاطر انجام دینا ہے۔ پس تمام زندگی بالخصوص تنظیمی امور کو صرف اور صرف خدا کے لیے انجام دینا تنظیمی واجبات میں سے ہے۔ اگر کوئی تنظیمی فرد اس سے انحراف کرتا ہے تو گویا اس نے تنظیم کے نصب العین اور اغراض و مقاصد کو سمجھنے میں شدید کوتاہی کی ہے۔ تنظیم خدا کے لیے ہے اور اس میں انجام پانے والا ہر کام اگر خدا کی خوشنودی کے علاوہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو وہ تنظیم غیر الہیٰ راستے پر گامزن ہے یا اس تنظیم کے لیے کام کرنے والا انحرافی راستے کا راہی بن چکا ہے۔ قرآن پاک میں سورہ مبارکہ انعام کی آیت نمبر ۱۶۲ میں ارشاد ہے: "قل ان الصلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین۔" ترجمہ: "کہہ دیجیے کہ میری نماز اور میری عبادات اور میری زندگی اور میری موت صرف جہانوں کے پروردگار کے لیے ہے۔"

اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ نماز و عبادات اور زندگی و موت سب خدا کے لیے ہے۔ گویا یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ خدا کے علاوہ کچھ نہیں۔ نماز اور عبادات کو جدا بیان کرکے مزید واضح کر دیا گیا ہے کہ صرف نماز جیسی عبادت ہی نہیں، تمام تر انفرادی اور اجتماعی عبادات صرف اور صرف خدا کے لیے ہونی چاہئیں۔ اس میں زمان و مکان کو بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ زندگی سے موت تک یعنی پیدائش سے لے کر قبر میں اترنے تک کا تمام زمانہ صرف اور صرف اللہ کے لیے بسر کرو۔ نماز جس کے تمام اذکار خدا کی حمد و ثناء پر مشتمل ہیں، اس میں اگر للہیت ضروری ہے تو دیگر عبادتوں میں بدرجہ اولی ہونی چاہیئے۔ قرآن پاک میں تمام امور کو صرف خداوند عالم کے لیے انجام دینے کے حوالے سے بہت سی آیات موجود ہیں اور اس میں عام انسانوں کو ہی نہیں بلکہ پیغمبران الہیٰ کو بھی براہ راست خطاب کیا گیا ہے، جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ للھیت امور زندگی میں کس قدر اہم ہے۔ دینی اور مذہبی تنظیموں میں کام کرنا بھی ایک عبادت قرار دیا جاتا ہے، لہذا اگر اس عبادت میں خوشنودی خدا نہ ہو تو اسے عبادت کے زمرے میں نہیں لایا جا سکتا۔

دینی و انقلابی تنظیموں میں یہ آیہ کریمہ بہت زیادہ تلاوت کی جاتی ہے: "و ما خلقت الجن والانس الّا لیعبدون۔" یعنی: "ہم نے جنات اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر عبادے کے لیے۔" اس آیت کو امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (جسے پاکستان میں دینی و مذہبی تنظیمات کی ماں سمجھا جاتا ہے،) کے دستور کے پیش لفظ میں خصوصی طور پر شامل کیا گیا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آئی ایس او کے بانیان کی نگاہ میں تمام تنظیمی امور کو اس طرح انجام دیا جائے کہ تمام امور عبادت کے زمرے میں شمار ہوں۔ اگر تنظیمی امور کو عبادت سمجھ کر انجام دینے کی دستوری تلقین کی گئی ہے تو پھر اس عبادت کو صرف اور صرف خداوند عالم کی خوشنودی کے لیے ہونا چاہیئے، وگرنہ شرک و ریا کا جہنمی دروازہ کھل جائے گا، جس کا حتمی و منطقی نتیجہ "اولئک ھم الخاسرون" کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ قرآن پاک کی سورہ فجر کی آیات 27 سے 30، سورہ رعد کی آیت 28، سورہ توبہ کی آیت نمبر 59 اور 100 کے علاوہ سورہ یونس کی آیات 7 اور 8 میں خداوند عالم کی خوشنودی کے لیے امور کو انجام دینے پر تاکید کی گئی ہے۔ آیات مضمون کے اختتام پر ملاحظہ فرمائیں۔

آئیے اس حوالے سے چند احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں:

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: "کل عمل لم یکن للہ خالصا فھو ریاء۔" یعنی: "ہر عمل جو اللہ کے لیے خالص نہ ہو، ریا اور خودنمائی ہے۔ (جامع‌ السعادات، ج ٢، ص ٣٧١)۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: "ان اللہ لا یقبل عملا فیہ مثقال ذرۃ من ریاء۔" یعنی: "اللہ ایسے عمل کو قبول نہیں کرتا، جس میں ذرہ برابر بھی ریا موجود ہو۔" (عدّة‌الدّاعی، ص ٢١٤)۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: "العمل کلہ ہباء الا ما اخلص فیہ۔" یعنی: "انسان کے تمام عمل فناپذیر ہیں، سوائے اس عمل کے جو خالصتاً اللہ کے لئے ہو۔" امیرالمومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں: "طوبی لمن اخلص للہ عملہ و علمہ وحبہ و بغضہ و اخذہ و ترکہ و کلامہ و صمتہ و فعلہ و قولہ۔" یعنی: "خوش قسمت ہے وہ شخص جس کا عمل، علم، محبت، نفرت، لینا دینا، کلام، خاموشی، کردار اور رفتار سب اللہ کے لیے ہو۔" (تحف‌العقول، ص ٨٦)

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "اَلْعَمَلُ الْخالِصُ: الّذی لاتُریدُ اَنْ یَحْمَدَكَ عَلَیْهِ اَحَدٌ إلاَّ اللهَ عَزَّوَجَلَّ۔" یعنی: "خالص عمل وہ عمل ہے کہ جس کے حوالے سے تم یہ نہ چاہو کہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی اور اس کے بارے جانے۔" (اصول کافی، ج ٣، ص ٢٦)۔ ۲۔ امام جواد علیہ السلام فرماتے ہیں: "رضا الناس بعد رضا اللہ۔" یعنی: "لوگوں کی رضا سے پہلے اللہ کی رضا درکار ہونی چاہیئے۔" امام جعفر صادق علیہ السلام: "من مشی فی حاجۃ اخیہ المسلم و لم یناصحہ فیھا کان کمن خان اللہ و رسولہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم۔" یعنی: "جو اپنے مسلمان بھائی کی حاجت روائی کرنے کے درپے ہو، لیکن خلوص نیت کے ساتھ یہ کام نہ کرے، اس شخص کی طرح ہے کہ جس نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت کی۔" (ثواب‌ الاعمال، ص ٥٦٧)۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث و روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ خداوند عالم کی خوشنودی کے بغیر انجام دیا جانے والا ہر کام نہ عبادت میں شمار ہوتا ہے اور نہ اس کی تاثیر ہوتی ہے۔

آخر میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ، رہبر معظم حفظہ اللہ اور شہید ڈاکتر محمد علی نقوی کی زندگی سے ایک واقعہ نقل کرکے اس موضوع کو اختتام پر پہنچاتے ہیں: "کہتے ہیں کہ ایک بار آیت اللہ شہید بہشتی امام خمینی رضوان اللہ علیہما سے ملنے کے لیے حسینیہ جماران گئے۔ امام خمینی علیہ الرحمۃ نے امام بارگاہ میں موجود عوام سے خطاب کرنا تھا۔ شہید بہشتی خطاب سے کچھ دیر پہلے امام خمینی کے کمرے میں پہنچے۔ امام خمینی کے کمرے میں امام بارگاہ میں موجود عوام کے نعروں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ عوام نعرے لگا رہی تھی کہ امام خمینی آپ ہماری جان ہیں، آپ ہمارے رہبر ہیں، ہم آپ پر اپنی زندگیاں قربان کر دیں گے۔ امام خمینی نے شہید بہشتی کو مخاطب کرکے فرمایا: "اگر یہی لوگ جو اس وقت میرے لیے جان قربان کر دینے کے نعرے لگا رہے ہیں، کل مجھے گالیاں بھی دینے لگ جائیں تو مجھ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ میں اپنے تمام امور خدا کے لیے انجام دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔"

رہبر معظم انقلاب آیت اللہ خامنہ ای حفظہ اللہ للھیت اور خدا کے راستے میں کام کرنے کے حوالے سے فرماتے ہیں: "اسلامی نظام میں عہدہ ؤ منصب پر فائز ہونے اور امور کی ذمہ داری سنبھالنے کا مسئلہ صرف عوام سے روبرو ہونا نہیں ہے، بلکہ اگر خدا کے ساتھ رابطہ نہ ہو تو عوام کے لئے کام کرنے اور ان کے لئے کسی طرح کی خدمت انجام دینے میں رخنہ پڑ جائے گا، اس فریضے اور ذمہ داری کی پشت پناہی اور سہارا وہی خدا سے رابطہ ہے، اسی لئے امیرالمؤمنین علیہ السلام نے جناب مالک اشتر کے نام اپنے خط میں فرمایا ہے، "تم جو اپنے اوقات مختلف کاموں کے لئے معین کرتے ہو، اس میں بہترین وقت اپنے اور اپنے خدا کے درمیان خلوت کے لئے مقرر کرو، یعنی اپنے خدا کے ساتھ رابطے اور توبہ ؤ استغفار نیز گریہ ؤ زاری کے اوقات کو اس وقت معین نہ کرو، جس میں تم تھکن اور اضمحلال کی حالت سے دوچار ہو۔ رہبر معظم مزید فرماتے ہیں: "اگرچہ آپ جس وقت حکومت اسلامی میں کسی عہدہ ؤ منصب پر فائز ہیں تو آپ کے تمام کام خدا سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ نیت میں اخلاص ہو اور کوئی ایسا کام جو عوام کو تکلیف پہنچائے، اسے آپ انجام نہ دیں، اس کے ساتھ ساتھ آپ کی وہ تمام کوششیں اور محنتیں اپنے اور اپنے خدا کے ساتھ خلوت کے لئے قرار پائیں، اسلامی نظام اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کے مکتب میں ہر صاحب منصب (قوم کے خدمتکار) کا چہرہ ایسا ہی ہے، (یعنی مملکت اسلامی کے ذمہ داران کو ایسا ہی ہونا چاہیئے)۔" (امام خامنہ ای، 15 دسمبر 2000ء)

جیسا کہ عرض کیا ہے کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے تنظیمی مکتب کی پہلی خصوصیت صرف اور صرف خدا کے لیے کام کرنا ہے۔ اسی لیے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی بھی ریا، خودنمائی اور خودپسندی سے پرہیز کرتے تھے۔ آپ جب سعودی عرب میں "برائت از مشرکین" کا معرکہ انجام دینے اور سعودی زندانوں میں قید و مشقت کے سخت ترین ایام گزار کر واپس پاکستان پہنچے تو کسی انفرادی یا اجتماعی محفل میں اپنے اوپر ہونے والے ایسے کسی واقعہ یا تشدد کا ذکر نہیں کیا، جس میں ان کی تعریف یا ستائش کا کوئی پہلو نکلتا تھا۔ جب میرے جیسے دوستوں نے بہت اصرار کیا تو بڑے دھیمے لہجے میں جواب دیا "میرا ثواب کیوں ضائع کرتے ہو؟ میں نے خدا کے لیے ایک کام انجام دیا ہے۔ اسے دوسروں کے سامنے پیش کرکے ایک خالص عمل کو کیوں ضائع کردوں۔"

میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اگر میں ان کی جگہ ہوتا اور اتنا بڑا کام کرکے واپس آیا ہوتا تو سب سے پہلے تنظیم کے خرچے پر پریس کانفرنس کرتا، تاکہ بریکنگ نیوز میں میری تصویر تمام دنیا تک پہنچ جائے۔ میں شہر شہر قریہ قریہ تنظیمی یونٹس میں جا کر اپنے فنِ خطابت کو بروئے کار لا کر حج کے اجتماع میں انجام دیئے گئے امور کو بڑھا چڑھا کر بیان کرکے کارکنان سے داد سمیٹتا۔ سعودی جیلوں میں ہونے والے تشدد کو اس درد اور کرب سے بیان کرتا کہ سننے والوں پر گریہ طاری ہو جاتا۔ اپنی اس کارکردگی پر اتنا فخر و مباہات کرتا کہ الفاظ کم پڑ جاتے۔ اس پر بھی بس نہ کرتا اور قوم و ملت سے شکوہ کرتا کہ قوم و ملت نے میری قربانیوں کا صلہ نہیں دیا۔

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اس سمیت کئی بڑے معرکے سرانجام دیئے، جن میں بعض اب بھی عوام الناس کی نظروں سے پوشیدہ ہیں۔ ان کا تنظیمی مکتب اس بات کا متقاضی تھا کہ وہ اپنے امور کو صرف اور صرف خدا کے لیے انجام دیں اور کسی سے صلہ و ستائش کی امید نہ رکھیں۔ آپ نے ایسے ہی کیا اور "واستقم کما امرت" کی منزل پر فائز ہوگئے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے مخلوق کی بجائے خالق سے امیدیں وابستہ کیں۔ اسی لیے خالق نے انہیں وہ مقام دیا کہ انتیس برس گزرنے کے باوجود آج بھی ان کا ذکر ایک زندہ فرد کی طرح تنظیمی محافل میں کیا جاتا ہے۔آپ سے عقیدت کا یہ عالم ہے کہ جس نسل نے آپ کو قریب سے بھی نہیں دیکھا، وہ آپ کے دل و جان سے شیدائی ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .