۲۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 10, 2024
قم المقدسہ میں ڈاکٹر شہید بہشتی کی برسی پر نشست کا انعقاد

حوزہ/ شہید بہشتی نے قوم کو خود اعتمادی کا درس دیا، قلمی ولسانی دونوں جہاد کے ساتھ ولایت فقیہ کو قانون کے طور پر تصویب کرنے اور انقلاب اسلامی کے قانون اساسی کولکھنے میں شہید بہشتی کابنیادی کردار تھا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،آیت اللہ ڈاکٹر شہید بہشتی کے یوم شہادت کی مناسبت سے ایک نشست مذاکرہ کا انعقاد کیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق 28جون بروز بدھ کو شعبہ تحقیق مجمع طلاب شگر اور انجمن فقہ اصول کے زیر اہتمام ایک نشست غدیر ہال مدرسہ حجتیہ قم میں منعقد ہوئی۔نشست کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ نظامت کے فرائض اسکالرز محمد اصغر کاملی نے انجام دیا۔

شہید بہشتی کتاب و دلوں میں زندہ ہیں، ڈاکٹر یعقوب بشوی

نشست سے اظہار خیال کرتے ہوئے پہلے معروف کالم نگار شیخ بشیر دولتی نے شہید بہشتی کی اہم خصوصیات کی جانب اشارہ کیا اور کہا: شہید بہشتی کی اہم خصوصیت گروہی کام اور انتظامی صلاحیت ہے۔رہبر انقلاب نے فرمایا کہ یہ شہید کی اہم خصوصیت ہے۔شہید بہشتی تنظیمی امور کے ساتھ اپنی ذاتی زندگی میں نظم وضبط کے پابند تھے۔شہید بہشتی ہر چیز میں اصول وقانون کو ہر چیر پر مقدم کرتے تھے۔

نشست سے خطاب کرتے ہوئے پروگرام کے دوسرے خطیب ڈاکٹر فرمان علی سعیدی نے کہا: شہید بہشتی یا دیگر شخصیات کی یاد منانے کا مقصد ان کے افکار اور زندگی سے درس لےکر معاشرہ میں اس پر عمل پیرا ہونا ہے۔شہید بہشتی نے جوانوں کو منظم کیا،جہادی انداز میں کام کیا۔میں نے اپنے مقالے میں شہید بہشتی کے پانچ بنیادی اوصاف کو زیر بحث لایا ہے۔

1.توحیدی زندگی اور خدا کی خاطر کام کرنا۔ 2.حق کا دفاع اور باطل سے مقابلہ۔ 3.عدل کے قیام،محرومیت اور پسماندگی کے خاتمہ کے لیے کوشش۔ 4.خود پر اعتماد،عزت نفس،خودمختاری اور کفار پر تکیہ نہ کرنا۔ ہم شہید کے ان اوصاف سے درس کے کر اپنے معاشروں میں اصلاحی وفکری اقدام کرسکتے ہیں۔جس کے لیے جرات،اعتماد ضروری ہے۔

شہید بہشتی کتاب و دلوں میں زندہ ہیں، ڈاکٹر یعقوب بشوی

نشست علمی کے تیسرے سپیکر آقای سکندر علی بہشتی نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا:رہبر انقلاب نے اپنی ایک تقریر میں تین اہم شخصیات کے افکار ومبانی پر توجہ دینے کی تاکید کی ہے۔شہید مطہری،شہید بہشتی اور آیت اللہ مصباح۔

شہید بہشتی نے نہ صرف مغربی تہذیب کامطالعہ کیا بلکہ جرمنی میں طویل عرصہ تک کر قریب سے مشاہدہ کیا۔وہاں آپ عالم اسلام کے طلبا تنظیموں سے رابطے میں تھے۔اس لیے جدید نعروں عدالت،آزادی,استقلال،حقوق اور دیگر مسائل میں شہید کے افکار ہمارے معاشرے کے لیے زیادہ مفید ہیں۔

مختلف شخصیات اور مناسبات پر نشست مذاکرہ کے انعقاد کے ذریعے مختلف الخیال شخصیات مسایل کاباہمی حل تلاش کرسکتےہیں۔شہید بہشتی کے بارے میں "ناشناختہ ملت"کے عنوان سے مضامین کا مجموعہ پہلی بار شہید بہشتی کے افکار سے آشنائی کے لیے میڈیا پر شائع ہواہے۔یہ سلسلہ اہل قلم کے باہمی ھم فکری جاری رہنا موثر ومفید ہے۔

پروگرام کے آخری خطیب ڈاکٹر یعقوب بشوی نے اپنے خطاب میں کہا: قوموں کوزندہ رکھنے کے لیے شہدا کی یاد کوتازہ رکھنا لازم ہے۔اس لیے رہبر انقلاب نے فرمایا کہ شہدا کی یاد شہادت سے کم نہیں۔ شہید بہشتی وہ عظیم شخصیت ہے جس کے بارے میں امام خمینی نے "امت"سے تعبیر کیا ہے۔آپ میں فرد کی نہیں،بلکہ امت کی صفات تھی۔ہمیں بھی ایسی شخصیات کی تربیت کرنی چاہیے جن میں امر کی صفات ہوں۔

شہید بہشتی نے قوم کو خود اعتمادی کا درس دیا۔قلمی ولسانی دونوں جہاد کے ساتھ ولایت فقیہ کو قانون کے طور پر تصویب کرنے اور انقلاب اسلامی کے قانون اساسی کولکھنے میں شہید بہشتی کابنیادی کردار تھا۔

ڈاکٹر بشوی نے مزیدکہا: قومیں،حکومتیں اور شخصیات تاریخ میں بہت آئیں مگر بہت سوں کا نام ونشاں نہیں۔لیکن شہید بہشتی جیسے علما و شہدا کتابوں،معاشروں،دلوں،فکروں اور ذہنوں میں زندہ ہیں۔ اس راز کو جاننا چاہیں تو قرآنی آیت "من المومنین رجال۔۔۔"میں تلاش کریں۔۔مومنیں میں سے بعض ایسے ہیں جو خدا سے کئے ہوئے عہد کاپابند ہیں۔جو مرد میدان و عمل ہیں۔

شہید بہشتی نے ہر قسم کی تنقید،تہمت و پروپیگنڈوں کا مقابلہ کیا۔مگر اپنے ہدف سے پیچھے نہ ہٹے۔اسی لیے مطہری،مصباح اور بہشتی جیسوں کا متبادل نہیں۔ہمیں بھی ان شخصیات کامطالعہ اور ان سے عملی زندگی میں درس لینا چاہیے۔نشست کا اختتام دعائے امام زمانہ سے ہوا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .