۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی

حوزہ/ اسلام سلامتی کا مذہب ہے اور اس کا عالمی منشور اور ایجنڈا 'صلحِ جہانی' ہے۔یوں اس کے تمام احکام و قوانین بھی آفاقی و جہانی ہیں۔ اسلام  کے قانون کا نام ' قرآن'  اور اس کے رہبر کا نام 'محمدؐ' ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،"اسلاموفوبیا اور مذہبی شدّت پسندی" کے موضوع پر ایک آنلائن سیشن کا انعقاد کیا گیا۔جس کے مہمان جناب حجۃ الاسلام ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی صاحب تھے، اور سیشن کی میزبانی کے فرائض محترم منظور حسین صاحب نے انجام دئیے۔

سیشن کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا، جس کی سعادت محترم محمد رفیق انجم نے حاصل کی۔ذیل میں سیشن کے مہمان جناب ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی کے خطاب کا خلاصہ قارئین گرامی کی خدمت میں پیش کیاجاتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنی گفتگو کے آغاز میں فرمایا کہ اسلام سلامتی کا مذہب ہے اور اس کا عالمی منشور اور ایجنڈا 'صلحِ جہانی' ہے۔یوں اس کے تمام احکام و قوانین بھی آفاقی و جہانی ہیں۔ اسلام کے قانون کا نام ' قرآن' اور اس کے رہبر کا نام 'محمدؐ' ہے۔اسلام اپنے اندر ہر قوم و قبیلہ اور ہر خطے کے لوگوں کو اپنانے کی ظرفیّت رکھتا ہے لیکن افسوس آج دنیا میں بعض نادان افراد کی نادانی اور جہالت کی وجہ سے اسلام بدنام ہو رہا ہے۔

اس کے بعد اسلام و مسلمین اور پاکستانی معاشرے کو تباہ کرنے والے دو اسباب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان میں سے ایک سبب داخلی ہے اور دوسرا خارجی۔ خارجی اسباب کے حوالے سے پہلے تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے فرمانے لگے کہ پاکستان جغرافیائی، نظریاتی معاشرتی اور عسکری حوالے سے عالم اسلام کا ایک مضبوط ملک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اسلام اور مسلمین کو بدنام کرنے کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ مسلمانوں کے پاس قرآن کی شکل میں ایک مستقل اور ناقابلِ تحریف نظام ہے؛ جس کے اندر سیاسیات، اقتصادیات، معاشریات، اور اجتماع سے لیکر خانوادگی تک کا ایک 'کامل ترین نظام' موجود ہے۔

آپ نے مزید فرمایا آج اگر دنیا کے سامنے اسلامی نظام اپنے حقیقی شکل میں آجائے تو باقی تمام نظام خود بخود مِٹ جائیں گے یہی وجہ ہے کہ دنیا کو اسلامِ سیاسی ناپسند ہے وگرنہ اسلام ِ عبادی تو سب کو قبول ہے۔قرآن مجید کی سورہ نساء آیت ١۴١میں اسلام کے سیاسی چہرے کا اعلان ہورہا ہے کہ کافروں کو کسی صورت مسلمانوں پر غلبہ کے حق نہیں ہے۔غلبہ کا حق فقط اسلام کو حاصل ہے۔پس مسانوں پر کسی کو غلبہ نہیں ہے لہذا مسلمانوں کو ہی سیاسی، علمی، سائنسی، ٹیکنالوجی اور حتیٰ مدیریتِ جہاں میں بھی سب سے آگے ہونا چاہیے۔

عالمی استعماری قوتوں کے مکروہ اقدامات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک کی ایجنسیاں جعلی اور جھوٹے لوگوں کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کے درپے نظر آتی ہیں۔شام، افغانستان ، لیبیا اور دوسرے اسلامی ممالک میں باہمی اختلاف ڈال کر جعلی اور اسلام سے ناآشنا قیادتوں کو سامنے کی کوششوں کے ذریعے سے مسلمانوں میں انتشار پھیلانے کیلیے داعش، القاعدہ جیسی تنظیمیں بنائی گئیں۔حالانکہ دنیا جانتی ہے ان سب تنظیموں کی قیادتیں خود مغربی طاقتوں کی بنائی ہوئی ہیں۔

اس کے بعد پاکستان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ یہی طاقتیں پاکستان پر بھی قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ یہاں خواتیں کو حقوق حاصل نہیں اور مذہبی آزادی نہیں وغیرہ وغیرہ۔

اسلاموفوبیا سے متعلق فرمایا کہ عالم اسلام کو ٹکڑوں میں بانٹنے کیلیے ہی 'اسلاموفوبیا' کو ایجاد کیا جاتا ہے تاکہ دنیا اور خاص طور پر مغربی ممالک کے لوگ اسلام کے قریب ہی نہ آئیں۔

اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مذہبی شدت پسندی کے داخلی اسباب کو یوں بیان فرمایا کہ ہمارے ملک میں کرایہ کے 'مُلّاوں' کو سامنے لایا گیا، جن کے مکروہ اور سیاہ اھداف کی وجہ سے پچھلے تیس چالیس سالوں سے پاکستان میں شیعہ سنی، مسلمان عیسائی اور مسلمان ہندو قتل و غارت گری اور فسادات سامنے آئے۔ اسی طرح غیر مسلموں کا قتل اور مساجد و امام بارگاہ وغیرہ پر حملے، سب کچھ اسی 'ملاازم' کی وجہ سے ہوا۔

اسلام میں ملاازم کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ اسلام 'عالِم' بناتا ہے۔ اسی ملاازم کے ذریعے ہی استعمار نے پاکستان کو محاصرے میں لیا اور اسلام کے نام پر جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے عیاں ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج اس مُلاازم کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں ایک عجیب قسم کی جنونیت نے بھری نسل نے جنم لیا ہے۔

پھر فرمانے لگے کہ مدارس میں قرآن و فہمِ قرآن نام کی کوئی تعلیم دی گئی، اور نہ ہی صحیح سنتِ پیغمبرؐ پڑھائی گئی بلکہ فرقہ واریت، خودکُش بمبار، کافر کہنے والے، اور ایک مجنونیت سے بھرا ہوا خشک قسم کا طبقہ وجود میں لایا گیا۔یہی لوگ پھر گاہے بگاہے دین اور نبی اکرم ؐ کے نام پر اپنی وحشی پن کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔جس کی زندہ مثال حالیہ دنوں کا 'سانحہ سیالکوٹ' ہے۔

راہِ حل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ہم چاہتے یں کہ فسادات ختم ہوں تو ہمیں اِن ملاازم کی پرورش کے راہوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح فرقہ واریت کے نصاب کے بجائے اسلام شناسی کا نصاب پڑھانا ہوگا۔ان شاء اللہ پاکستان کو کافرستان بنانے کی کوشش کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے مقتدر طبقے، عوام اور علماء کرام اِن دشمنوں کو اُن کے منحوس مقاصد میں ناکام بنائیں گے۔

ڈاکٹر یعقوب بشوی صاحب نے حالیہ٣دسمبر کو ہونے والے سانحہ سیالکوٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ سانحہ سیالکوٹ ہمارے چہرے پر ایک طماچہ ہے۔کسی شخص کو اسلام میں انتقام لینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ ایسے معاملات ہمیشہ عدالتوں کے سپرد کیے جاتے ہیں۔

اس کے بعد آپ نے عدالتوں کی کارکردگی سے متعلق فرمایا کہ مجرموں کی سزا میں 'بے جا تاخیر' بھی اس جیسے واقعات کا باعث بنتی ہے۔لہذا ہماری عدالتوں کو بھی فوری انصاف کا مکینزم ایجاد کرنا ہوگا۔ تاکہ لوگ عدالتوں پر اعتماد کریں۔پاکستان میں کتنے شیعہ سنی ناحق مارے گئے ہیں جن کے قاتلوں کو کوئی سزا نہیں سنائی گئی۔ بلکہ کئی مجرموں کو تو باعزت رہا کیا گیا۔یہ ایک المیہ ہے جس پر مقتدر طبقوں کو سوچنا چاہیے ؛ چونکہ یہ چیز ایسی ہے جو پاکستان کو اندر سے دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔

سانحہ سیالکوٹ میں ایک مسافر غیر ملکی کو مارنے کے بعد آگ لگائی گئی جبکہ اسلام نے جنگی حالات میں بھی مدمقابل متحارب گروہ کے ساتھ بھی اس قسم کے غیرشائستہ امور سے منع کیا ہے۔ بدقسمتی سے ہم جذبات سے مملو اور عقل سے عاری لوگ ہیں۔جبکہ قرآن میں سوچ سمجھ اور عقل سے کام نہ کرنے والوں کو 'شٙرّالدّواب' کہا گیا ہے۔ اس حوالے سے حضور نبی اکرمؐ سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا بدترین لوگ وہ 'علماء' ہیں جو 'فساد' پھیلاتے ہیں۔قیامت والے روز بھی سورہ ملک کی آیت ١٠ کی رو سے حق بات نہ سننے اور عقل سے کام نہ لینے والے جہنم میں کفِ افسوس مل رہے ہوں گے کہ کاش کچھ ہوش کے ناخن لیتے اور اپنی عقل کو استعمال میں لاتے! پس یہ لوگ جہنم کے ایندھن ہوں گے چونکہ اسلام عقل کا نام ہے جذبات کا نہِیں۔ہمارے نبی عقلِ کُل ہیں اور مسلمان عاقل طبقہ ہے۔ اور شیعہ سنی روایات میں حقیقی علماء کو انبیاء کا وارث کہا گیا ہے۔ آج بھی عقل سے کام لیکر پاکستان اور اسلام کو اِس مجنون 'مُلاازم'سے بچایا جاسکتا ہے۔

آخر میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ہمیشہ مُلّا قوم کو بانٹتا نظر آتا ہے جبکہ قرآن واعتصموا بحبل اللہ ۔۔۔ کا پیغام دیتا ہے۔ دوسرے مقام پر قرآن ان لوگوں کو 'خیرِ امت' کا خطاب دے رہا ہے جو امر بہ معروف اور نہی از منکر کرتے ہیں اور معاشرے میں نیک کاموں کو پھیلاتے اور برے کاموں سے روکتے ہیں۔قرآن تو ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل شمار کرتا ہے۔ ایک بےگناہ کا قتل ایک پورے معاشرے اور کلِ انسانیت کا قتل ہے۔ایسے میں جن لوگوں نے اِس 'مجنونیت سے مملو مُلااِزم' کو پروان چڑھایا ہے وہ سب انسانیت کے اس قتل جیسے قبیح فعل میں میں برابر کے شریک ہیں۔

آخر میں سیشن کے میزبان جناب منظور حسین نے شرکاء محفل، اور خاص طور پر محترم ڈاکٹر محمد یعقوب صاحب کا شکریہ ادا کیا اور یوں یہ سیشن اپنے اختتام کو پہنچا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .