۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
News ID: 392855
25 اگست 2023 - 13:38
مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ/ جس طرح بغیر علم کے دین پہنچانا خطرناک ہے اسی طرح بغیر عمل کے بھی خطرناک ہے۔ جیسا کہ روایات میں ہے کہ اپنی زبان سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے تبلیغ کرو۔ ورنہ اس کی مثال اس نا بینا جیسی ہو گی جس کے ہاتھ میں چراغ ہو اور وہ دوسروں کے لئے تو راستہ روشن کرتا ہے لیکن خود اس روشنی سے محروم ہوتا ہے۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | باب الحوائج امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا: تَفَقَّهوا فی دینِ الله فإنَّ الفقه مفتاحُ البَصیرة،وتَمامُ العِبادة و السّببُ إلی المنازل الرفیعة و الرُّتبِ الجَلیلة فی الدین و الدنیا،و فَضلُ الفَقیه علی العابد كَفَضلِ الشمسِ علی الكواكب و مَن لَم یَتَفَقَّه فی دینهِ لَم یَرضَ اللهُ لهُ عملاً (تحف العقول، صفحہ 410)
خدا کے دین میں فہم عمیق کی جستجو کرو (غور سے سیکھو اور سمجھو)، کیوں کہ یہ فہم عمیق بصیرت کی کنجی، عبادت کا کمال، بلند منازل تک رسائی اور دین و دنیا میں عظیم مرتبہ تک پہنچنے کا سبب ہے۔ فقیہ کو عبادت گذار پر وہی فضیلت حاصل ہے جو سورج کو ستاروں پر فضیلت حاصل ہے۔ جو دین میں فہم عمیق (سیکھنے اور سمجھنے) کی کوشش نہیں کرتا اللہ اس کے کسی بھی عمل سے راضی نہیں ہوتا۔

مولا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی اس حدیث سے تفقہ یعنی دین سیکھنے اور سمجھنے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ دین فہمی کتنی اہم ہے۔ جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: تَفَقَّهُوا فِي دِينِ اَللَّهِ وَ لاَ تَكُونُوا أَعْرَاباً فَإِنَّهُ مَنْ لَمْ يَتَفَقَّهْ فِي دِينِ اَللَّهِ لَمْ يَنْظُرِ اَللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ وَ لَمْ يُزَكِّ لَهُ عَمَلاً (الکافی، جلد 1، صفحہ 31 )
دین کو سمجھو، بدو عرب نہ بنو، کیوں کہ جو اللہ کے دین کو نہیں سیکھتا، نہیں سمجھتا قیامت کے دن اللہ اس کی جانب نظر نہیں کرے گا اور اس کے کسی عمل سے راضی نہیں ہوگا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ہی فرمایا: تَفَقَّهُوا فِي اَلدِّينِ فَإِنَّهُ مَنْ لَمْ يَتَفَقَّهْ مِنْكُمْ فِي اَلدِّينِ فَهُوَ أَعْرَابِيٌّ إِنَّ اَللَّهَ يَقُولُ فِي كِتَابِهِ : «لِيَتَفَقَّهُوا فِي اَلدِّينِ وَ لِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذٰا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ » (الکافی، جلد 1، صفحہ31)
دین خدا کو اچھی طرح سیکھو اور سمجھو کیوں کہ تم میں سے جو بھی دین کو اچھی طرح نہیں سمجھے گا وہ بدو عرب اور نا سمجھ ہو گا، بے شک اللہ نے اپنی کتاب میں فرمایا: تاکہ دین کا علم حاصل کریں اور پھر جب اپنی قوم کی طرف پلٹ کر آئیں تو انہیں عذاب الٰہی سے ڈرائیں کہ شاید وہ اسی طرح ڈرنے لگیں۔ (سورہ توبہ، آیت 122)

مذکورہ احادیث سے واضح ہو گیا کہ دین فہمی کتنی اہم ہے اور اس کے بغیر نہ شعور و بصیرت نصیب ہو گی اور نہ ہی عبادت کو کمال حاصل ہو سکتا ہے، نہ ہی رفیع منازل تک رسائی ممکن ہے اور نہ دین و دنیا میں عظیم مقام مل سکتا ہے۔ اسی طرح جو دین نہیں سیکھتا ، نہیں سمجھتا وہ بدو عرب ہے یعنی وہ بستیوں کا نہیں بلکہ صحرا و بیابان کا مکین ہے اور تہذیب و ثقافت سے محروم ہے۔

خالق کائنات چاہتا ہے کہ اس کے بندے تہذیب و ثقافت سے محروم نہ ہوں ، لہذا ارشاد فرمایا کہ ہر قوم میں کچھ لوگ دین سیکھیں اور سمجھیں، جب دین سیکھ لیں تو صرف خود دیندار اور مہذب نہ رہیں بلکہ دوسروں کو بھی دین سکھائیں لہذا اپنی قوم کی جانب واپس آئیں اور اپنی قوم میں رسولوں اور نبیوں والا کام انجام دیں یعنی انذار کریں ، انہیں عذاب الہی سے ڈرائیں ۔ خود ہمارے حضور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ نے منذر کے لقب سے ملقب فرمایا ۔
وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۗ إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ ۖ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (سورہ رعد، آیت ۷)
اور یہ کافر کہتے ہیں کہ ان کے اوپر کوئی نشانی (ہماری مطلوبہ)کیوں نہیں نازل ہوتی تو آپ کہہ دیجئے کہ میں صرف ڈرانے والا ہوں اور ہر قوم کے لئے ایک ہادی اور رہبر ہے۔

مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا کہ منذر یعنی ڈرانے والے سے مراد حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور ہادی سے مراد آپؐ کے حقیقی جانشین امیرالمومنین امام علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں ۔

بہر حال جب ایک انسان دین کو سیکھ لے، سمجھ لے اور اپنی قوم کی جانب پلٹ کر آئے اور اپنے الہی اور قرآنی فریضہ انذار پر عمل کرے گا تو اگر لوگ (عذاب الہی سے) ڈرنے لگے تو سماج میں امن و امان قائم ہو گا ، ظلم و ستم کم ہو جائے گا بلکہ ختم ہو جائے گا، لوگ ایک دوسرے سے خوف زدہ نہیں ہوں گے، خود کو محفوظ سمجھیں گے، کسی کا حق نہیں مارا جائے گا۔ سماج میں انسانی اقدار کو جلا ملے گی ۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ یہاں مولا نے لفظ دین بطور مطلق فرمایا ہے جس میں عقائد، احکام اور اخلاق سب شامل ہیں۔

لیکن اس انذار و تبلیغ کے لئے جو چیز ضروری ہے وہ تفقہ ہے ، یعنی انسان پہلے خود دین سیکھے، پہلے خود دین کو سمجھے، پہلے خود عمل کرے ، ورنہ بغیر علم و عمل کی تبلیغ سے اصلاح کم فساد زیادہ ہو گا بلکہ کبھی کبھی فساد ہی فساد ہو گا اور سماج میں بے چینیاں ہی پھیلیں گی۔
ایک مبلغ جب دین شناس اور دین فہم ہو گا تو وہ حلال محمدی کو حلال اور حرام محمدی کو حرام بتائے گا ، شریعت کےاحکام واجب ، مستحب، حرام، مکروہ اور مباح کی رعایت کرے گا۔ بدعتوں اور سماج میں پھیلی انسانیت کے لئے ناسور رسومات کے خلاف آواز اٹھائے گا لیکن اگر خدا نخواستہ دین کا علم ہی نہ ہوا تو غلط مسائل بیان کرے گا اور آخر میں شدت پسندی اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے گا جس سے سماج میں فساد پیدا ہو گا اور بے چینیاں پھیلیں گی۔

لیکن جب عالم ہو گا تو قرآن کریم کی صحیح ترجمانی کرے گا، صحیح روایات و احادیث کو بیان کرے گا، مراجع کرام کے فتاویٰ کو صحیح طریقہ سے پیش کرے گا۔ ممکن ہے کچھ نادان اور ہٹ دھرم اسکی مخالفت کریں لیکن جب وہ دلیل سے بات کرے گا تو ہر با شعور اس کی بات کو قبول کرے گا۔

جس طرح بغیر علم کے دین پہنچانا خطرناک ہے اسی طرح بغیر عمل کے بھی خطرناک ہے۔ جیسا کہ روایات میں ہے کہ اپنی زبان سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے تبلیغ کرو۔ ورنہ اس کی مثال اس نا بینا جیسی ہو گی جس کے ہاتھ میں چراغ ہو اور وہ دوسروں کے لئے تو راستہ روشن کرتا ہے لیکن خود اس روشنی سے محروم ہوتا ہے۔ خدا ہمیں دین سیکھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .