۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا ظہور مہدی مولائی

حوزہ/ اس ماہ مبارک میں قرآن کریم کی عظمت و اھمیت کو ھم کریم اھلبیت امام مجتبیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی مبارک نگاہ سے دیکھنے اور اس سے معرفت اور پیغام عمل حاصل کرنے کی سعی و کوشش کریں۔

تحریر: مولانا ظہور مہدی مولائی،نزیل قم مقدس ایران

حوزہ نیوز ایجنسیماہ رمضان کی ایک نہایت عظیم الشان خصوصیت یہ بھی ھے کہ اس میں قرآن صامت اور قرآن ناطق دونوں نازل ھوئے ہیں اورجس طرح یہ مہینہ ماہ قرآن صامت ھے ، اسی طرح سے ماہ قرآن ناطق بھی ھے ، البتہ اس میں نازل ھونے والے قرآن ناطق سے ھماری مراد"کریم اھل بیت ، سبط اکبر حضرت امام حسن مجبتیٰ علیہ الصلوۃ والسلام" ہیں کہ جن کی ولادت باسعادت ھجرت کے تیسرے سال اس مہینہ کی ۱۵ تاریخ میں واقع ھوئی ہے۔
اس لئے نہایت شائستہ ھے کہ اس ماہ مبارک میں قرآن کریم کی عظمت و اھمیت کو ھم کریم اھلبیت امام مجتبیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی مبارک نگاہ سے دیکھنے اور اس سے معرفت اور پیغام عمل حاصل کرنے کی سعی و کوشش کریں۔
جب ھم سرکارامام مجتبیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے زاویہ نظر سے قرآن مجید کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کی عظمت و قداست مختلف و متعدد عناوین سے ھماری نگاہوں کے سامنے آتی ھے ، جس کے چند نمونے نہایت اختصار کے ساتھ یہاں درج کئے جارہے ہیں :
۱۔ عدل و قرین اھل بیت :
سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی متواتر و معتبر "حدیث ثقلین" نے قرآن و اھل بیت کو ایک دوسرے کاعدیل و قرین قرار دیا ہے، اسی تناظر میں امام مجتبی علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اپنے ایک بیان میں اھل بیت کو " احدالثقلین " اور قرآن کریم کو " ثانی الثقلین سے تعبیر فرمایا ھے، چنانچہ آپ کا ارشاد مبارک ہے :
احدالثقلین الّذین خلّفهما رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم فی امّته والثانی کتاب الله فیه تفصیل کل شی ء "لایأتیه الباطل من بین یدیه و لامن خلفه"(بحارالانوار، ج ۴۳ ، ص ۳۵۹)
یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جن دو گرانقدر چیزوں کو اپنی امت کے درمیان چھوڑا ہے، ان میں ایک ہم اھل بیت ہیں اور دوسری اللہ کی کتاب ہے کہ جس میں ہر شے کی تفصیل موجود ھے اور باطل نہ اس کے آگے سے آسکتا اور نہ پیچھے سے۔
پس جسے راہ حق کی طرف ہدایت اور راہ باطل سے دوری و جدائی درکار ہے ،اسے ان دونوں سے وابستہ ہونا ضروری ہے چونکہ ان دونوں کے دائرہ وجود میں کہیں سے بھی باطل نہیں ہوسکتا ، اس لئے یہ دونوں بمعنائے واقعی " ہادیان حق " ہیں۔
۲۔ حقیقی اہل قرآن :
امت مسلمہ کو اس امر کی طرف بہت توجہ دینی چاہیئے کہ اہل قرآن بننے کے لئے فقط قرآن کی قرائت ، تلاوت اور اسے حفظ کرنے اور کرانے اہتمام کافی نہیں ھے بلکہ ضروری ھےکہ اس کے دستورات و تعلیمات کو جامہ عمل پہنا جائے ، ورنہ صرف قرائت ، تلاوت اور حفظ کے اہتمام سےھمیں قرآن کا قرب نصیب نہیں ہوسکتا۔
جیساکہ حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد گرامی سے یہی اندازہ ھوتا ھے:
و إنّ احقّ النّاس بالقرآن من عمل به و إن لم یحفظه و أبعدهم منه من لم یعمل به و إن کان یقرأه( ارشاد القلوب ، ص ۷۹)
یعنی لوگوں میں سب سے زیادہ قرآن کی بہ نسبت سزاوار و نزدیک وہ ھے جو اس پر عمل کرے ، اگرچہ اس نے اسے حفظ نہ کیا ہو اور لوگوں میں سب سے زیادہ قرآن سے دوروہ ھے جو اس پر عمل نہ کرے اگرچہ اس کی قرائت و تلاوت کرتاہو۔
۳۔ قائد جنت اور سائق جہنم :
ماہ قرآن میں امت قرآن کو خبردار ھونا چاھیئے کہ قرآن حکیم سےصرف ظاھری دلچسپی اور نمائشی وابستگی اسے جنت کی لیاقت اور جہنم سے نجات کا پروانہ عطا نہیں کراسکتی ، بلکہ اس سعادت سے ہمکنار ھونے کے لئے ضروری ھے وہ قرآن مجید کے جملہ حلال و حرام پر مکمل عمل کرے اور اس کے متشابہات پر کامل ایمان و یقین رکھے نیز اس کے حدود و احکام کی باقاعدہ پاسداری کرے۔
جیساکہ سرکارکریم اھلبیت علیہ السلام کے اس ارشاد سے بخوبی استفادہ ہوتا ھے :
إنّ هذا القرآن یجی ء یوم القیامة قائداً و سائقاً یقود قوماً الی الجنّة أحلّوا حلاله و حرّموا حرامه و آمنوا بمتشابهه و یسوق قوماً الی النّار ضیّعوا حدوده و احکامه و استحلّوا محارمه۔(کشف الغمہ ، ج ۱، ص ۵۷۳)
بے شک یہ قرآن روز قیامت قائد و سائق بن کر آئے گا ، اس قوم کی جنت کی طرف راہنمائی کرے گا جس نے اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھا اور قرار دیا ہوگا اور اس کے متشابہات پر یقین و ایمان رکھا ھوگا اور اس قوم کو جہنم کی طرف کھینچ کر لے جائے گا ، جس نے اس کے حدود و احکام کو ضائع کیا ھوگا اور اس کے محرمات کو حلال سمجھا ھوگا۔
۴۔ تلاوت تفکر، تدبر اور فہم کے ھمراہ:
افسوس کا مقام ھے کہ ھمارے ھند و پاک کے مسلمان سماج میں سارا زور فقط قرآن کے پڑھنے پڑھانے اورحفظ کرنےاور کرانے پردیاجاتا ھے لیکن اس کے سمجھنے یا سمجھانےاور اس پر عمل کرنے یا کرانے پریاتو زور دیا ہی نہیں جاتا یا بہت کم دیا جاتا ھے ، بالخصوص ماہ رمضان میں ہر ایک کو قرآن ختم کرنے کی فکر تو بہت رہتی ھے لیکن اکثرکو اسے سمجھنے یا اس پر عمل کرنے کی کوئی فکر نہیں رھتی!!!
جب کہ قرآن اپنی قرائت و تلاوت کی تاکید سے کہیں زیاد اپنی آیتوں کو سمجھنے،ان میں غور و فکر کرنے اور اپنے احکام و دستورات کو جامہ عمل پہنانےکی تاکیدکرتا ہے۔
بقول امام مجتبیٰ علیہ الصلوۃ والسلام :
"ان ھذالقرآن فیہ مصابیح النوروشفاء الصدور فلیجل جال بضوئہ۔۔" ( بحار الانوار، ج ۹۲ ، ص ۳۲)۔
بلاشبہ اس قرآن میں نورو روشنی کے چراغ ہیں اور سینوں کی شفا و صحت ہے، پس سالک ( چلنے والے ) کو اس کی روشنی میں راستہ طے کرنا چاہیئے۔
وا قعاًتاسف ھے کہ قرآن کی قرائت و تلاوت اور اس کے حفظ کے وسیع و عظیم اہتمامات کے باوجود ہم ابھی تک زندگی کا سفر قرآن کی روشنی میں طے کرنےکا کوئی خاطرخواہ اہتمام نہیں کرسکے ہیں۔
آخرکلام میں حسن ختام کے طور پر رب قرآن سے بطفیل عترت طاہرین علیہم السلام دعا گو ہوں کہ اس ماہ نزول قرآن میں ھم سب کو قرآن مجید کو سمجھنے ، سمجھانے ، اس پر عمل کرنے اور کرانے اور اس کی لازوال روشنی میں زندگی کا سفر طے کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .