۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 366463
10 مارچ 2021 - 21:51
مولانا تقی عباس رضوی

حوزہ/ اگر ہماری سجائی گئی محفلوں سے معرفت خدا ،عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور محبت اہلِ بیت علیہم السلام  میں درخشندگی، نفس کو پاکیزگی اور ہمارے آئینہ ایماں کو جلا نہیں ملتی ہے تو سمجھئے کے ہم ذہنی مریض ہیں اپنی زندگی کے قیمتی وقت کوضائع کررہے ہیں۔

تحریر: مولانا تقی عباس رضوی 

سچ بیاں کرنا ہے لب کھولے گا کون  
تم ہی چپ بیٹھے تو پھر بولے گا کون
حوزہ نیوز ایجنسی عہدِ حاضر میں مذہبی عقیدت و احترام سے منایا جانے والا جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، جشن مولود کعبہ، یا دیگر جشن اب مختلف خرافات وبرائیوں کی آماجگاہ بنتا جا رہاہے۔
کبھی ہماری محفلیں اورمجلسیں تطہیر نفس، تزکیہ باطن، تعمیرسیرت اور اصلاح معاشرہ کے ساتھ ساتھ  باہمی اتحاد و یکجہتی  کا ذریعہ تھیں۔ لیکن جب سے اس میں تاجر پیشہ لوگوں کی شمولیت ہوئی ہے یہ بجائے ثواب کےعذاب کاباعث نیز افتراق و انتشار کا سبب بنتی جارہی ہیں۔
رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آل رسول علیہم السلام  کی پاکیزہ بارگاہ میں اب ہر ایرا غیرا نتھو خیرا مال و دولت اور شہرت طلبی کی خاطر اپنی  گلوکاری ،ایکٹنگ، خطابت، مولویت، اور مدح و ثنا کا شہرہ آفاق خراج عقیدت پیش  کرکے اپنی دنیا آباد کرنا چاہتا ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور جشن مولود کعبہ کی ناچ گانے ہلڑہنگاموں کی ویڈیوز اورفوٹوز کےملاحظہ کےبعدانسان یہ سوچنے پرمجبورہے کہ کدھرجارہی ہےہماری قوم اورکیا کررہےہیں لوگوں کو شعورو آگہی کا درس دینے اورادب و اخلاق سکھانے والے رہنمائے خوش خصال!
جشن ومیلادکےنام پرڈھول،باجے،ناچ وٹھمکے، و دیگر خرافات اوربرائیاں ہماری پوری قوم کےلئے لمحہ فکریہ ہے! 
جشن وسرود اگر اظہار عقیدت و محبت ہے تو پھر محبوب کے مقام و مرتبہ اور اس کی پسند و ناپسند کا بھی پاس پاس و لحاظ رکھنا ضروری ہے عشق و محبت کا مطلب  یہی ہے کہ اپنی خواہشات اور اپنے وجود کو بھلا کر اپنے محبوب کے گلشن ہستی پر وار دینا اور اس کی راہ محبت و اطاعت میں خود کو مٹا دینا ہے۔ مگر یہاں معاملہ کچھ برعکس ہے۔ لوگ اپنے محبوب کو محبوب مانتے ہیں اس کی توصیف و تعریف کرتے ہیں اس کے حسن و جمال کی قسمیں کھاتے ہیں اسے دیکھنا اور سننا عبادت سمجھتے تو ہیں پر اس کے پیش کردہ دستور حیات و اقوال کو نہیں مانتے۔ اپنے خواہشات نفسانی کی تکمیل کے لئے رسولؐ و آل رسول علیہم السلام کے مقدس و بابرکت نام پر ہر ناجائز کو جائز قرار دے کر اپنے دینی، شرعی اوراخلاقی اقدارکو بالکل پیوندِ خاک کرتے جا رہے ہیں! البتہ اگر موجودہ قوم کے دینی و ثقافتی مسائل و حالات پر سنجیدگی سے غور و فکر کیا جائے تو بات روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گی کہ یہ ساری تبدیلیاں اور یہ ساری باتیں ایک منظم منصوبہ بندی کےتحت وجود میں آرہی ہیں۔
قرآن و اہلبیتؑ  کی آفاقی دعوت تبلیغ سے خائف طاغوتی طاقتیں شیعیت کےخلاف عرصہ درازسےشیطانی چالیں چل رہی ہیں اور اپنےنحس وجود پر دین وعقیدت کامقدس چولاڈال کرہماری جڑیں کھوکھلی کرنےمیں مصروف عمل ہیں اورہماری قوم کے کچھ سادہ لوح افراد جانے انجانے میں ان کی خدمت کرکےشیعیت کے خلاف ان کی گھناؤنی سازشوں کو پروان بھی چڑھا رہے ہیں!
اگر ایسا نہیں ہے تو پھر سچی محبت کا اظہار محافل و مجالس وغیرہ میں ہلڑ ہنگامہ سے نہیں بلکہ ممدوح و محبوب کی کامل اتباع اور اطاعت کرنے سے ہوتا ہے۔اور یہی وہ میزان ہے جہاں کہنے والے کہہ کر تمام توجیہات کی نفی کردی ہے  :
لَوْکَانَ حُبُّکَ صَادِقًا لَاَطَعْتَه
اِنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ يُحِبُّ مُطِيْعٌ
اگر تمہارے اندر محبوب کی محبت کا سچا جذبہ موجود ہے تو پھر اس کی اطاعت کرو گے اس لئے کہ محبت کرنے والا اپنے محبوب کا تابع فرمان ہوتا ہے۔
یادرہے!رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وآل رسول علیہم السلام کےلئےسجائی گئی حمد،نعت،منقبت اور قصائدکی پاکیزہ محفلیں درسِ آگہی کا ایک ذریعہ ہیں۔ وہ جشن، جشن نہیں وہ محفل، محفل نہیں جس میں اہل بیت کی تعلیمات نہ ہو۔ جس میں سیرت اہل بیت کی ترویج نہ ہو،جس میں رسول و آل رسول علیہم السلام کی حیات طیبہ کے جمال و جلال آفریں روشنی اور ضیاء بار کرنیں نہ ہو۔
ہماری مجالس و محافل کا واضح مقصد متعین ہونا اور اس میں غیر شرعی اور غیر اخلاقی خرافات کا سد باب ضروری ہے۔ 
 اس مقدس، بابرکت اور پاکیزہ بزم کےلئے شعراء کرام ایسے معارف ومطالب کوشعری قالب میں ڈھالیں جوانسان کےدل کونرم، سوچ کو پاکیزہ، ایمان کوتقویت اورروح کومزین کرے۔ایسےمطالب پرمشتمل اشعارہرگز پیش نہ کئےجائیں جس سےلوگ بےدینی،شرک اورغلو جیسی ناپاک بیماریوں میں مبتلا ہوں۔
اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں محفل ومیلاد کا انعقاد کرنے والےاس بات کوملحوظ خاطررکھیں کہ خاندان عصمت و طہارت کےلئے ایسی پاکیزہ بزم سجائیں جو چیخ و پکار،ہلڑ،ہنگاموں کے بجائے اسلامی تعلیمات اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سلم  و آل رسول علیہم السلام کی سیرت طیبہ کے فروغ باہمی احترام،اعتماد ،تعاون، روابط اوراتحاد ویکجہتی کاذریعہ بنے اورمحفل میں شریک ہونےوالے افرادکےروحانی وقلبی سکون،آپسی محبت وبھائی چارہ کاباعث اورہمارےایمان کوحرارت بخشنے والی ہوں۔

اگرہماری سجائی گئی محفلوں سے معرفت خدا ،عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور محبت اہلِ بیت علیہم السلام  میں درخشندگی، نفس کو پاکیزگی اور ہمارے آئینہ ایماں کو جلا نہیں ملتی ہے تو سمجھئے کے ہم ذہنی مریض ہیں اپنی زندگی کے قیمتی وقت کوضائع کررہے ہیں۔ نہایت قابل افسوس ہے یہ بات کہ جو نبی و امام عرب کے غیر شرعی (رقص وسرود اورموسیقی و غناجیسے دیگر لھو و لعب) کی فرسودہ تہذیب کا سختی سے بائیکاٹ کیا تھا آج اس نبی اور امام کے چاہنے والے اسی تہذیب و ثقافت کے فریفتہ و دلدادہ نظر آرہے ہیں۔جو کفر و نفاق کا سبب ہے۔جیسا کہ سورہ لقمان میں اللہ تعالی نے ارشادفرمایا:وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ.
نیز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے فرمایا: الغناء ینبت النفاق فی القلب۔
اگر محافل ومجالس قصیدہ ونعت خوانی کوعبادت سمجھتےہیں تو اسے عبادت کی طرح تطہیر نفس اور معرفت اہل بیت علیہم السلام کاذریعہ سمجھیں۔اور ایسے افراد سے ہوشیاررہیں جوعلما،خطبا، اور شعرا کے بھیس میں شیعہ مخالف عالمی قوتوں کے ناپاک خواب کو شرمندہ تعبیر کر تے ہوئے نئی نسل کو فکری اور عقیدیتی اعتبار سے مفلوج اور اسلامی تعلیمات سے دور کررہے ہیں ،نیزاس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں کہ اہل بیت علیہم السلام سے نسبت،تعلق اور محبت کی  تجارت جہنم میں داخلہ کا سبب ہے۔لہذا جہنم کی دہکتی ہوئی آگ سے خود کو اور اپنی نئی نسلوں کو بچائیے اور اپنے نونہالوں کو شاعر، ذاکر،خطیب،نعت ومنقبت اور نوحہ خواں بنانے سے پہلے انہیں اطاعت الہی،معرفت رسولؐ اور اتباع اہل بیتؑ کا درس دیں تاکہ وہ دنیاو آخرت کی عظیم کامیابیاں حاصل کرسکیں۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .