حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، دفتر قائد ملت جعفریہ شعبۂ قم کی جانب سے حرم حضرت معصومه سلام اللہ علیہا قم میں منعقدہ سالانہ عشرۂ محرم الحرام کی ساتویں مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی نے کہا ہے کہ قرآن مجید ادبیات عرب کا محتاج یا زیر اثر نہیں ہے، بلکہ ادبیات عرب قرآن مجید کے ما تحت ہیں۔ ہمارے بعض عزیز اس اصول کو سامنے رکھے بغیر قرآن مجید کا ترجمہ صرف ادبیات عرب کی بنیاد پر کرتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ قرآن کے حقیقی معنی و مقصود سے دور ہو جاتے ہیں اور یہ مشکل قرآن فہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بعض اوقات ایسے تراجم خود مترجم کی جہالت کو آشکار کرتے ہیں کیونکہ یہ امر قرآن مجید کی خصوصیات میں سے ہے کہ قرآن کریم اپنے مخاطبین کے لئے جدید الفاظ کو جدید معانی کے ساتھ متعارف کراتا ہے، اسی لئے قرآن کریم میں لفظ صلوات کو مختلف معانی میں استعمال کیا گیا ہے۔
علامہ یعقوب بشوی نے مزید کہا کہ مفسرین نے آیہ "خذ من اموالھم صدقہ تطہرھم و تزکیھم بھا و صل علیھم ان صلاتک سکن لھم" میں صلوات کا معنی دعا کیا ہے، جو کہ میرے خیال میں مطلوب اور مناسب ترجمہ نہیں ہے، کیونکہ دعا تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مؤمنین کے حقوق میں سے ہے اور آپ تو کافروں کی ہدایت کے لیے بھی دعا فرماتے تھے۔ اس لئے اس آیت میں صلوات کا معنی، دعا مناسب نہیں ہے، کیونکہ یہ صلوات مؤمنین کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ مؤمنین و کافرین دونوں کو حاصل ہے اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے مؤمنین و کافرین دونوں کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ سے مختلف انداز سے دعا طلب کی ہے، جبکہ قرآنی آیات کے مطابق، دعا مؤمنین کے مال سے صدقہ وصول کرنے کے بعد، ان کے دلوں کی طہارت اور نفوس کے تزکیہ و پاکیزگی کے بعد کا ایک خاص اور ممتاز مرحلہ و مقام ہے، لہذا رسالت مآب صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی یہ دعا و صلوات ان لوگوں کے لئے یقیناً عام دعا سے بڑھ کر ایک خاص عنایت اور عظیم مقام و مرتبہ ہے، جو طہارت و تزکیہ کی منزل طے کر چکے ہیں اور یہ صلوات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان مؤمنین کے ساتھ مقام وصل ہے جو نہ ٹوٹنے والے مسلسل رابطہ کا کردار ادا کرتی ہے اور خود لفظ صل میں وصل کا معنی پوشیدہ ہے اور یہ ایک دائمی رابطہ اور مقام وصل ہے۔ صلوات بعثت کا ہدف عام نہیں، بلکہ ایک خاص ہدف ہے جو اسلامی معاشرے کی تشکیل اور انسانیت کی تربیت و تکمیل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
مجلس عزاء میں حوزہ علمیہ قم کے علمائے عظام، طلاب کرام اور زائرین محترم نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ مجلس عزا کے بعد ماتمی انجمنوں نے نوحہ خوانی و ماتم داری کی اور آخر میں اجتماعی طور پر دعائے تعجیل ظہور امام زمان علیہ السّلام کے ساتھ پروگرام کا اختتام کیا گیا اور شرکاء میں نیاز حسینی تقسیم کی گئی۔