۱۲ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۲ شوال ۱۴۴۵ | May 1, 2024
علامہ امین شہیدی

حوزہ/ امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ نے کہا کہ حجِ ابراہیمی تمام مسلمانوں کو "امتِ واحدہ" بنانے کا بہترین ذریعہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک ہی ہدف کے لئے مسلمانوں کا مِل کر سفر کرنا اس اجتماع کا سب سے بڑا پیغام ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے حج اور عید الاضحی کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ حج کے ایام امت کی تشکیلِ نو کے ایام ہیں۔ اللہ اور رسولؐ کی طرف سے دیے گئے اجتماعات کا تصور دو طرح کا ہے۔ ایک تصور انسان کی ذاتی زندگی اور اس کی روح سے متعلق ہے جب کہ دوسرے تصور کا تعلق معاشرہ سے ہے۔ حج کا اجتماع دوسرے تصور کی بہترین تصویر کشی کرتا ہے، تمام عالمِ اسلام سے لوگ ایک ہی طرح کے لباس، وضع قطع، نعرہ اور عقیدہ کے ساتھ خانہ خدا کی طرف رخ کرتے ہیں اور قربانی بھی ایک ہی جگہ کی جاتی ہے۔ اتحاد، یکجہتی اور یک رنگی حج کی خصوصیات ہیں۔ اجتماع کے اس تصور سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کو کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد ایک ہوجانا چاہیے اور حج میں ان کے لباس و ارکان کے ساتھ نیت و اخلاص میں بھی فرق نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ حجِ ابراہیمی تمام مسلمانوں کو "امتِ واحدہ" بنانے کا بہترین ذریعہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک ہی ہدف کے لئے مسلمانوں کا مِل کر سفر کرنا اس اجتماع کا سب سے بڑا پیغام ہے۔ حج بیت اللہ بہترین موقع ہے کہ جب تمام فرقوں کے پیروکار بلا تفریق ایک ہی لباس میں ملبوس ہو کر خانہ خدا کے گرد طواف کرتے ہیں۔ یہ اِس بات کا مظہر ہے کہ امتیازِ رنگ و بُو دنیاوی ہے، جب کہ اللہ ہمیں ایک دیکھنا چاہتا ہے۔ لبیک اللھم لبیک کے نعرہ میں وحدت کی بُو ہونی چاہیے۔ سال میں ایک بار لاکھوں فرزندانِ اسلام اپنی امتیازی شناخت مٹا کر مکہ میں جمع ہوتے ہیں۔ دراصل یہ ایک تربیتی عمل ہے تاکہ حجاج کرام حج سے واپسی پر اپنے اپنے علاقوں میں قومیت و لسانیت کے فرق کو مٹا کر سب کو توحید کے پرچم تلے جمع کریں۔ یہ حج کا سب سے بڑا اجتماعی پیغام ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو حج کا موقع اللہ کی طرف سے امت مسلمہ کے لیے بہت بڑا انعام ہے اور ہر کلمہ گو کے لیے تربیت گاہ ہے۔ جہاں تک اس کی انفرادی تاثیر کا تعلق ہے تو صرف انسانی جسم کا کعبة اللہ تک پہنچنا کافی نہیں، ظاہری یا جسمانی پاکیزگی کے ساتھ قلبی طہارت، گناہوں سے توبہ اور دل کو کدورتوں سے پاک کرنا حج کی اصل روح ہے ورنہ صرف جسمانی مشقت اٹھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ سنتِ ابراہیمی (قربانی) کے کئی اسرار ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جب اللہ نے ان کے فرزند کی قربانی مانگی تو وہ انہوں نے پیش کردی۔ اس قربانی کا فلسفہ یہی ہے کہ انسان جس سے شدید انسیت رکھتا ہو، اسے خدا کی راہ میں قربان کر دے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .