تحریر: مولانا ظہور مہدی القمی، حوزہ علمیہ قم۔
حوزہ نیوز ایجنسی | حج بیت اللہ کے عظیم فریضہ اور شرف سے مشرف ہونے والے بندگان خدا کی خدمت میں "حج کا فلسفہ اور پیغام" کے عنوان سے ایک دینی و معنوی سوغات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
امید ہے کہ وہ اس سوغات کے ذریعہ حج سے متعلق اپنی معرفت میں اضافہ کے ھمراہ ان شاءاللہ حج بیت اللہ کی عظیم سعادت سے سرفراز ھونگے۔
حج کا معنیٰ و مفہوم :
1- حج کے لغوی معنی ارداہ کے ھیں (1) اور ظاھر ھے کہ ارادہ کے لئے متعلق کا ھونا ضروری ھے یعنی حج کا مطلب ھے ارادہ !! تو سوال یہ ھے کس کا ارادہ ؟
جواب : اللہ کا ارادہ ، اس کی رضا و خوشنودی کا ارادہ ، اس کی طاعت و عبادت کا ارادہ ، اور اس کی قربت و نزدیکی کا ارادہ۔
2- بلاشبہ یہ ارادہ بڑا عظیم ارادہ ھے اور یہ عظیم اس لئے ھے کہ خدا وند عظیم سے متعلق ھے۔
انسان جب یہ ارادہ کرتا ھے تو اپنا ملک ، اپنی سرزمین ، اپنا وطن ، اپنی جائیداد ، اپنا گھر ، اپنا کاروبار ، اپناخاندان اور اپنے اقارب و احباب سب کو چھوڑدیتا ھے۔
اس کا مطلب یہ ھے کہ حج اپنے نام ھی سے ھمیں یہ پیغام دیتا ھے کہ دیکھو اگر تم چاھو اور ارادہ کرلو تو اللہ تعالی کی خاطر سب کچھ چھوڑ سکتے ھو۔
3- گویا حج " اللہ اکبر " کے مفھوم کو مجسم کرکے ھمارے سامنے پیش کرتا ھے ، مسلمان قدم قدم پہ " اللہ اکبر" کا نعرہ لگاتا ھے ، دن میں پچاسوں مرتبہ اس کلمہ کی تکرار کرتا ھے۔
اذان میں " اللہ اکبر" کہتا ھے ، اقامت میں " اللہ اکبر " کہتا ھے ، ھرنماز میں دسیوں مرتبہ " اللہ اکبر " کہتا ھے۔
لیکن اسے باقاعدہ مجسم کرکے اس وقت دکھاتا ھے جب حج بیت اللہ کا ارادہ کرتا اور اسے بجالاتا ھے۔
4- وہ اپنا ملک چھوڑ کے ثبوت دیتا ھے کہ ملک پست ، حقیر اور چھوٹا ھے اور اللہ ، اکبر ھے۔
جائیداد و کاروبار چھوڑ کے ثبوت دیتا ھے کہ یہ پست و حقیر ھیں اور اللہ ، اکبر ھے۔
غرضکہ سارے روابط و تعلقات کو چھوڑ کر اللہ کا بندہ عزم حج کرکے ثبوت دیتا ھےکہ ھر تعلق و رابطہ چھوٹا ھے اور اللہ عز وجل سے رابطہ و تعلق اعلی ، اعظم ، اھم اور اکبر ھے۔
5- یاد رکھئے حج کا پیغام ، اخلاص و عبودیت کا پیغام ھے۔
حج کا پیغام ، خالص بندگی کا پیغام ھے۔
حج کے اندر بندگی بھی ھے اور سلیقہ بندگی بھی ھے۔
حج کے اندر ، اخلاص بندگی بھی ھے اور اظہار بندگی بھی.
6- شائستہ ھے کہ حج کرنے والا معرفت کے ساتھ حج کرے چونکہ امام صادق علیہ السلام کا ارشاد مبارک ھے لا یقبَلُ اللہ عملا الا بمعرفۃ۔(2)
اللہ معرفت کے بغیر ، کوئی عمل قبول نہیں فرماتا۔
لہذاحاجی کو چاھیئے کہ حج پہ جانے سے پہلے حج کے فلسفہ اور اس کے پیغامات پر ضرور توجہ دے تاکہ حج کا فریضہ ، معرفت کے ساتھ انجام پاکر اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کرسکے۔
7- ھم یہ بیان کرچکے ھیں کہ حج کے معنی ارادہ کے ھیں اور ارادہ انسان کی شخصیت کی تعمیر و تخریب دونوں میں خشت اول کی حیثیت رکھتا ھے۔
شاید اسی لئے کہا گیا ھے " الاعمال بالنیات " (3) تمام اعمال و افعال کا دار ومدار نیت اور ارداہ پر ھے۔
ارادہ انسان کو قوت پرواز عطا کرتا ھے ، جتنا بلند ارادہ ھوگا اتنی ھی بلند پرواز ھوگی۔
جتنا نیک ارادہ ھوگا اتنا ھی نیک عمل ھوگا۔
جنتا مستحکم ارادہ ھوگا اتنا ھی مستحکم اقدام ھوگا۔
سرکار امیر المومنین علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا خوب فرمایا ھے :
"المرء یطیر بھمتہ " (4)
انسان اپنے ھمت و ارادہ کی بیس پر اڑتا اور پرواز کرتا ھے۔
مولائے کائنات علیہ الصلوۃ والسلام ھی نے ایک دوسری حدیث میں یوں ارشاد فرمایا ھے :
" انَّ اللهَ یُحِبُّ أَنْ تَكونَ نِیّةُ الانسانِ جَمیلةً" (5)
بیشک اللہ دوست رکھتا ھے کہ انسان کی نیت اور اس کا ارادہ خوبصورت ھو۔
پس خوبصورتی اور بدصورتی کا دار و مدار ظاھری شکل و صورت پہ نہیں ھے بلکہ نیت و ارادہ پر ھے۔
ارادہ چھوٹا بھی ھوتا ھے اور بہت چھوٹا بھی۔
ارادہ بڑا بھی ھوتا ھے اور بہت بڑا بھی ، البتہ بہت بڑا بلکہ سب سے بڑا ارادہ وہ ھوتا ھے جو اللہ اکبر کے لئے ھو تا ھے۔
اخلاص و للہیت :
ہم بشکل حج جو ارادہ کرتے ہیں :
اسے فقط اور فقط اللہ کے لئے ھونا چاھیئے ، اس ارادہ کو فقط اور فقط الہی ، دینی اور ایمانی خوشبو سے معطر ھونا چاھیئے۔
اس اراداہ میں ذرہ برابر بھی کسی اور کی شمولیت نہیں ھونی چاھیئے۔
ہمارے ارادہ میں کلمہ توحید" لا الہ الا اللہ " کو مجسم ھونا چاھیئے۔
ہمارے اراداہ کو " قل ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین " (6) کی تصویر ھونا چاھیئے۔
ہمارے اراادہ کو " انا للہ وانا الیہ راجعون " (7) کا آئینہ ھونا چاھیئے ۔
ایسا نہ ھو کہ اس عظیم ارادہ کو ریاکاری و شھرت اور حاجی کہلانے کی ھوس ، حقیر و بے مقدار بنا دے۔
حج اور جج :
ہر حاجی کو یاد رکھنا چاھیئے کہ یہ حج قیامت کے دن اس کے لئے " جج " بھی بن سکتا ھے۔
اگر یہ حج خالص اللہ کے لئے ھوگا تو جج بن کر آپ کے حق میں فیصلہ دے گا۔
لیکن اگر اللہ کے بجائے سیر و تفریح ، تبدیلئ آب وھوا ، ریا و شھرت یا زندگی بھر کے لئے حاجی کا مبارک لقب حاصل کرنے کی ھوس میں ھوگا تو یہ " جج" بن کر آپ کے خلاف گواھی دے گا۔
چونکہ قرآن حکیم کی صراحت موجود ھے قیامت کے دن زبانوں کو سیل مہر کردیا جائے۔
اور روایات کے مطابق تمام اچھے برے اعمال مجسم ھو کے سامنے آئیں گے۔
حج، مجموعہ عبادات
حج کا امتیاز اور حج کی بڑی خصوصیت یہ ھے کہ یہ بظاھر دوحرفوں پر مشتمل ایک عبادت ھے لیکن حقیقتا اس دو حرفی عبادت کے اندر بہت سی عظیم عبادتیں پائی جاتی ھیں مثلا :
۱- ھجرت اس میں پائی جاتی ھے۔
۲- جہاد بالمال اس میں پایا جاتا ھے۔
۳- جہاد بالنفس اس میں پایا جاتا ھے۔
۴- نماز اس میں پائی جاتی ھے۔
۵- طواف اس میں پایا جاتا ھے۔
۶- ذبح و قربانی اس میں پائی جاتی ھے۔
۷۔ واجبات پر نہایت سختی سے عمل اس میں ھوتا ھے ۔
۸ - محرمات سے سختی کے ساتھ پرھیز اس میں کیا جاتا ھے۔
۹- حقوق اللہ کا پورا پورا لحاظ اس میں رکھا جاتا ھے۔
۱۰- حقوق الناس بلکہ حقوق الحیوانات کا بھی پورا پورا خیال اس میں کیا جاتا ھے۔
حج ، دینی و انسانی اقدار کی مجسم تصویر :
ایسا لگتا ھے حج ، حج نہیں ھے بلکہ دینی ، اسلامی اور انسانی اقدار کی مجسم تصویر ھے اور تصویر بھی ایسی جو تمام دنیا کے لئے باقاعدہ قابل مشاھدہ ھے۔
بلاشبہ حج بشکل عبادت ، ایک ایسا عظیم دینی و انسانی باعظمت پروگرام ھے کہ جس کی ظرافتوں ، نزاکتوں ، لطافتوں ، باریکیوں ، منفعتوں ، مصلحتوں اور حکمتوں کا اندازہ لگانا کوئی آسان کام نہیں ھے اسی لئے اس سے اور آس کے مناسک و ارکان سے ملنے والے تمامتر پیغامات کو بیان کرنا بھی کوئی معمولی عمل نہیں ھے، لیکن ھم اپنی بساط کے مطابق کچھ پیغامات مختلف مناسبتوں اور زاویوں سے آپ کی خدمت میں پیش کرتے رہیں گے۔
حج اور ہجرت :
سب کے لئے ظاھر و آشکار ھے کہ حج ایک ایسی عظیم عبادت اور ایسا اھم عمل ھے جو ھجرت کے بغیر وجود میں نہیں آتا ھے۔
اور با مقصد " ھجرت " دینی و اسلامی اعتبار سے بڑا نیک اور باعظمت عمل ھے۔
ھجرت کے لئے یہ شرف کم نہیں ھے کہ اسے اسلامی تاریخ اور کلنڈر کا آغاز و مبدا قرار دیا گیا ھے۔
اسلامی و فقہی اعتبار سے کبهی هجرت واجب ھوتی ھے جیسے اس سرزمین سے ھجرت کرنا واجب ھے جہاں دین پر عمل کرنا مقدور نہ ھو اور کبھی ھجرت حرام ھوتی ھے جیسے اسلامی سرزمین سے غیر اسلامی یعنی ارض کفر و شرک کی طرف ھجرت کرنا کہ جہاں دین پر عمل کرنا مقدور نہ ھو ، حرام ھے۔
ہجرت کے اقسام :
ہجرت کی بہت سی قسمیں ھیں :
۱۔ علم و کمال حاصل کرنے کے لئے ھجرت کرنا۔
۲۔ کفر سے اسلام کی طرف ھجرت کرنا۔
۳۔ ظلمت سے نور کی طرف ھجرت کرنا۔
۴۔ گناہ و معصیت سے الھی طاعت و عبادت کی طرف ھجرت کرنا۔
ہجرت ، حج کے لئے :
۱۔ البتہ حج کے نام پر حاجی " ملک " سے " مالک الملک کی طرف ھجرت کرتا ھے۔
۲۔ وطن سے " خالق الاوطان " کی طرف ھجرت کرتا ھے۔
۳۔ عزیزوں سے " رب عزیز " کی طرف ھجرت کرتا ھے۔
۴۔ اقارب سے " نحن اقرب الیہ من حبل الورید " (8) کی طرف ھجرت کرتا ھے۔
۵۔ احباب سے " اشد حباٌ للہ " (9) کی طرف ھجرت کرتا ھے۔
۶۔ مال سے " کعبہ مآل " کی طرف ھجرت کرتا ھے۔
۷۔ عیش و عشرت سے " قبلہ رشد و ھدایت " کی طرف ھجرت کرتا ھے ۔
۸۔ دنیائے معصیت سے " عالم طاعت " کی طرف ھجرت کرتا ھے۔
یقیناً یہ ھجرت ایک عظیم ھجرت ھے ، البتہ سب سے باعظمت ھجرت ، گناہ و معصیت سے اللہ کی طاعت و عبادت کی طرف ھجرت کرنا ھے ، جیساکہ سرکار امیرالمومنین علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ھیں :
لوگ کہتے ھیں ھم نے ھجرت کی ھے حالانکہ انھوں نے ھجرت نہیں کی ھے چونکہ حقیقی ھجرت ، گناھوں اور برائیوں سے طاعت اور اچھائیوں کی طرف ھجرت کرنا ھے۔ (10)
الحمدللہ حج میں یہ عظیم ھجرت بھی پائی جاتی ھے۔
پیغام :
حج بیت اللہ کے پیغامات میں سے ایک پیغام ھجرت ھے۔
حج کے بجا لانے کے لئے اپنے ملک ، اپنے وطن ، اپنے اقارب و احباب ، اپنے عیش و آرام اور شغل و کاروبار سے جو ھجرت کی جاتی ھے اس کا مقصد اللہ تعالی سے رشتہ ، رابطہ اور تعلق مضبوط و مستحکم کرنا ھو تا ھے۔
لھذا اس سے یہ پیغام حاصل ھوتا ھے کہ جب بھی خدا نخواستہ زندگی میں اللہ تعالی سے ھمارا رابطہ و رشتہ کمزور ھوجائے تو ھمیں ھجرت کرنی چاھیئے۔
اب یہ رابطہ ، کسی کاروبار کی وجہ سے کمزور پڑے تو اس کاروبار سے ھجرت کرنی چاھیئے۔
کسی شھر اور ملک کی وجہ سے کمزور پڑے تو اس شہر و ملک سے ھجرت کرنی چاھیئے۔
کسی شخص کی وجہ سے کمزور پڑے تو اس شخص سے ھجرت کرنی چاھیئے۔
اور کسی عمل کی وجہ سے کمزور پڑے تو اس عمل سے ھجرت کرنی چاھیئے۔
اللہ تعالیٰ پر توکل و اعتماد :
چونکہ فریضہ حج انجام دینے کے لئے انسان کو ھجرت کرنی پڑتی ھے اور اپنے گھربار ، کاروبار ، جاگیر و جائیداد ، فیملی خاندان سبھی کو چھوڑنا پڑتا ہے تو حاجی کو چاھئے کہ ان سب کو اپنے اللہ پر توکل کرتے ھوئے چھوڑے اور اللہ کو ان سب کا حافظ و محافظ قرار دے چونکہ "فاللہ خیر حافظا وھو ارحم الراحمین" (11)
یعنی حج کے لئے ہجرت خود بخود انسان کو اللہ پر توکل کرنے کی طرف متوجہ کرتی ھے۔
اور اللہ کی ذات اقدس پر توکل بہت بڑی اور عظیم نعمت ھے ، توکل کا مطلب ھے اللہ تعالی کی ذات اقدس پر اعتماد اور بھروسہ کرنا ، لیکن اللہ تعالی کی ذات پر مکمل اعتماد اور بھروسہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ھے بلکہ اس کے لئے دل میں پختہ ایمان ھونا ضروری ھے۔
ظاھر ھے جسے اللہ تعالی کی معرفت نہیں ھوگی جسے اس کی ذات پر ایمان نہیں ھوگا وہ اللہ پر مکمل توکل اور بھروسہ نہیں کرسکتا۔
یعنی توکل وہ عظیم نعمت و دولت ھے جو بے ایمانوں کو نصیب نہیں ھوتی بلکہ فقط ایمان داروں کو عطا کی جاتی ھے شاید اسی لئے قرآن حکیم میں ارشاد ھوا ھے " و علی اللہ فلیتوکل المومنون " (12) اللہ پر تو اھل ایمان ھی توکل کرتے ھیں۔
اور جب اللہ تعالی کی ذات اقدس پر یقین و ایمان رکھنے والے بندے توکل اور مکمل بھروسہ کرتے ھیں تو ان سے اللہ تعالی قرآن حکیم میں کھل کر اپنی محبت کا یوں اعلان فرماتا ھے:
ان اللہ یحب المتوکلین (13)
توکل کی برکتیں اور فائدے :
۱۔ توکل سے انسان کے عزم ، ارادہ اور ھمت کو قوت حاصل ھوتی ھے۔
۲۔توکل سے اطمینان قلب حاصل ھوتا ھے۔
۳۔توکل سے اضطراب اور خوف و ھراس دور ھوجاتا ھے۔
۴۔توکل سے اللہ کی محبت حاصل ھوتی ھے۔
قرآن اور کعبہ محترم :
قرآن حکیم کے سورہ حج میں خداوند سبحان نے کعبہ ، معمار کعبہ اور بیت اللہ کا طواف کرنے اور اس میں نماز پڑھنے اور رکوع و سجود بجا لانے والوں کا ذکر اس طرح فرمایا ھے :
و اذ بَوٌانا لٍابراھیمَ مکانَ البیتٍ اَن لا تٌشرکْ بی شیئاً و طھٌر بیتٍیَ للطائفین والقائمین والرکعٍ السجود۔(14)
سورہ حج ، پارہ ۱۷ آیت ۲۶۔
ترجمہ :
یاد کریں اس وقت کو جب بیت کعبہ کی جگہ ھم نے ابراھیم کے لئے آمادہ کردی تو ان سے کہا کہ کسی کو میرا شریک قرار نہ دو اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں کے لئے ، قیام کرنے والوں کے لئے ، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک رکھو۔
پیغامات :
اس آیہ مبارکہ سے ھم حسب ذیل پیغامات حاصل کر سکتے ھیں :
۱۔ اھم باتوں کو یاد دلانا ، اللہ تعالی اور قرآن حکیم کی سنت ھے لھذا ھمیں بھی اللہ و قرآن کی اس سنت پر عمل کرتے ھوئے اھم چیزوں کو خود بھی یاد رکھنا چاھیئے اور دوسروں کو بھی یاد دلانا چاھیئے۔
۲ ۔ کعبہ مقدس اور حضرت ابراھیم علیہ السلام دونوں کو یاد رکھاجائے۔
یعنی اھل اسلام و ایمان کو عمارت کے ساتھ ساتھ معمار کی بھی حرمت و قدر کرنی چاہیئے ۔
۳۔ مقدس مقامات کو مقدس لوگوں کے ہاتھوں میں ھونا چاہیئے، ایسا نہ ھو کہ مسجد و عزاخانہ کا متولی پیسے ، شہرت اور طاقت کی بنیاد پر بنایا جائے۔
۴۔ ان لا تشرک بی شیئا ، پہلے طھارت باطنی کی حفاظت کی جائے اس کے بعد طھارت ظاھری کا لحاظ کیا جائے۔
۵۔ اللہ کے گھر کی طھارت و قداست ، پاسداری اور اس کی خدمت کی ذمہ داری ، حضرت ابراھیم علیہ السلام کا اعزاز و افتخار ھے لھذا ھمیں بھی یہ کام عزت و شرف سمجھ کر کرنا چاھیئے۔
۶۔ طھر بیتی للطائفین والقائمین ، تنہا خود عبادت کرنا کافی نہیں ھے بلکہ دوسروں کے لئے عبادت کرنے کا انتظام و اھتمام بھی کرنا چاھئے۔
۷۔ طھربیتی ، مقدس مقامات کو ھمیشہ پاک رکھنا چاھیئے۔
۸۔ طھر بیتیَ ، ھر مسجد اللہ کا گھر ھے لیکن کعبہ کی خصوصیت یہ ھے اللہ نے اسے اپنا گھر کہکر یاد کیا ھے۔
یہ کعبہ سے اللہ کی محبت کی دلیل ھے کعبہ اللہ کو بہت محبوب ھے لھذا اللہ کا بندہ ھونے کے ناطے ھمیں بھی کعبہ سے بہت محبت کرنی چاھیئے۔
۹ ۔مسجد الحرام کا حق ، طواف ، نماز اور قیام ھے البتہ طواف کرنا کعبہ اور مسجدالحرام کا خصوصی حق ھے لیکن قیام و نماز برپا کرنا دنیا کی ھر مسجد کا حق ھے جسے ھر مسلمان کو ادا کرنا چاہیئے ورنہ مسجدیں بارگاہ خداوندی میں شکایت کریں گی۔
حج کے شرائط :
حج بہت بڑی اور عظیم عبادت ھے ، اسے بجالانا آدمی کی زندگی بدل دیتا ھے ، حج کرنے سے آدمی کے وارے نیارے ھوجاتے ھیں۔
حج انسان کو نہایت پاک و پاکیزہ اور اللہ عزوجل کا محبوب و مقرب بنا دیتا ھے۔
لیکن شرط یہ ھے اس سفر و عبادت میں تین اھم چیزوں کا لحاظ رکھا جائے :
۱-حج مکمل خلوص کے ساتھ ھو۔
خلوص کیا ھے :
اس کی وضاحت سرکار امام صادق علیہ السلام فرماتے ھیں :
خالص عمل وہ ھے جس پر تم اللہ کے علاوہ کسی سے بھی تعریف نہ چاھو۔ (15)
حضرت امام صادق علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا ھے :
الحج حجان : حج للہ و حج للناس ، فمن حج للہ کان ثوابہ علی اللہ الجنۃ ، و من حج للناس کان ثوابہ علی الناس یوم القیامۃ (16)
حج دو طرح کا ھو تا ھے :
ایک اللہ تعالیٰ کے لئے اور ایک لوگوں کے لئے۔
پس جو اللہ کے لئے حج کرے گا ، اس کا ثواب بشکل جنت ، اللہ کے ذمہ ھو گا اور جو لوگوں کے لئے حج کرے گا اس کا ثواب روز قیامت لوگوں کے سر ھوگا۔
اخلاص کے ساتھ حج کرنے کی قدر و منزلت کیا ھے ، اسے سرکار امام زین العابدین علیہ الصلوۃ والسلام یوں ارشاد فرماتے ھیں:
من حَجٌَ یرید بہ وجہَ اللہ لایرید ریاءً ولا سمعۃً غفر اللہ لہ البتہ۔۔(17)
جو حج کو اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے بجا لائے اور اس کے ذریعہ ریاکاری اور شہرت نہ چاھے ، اللہ یقیناً اس کی مغفرت فرمائے گا۔
۲۔ حج حلال اور پاک مال سے ادا کیا جائے۔
حضرت امام باقر علیہ السلام کا ارشاد مبارک ھے :
لایقبل اللہ حجا ولاعمرۃ من مال حرام۔(18)
یعنی اللہ اس حج اور عمرہ کو قبول نہیں فرمایا جو مال حرام سے کیا جائے۔
۳۔ حاجی ، حج پہ جانے سے پہلے اپنے ھر گناہ سے توبہ و استغفار کرے۔
گناہ دو قسم کے ھوتے ھیں :
۱۔ ایک وہ جن کے لئے فقط اللہ تعالی سے معافی و بخشش طلب کی جاتی ھے اور اس کے علاوہ کچھ اور نہیں کیا جاسکتا۔
۲۔دوسرے گناہ وہ جن کےلئے استغفار بھی کرنا چاھیئے اوران کا تدارک بھی ممکن ھے۔
جیسے اگر کسی نے نمازیں قضا کی ھوں تو اللہ سے معافی بھی مانگے اور ضروری ھے کہ حتی المقدور انھیں ادا بھی کرے ، خمس نہ دیا ھو تو اللہ سے معافی بھی مانگے اور اسے ادا بھی کرے ، اسی طرح کسی مومن کا حق دبایا ھو، غیبت کی ھو ، اسے ستایا ھو توحج پر جانے سے پہلے اس سے معافی بھی مانگے ، اس کا حق بھی دے اور حتی الامکان اسے خوش کرنے کی کوشش کرے۔
اگر ایسا نہ کرے گا تو ممکن ھے حج ھزار زحمتوں اور محنتوں کے باوجود قبول نہ ھو۔
علی ابن یقطین اور ابراھیم جمال کا واقعہ :
علی ابن یقطین اور ابراھیم دونوں شیعہ اور عبد صالح حضرت امام کاظم علیہ الصلوۃ والسلام کے عقیدت مند تھے۔
علی ابن یقطین عہدہ و منصب کے لحاظ سے ھارون رشید کے وزیر تھے اور انھوں نے عباسی دربار کی ملازمت ، حضرت امام کاظم علیہ الصلوۃ والسلام کے اذن و حکم ھی سے قبول کی تھی۔
ایک دن کوفہ سے ابراھیم جمال کسی کام سے علی ابن یقطین سے ملنے ان کے گھر پہنچے تو ابن یقطین نے ملاقات سے انکار کردیا۔
کچھ دن بعد جب ابن یقطین حج بیت اللہ سے مشرف ھوئے تو غنیمت سمجھا کہ مدینہ پہنچ کر اپنے مولا و امام ، حجت خداوند متعال ، فرزند رسول حضرت امام کاظم علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کا شرف بھی حاصل کریں۔
وہ بصد اشتیاق مولا کے شریعت کدہ پر پہنچے تو حضرت نے ملنے سے انکار کردیا ، دوسرے دن پھر در دولت پہ پہنچے ، جیسے ھی مولا کو دیکھا ، تو سوال کیا کہ میرے مولا : میرا گناہ کیا ھے ؟ کہ آپ نے مجھے اذن زیارت مرحمت نہیں فرمایا؟
آپ نے فرمایا : کیونکہ تم نے اپنے بھائی ابراھیم جمال سے ملاقات نہیں کی تھی !!
خداوند متعال اس وقت تک تمھارے اعمال کو قبول نہیں فرمائے گا جب تک ابراھیم معاف نہیں کریں گے۔
ابن یقطین نے عرض کی : اے میرے سید و آقا ! میں ابراھیم سے کیسے معذرت کروں ، جبکہ وہ کوفہ میں ہیں اور میں مدینہ میں ھوں؟
آپ نے فرمایا: جب رات ھو جائے تو اکیلے ، کسی کو بتائے بغیر بقیع میں جانا وہاں ایک تیار شدہ اونٹ تمھیں ملے گا ، اس پر سوار ھو کر کوفہ چلے جانا۔
ابن یقطین رات کے وقت بقیع پہنچے تو سواری تیار تھی اس پر سوار ھوئے اور چشم زدن میں کوفہ ابراھیم کے گھر پہنچ گئے ، اونٹ کو بٹھایا اور ان کے دروازہ کو کھٹکھٹایا ، ابراھیم نے پوچھا کون ھے ؟
انھوں نے جواب دیا : میں علی ابن یقطین ھوں۔
ابراھیم نے کہا : علی ابن یقطین کا میرے دروازہ پر کیا کام؟
ابن یقطین نے کہا : باھر آؤ کہ ایک عظیم امر در پیش ھے اور انھیں قسم دی کہ اذن دخول عطاکریں۔
جیسے ھی داخل ھوئے ، اپنا واقعہ بیان کیا اور ان سے معافی طلب کی ، ابراھیم نے کہا : اللہ تمھیں بخشے۔
پس ابن یقطین زمین پہ لیٹے اور ابراھیم سے کہا کہ میرے چہرے کو اپنے پاؤں سے روندھ ڈالو ، ابراھیم نے انکار کیا تو ابن یقطین نے انھیں ایسا کرنے کی قسم دی اور ابراھیم کو یہ کام کرنا پڑا ، جب ابراھیم یہ کام کر رھے تھے ، جب وہ ایسا کرنے لگے تو ابن یقطین بار بار یہ کہہ رھے تھے : اے اللہ گواہ رہنا ، اے اللہ گواہ رہنا۔
ابراھیم کو راضی کرکے ابن یقطین اسی رات مدینہ لوٹ آئے اور مولا کی خدمت میں حاضر ھوئے تو مولا نے ان کی حاضری قبول فرمائی۔ (19)
جب ھم اس واقعہ کی کڑیوں پر غور کرتے ھیں تو ھمیں حسب ذیل پیغامات حاصل ھوتے ھیں :
۱۔ ہمارا ھر امام ، خداداد علم کا حامل ھوتا ھے اس لئے ھمارے تمام اعمال و افعال اس کے زیر نظر ھوتے ھیں ، لہذا ھمیں خلاف دین و شریعت کوئی عمل نہیں کرنا چاھیئے۔
۲۔ گناہ ، گناہ ھے چاھے وزیر اعظم ھی سے کیوں نہ سرزد ھو ، لہذا ھمیں بڑے لوگوں کے گناہوں کو چھوٹا اور چھوٹے لوگوں کے گناھوں کو بڑا کرکے دکھانے کی کوشش نہیں کرنی چاھیئے۔
۳۔ امام اپنے شیعوں کے گناہوں سے چشم پوشی نہیں فرماتے بلکہ ان کے سلسلہ میں زیادہ حساس ھوتے ھیں چونکہ شیعہ کے معنیٰ مطیع و فرمانبردار کے ھیں نہ معصیت کار و گناھگار کے۔
۴۔ ایک شیعہ کا دوسرے شیعہ کے دل کو توڑنا یا دکھانا ، ایسا سنگین گناہ ھے کہ حج جیسے نیک عمل پر بھی پانی پھیر سکتا ھے۔
۵۔ شیعیت ، ایسا دینی و ایمانی قوی سسٹم ھے جو ھم سب کو ھزار مادی اختلافات کے باوجود اخوت و برادری کے رشتہ میں اس طرح جوڑ دیتا ھے کہ وقت کے وزیر اعظم کو ایک جمال ( اونٹوں کے رکھوالے ) کے دروازہ پر لاکر کھڑا کر دیتا ھے۔
۶۔ ابن یقطین کا لمحوں میں مدینہ سے کوفہ پہنچنا اور اسی طرح پھر وہاں سے مدینہ پلٹنا دلیل ھے کہ ائمہ طاھرین ، اللہ تعالیٰ کے اذن سے تمام عالم ھستی پر حق تصرف رکھتے ھیں۔
۷۔ اگر گناہوں کا واقعی احساس ھو جائے تو پھر انسان مادی و ظاہری عہدہ و منصب کو نہیں ، اپنی طہارت و نجات کو اھم سمجھتا ھے۔
۸۔ھم مومنین کے حقوق ضائع کرکے ، امام سے قریب نہیں ھو سکتے ۔
۹۔ اگر اھل ایمان پر زیادتی کی ھے تو صرف استغفار کرنا ، کافی نہیں بلکہ ان سے معافی مانگنا اور انھیں راضی کرنا بھی ضروری ھے۔
۱۰۔ گناہ ، ظلم ھے ، اھل بیت ظلم و ظالم کی نہیں بلکہ مظلوم کی نصرت و حمایت کرتے ھیں۔
۱۱۔گنہگار شیعہ ، اگر نادم ھو جائے اور ضائع شدہ حق مومن کا تدارک کرنا چاھے تو اھل بیت اس کی مدد اور نصرت سے گریز نہیں فرماتے۔
۱۲۔ بے شک اھل بیت ھر قسم کے رجس و آلودگی سے پاک و منزہ ھیں ، پس اگر ھم واقعاً ان کا تقرب چاھتے ھیں تو ھمیں ھر گناہ و آلودگی سے بچنا چاھیے اور خدانخواستہ اگر آلودہ ھو گئے ھیں تو ابن یقطین کی طرح اس آلودگی کو دور کرنا چاھیئے۔
سفرحج کے آداب :
حج کا سفر نہایت مبارک سفر ھوتا ھے ، یہ سفر ظلمت سے نور کی طرف ھوتا ھے ، اضطراب سے سکون و اطمینان کی طرف ھوتا ھے ، اپنے گھر سے اللہ کے گھر کی طرف ھوتا ھے اور درحقیقت مادیت سے للہیت و معنویت کی طرف ھوتا ھے۔
لھذا اسمیں دین کے معین کردہ آداب و اقدار کا بہت لحاظ رکھنا چاھیئے جن میں سے کچھ یہ ھیں:
۱۔ اس سفر کو خالص اللہ کے لئے انجام دے اور اپنے اوپر اللہ ، رسول ، اھلبیت کے عشق و محبت کو مسلسل طاری رکھے۔
۲۔ اس سفر میں جو بھی عمل انجام دے اللہ ، رسول اور دین کے مطابق انجام دے۔
۳۔ اس سفر کو للھیت و معنویت کی خوشبو سے معطر رکھے اور ایک لمحہ کے لئے بھی اسے مادیت کی بدبو سے آلودہ نہ ھونے دے۔
۴۔ تنہا سفر کرنا مکروہ ھے اس لئے اس سفر میں بھی رفیق سفر تلاش کرے۔
۵۔ رفیق سفر کو متدین ، خوش اخلاق اور صابر و متحمل اور عقیل و فہیم ھونا چاھیئے۔
۶۔ جو بھی سفر میں رفیقان سفر کا زیادہ خیال رکھے گا ، ان کے ساتھ زیادہ نرمی و خوش اخلاقی سے پیش آئے گا اللہ تعالی کے نزدیک اس کا اجر زیادہ ھوگا۔
۷۔ سفر سے پہلے حاجی کو دورکعت نمازپڑھنی چاھیئے اور اپنے کو اور اپنے اھل و عیال ، عافیت اور دنیا و آخرت کو اللہ تعالی کے سپرد کرنا چاھیئے۔
۸۔ دوران سفر اپنے ساتھیوں کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے کی کوشش کرنی چاہئے چونکہ روایت میں آیا ھے" سید القوم خادمھم فی السفر "(20)
۹. امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں ایک حاجی آیا اور کہنے لگا کہ ھم جیسے ھی مکہ مکرمہ پہنچے ، میرے ساتھی طواف بیت اللہ الحرام کرنے چلے گئے اور مجھے سامان کی رکھوالی کے لئے چھوڑ گئے ، آپ نے اس کی یہ بات سن کر فرمایا : انت اعظھم اجرا۔ (21)
تمہارا آجر ان سب سے عظیم ھے۔
۱۱۔ دو دوست مدینہ منورہ گئے ایک بیمار پڑگیا دوسرا اسے چھوڑ کر مسجد میں نماز و زیارت کے لئے چلا گیا اس بیمار نے سفر سے لوٹ کر اپنے اس دوست کی شکایت اس کے والد سے کی۔
وہ اپنے باپ سے یہ شکایت سن کر مولا امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور واقعہ بیان کیا تو آپ نے اس سے فرمایا :
قعودک عندہ افضل من صلاتک فی المسجد۔(22)
تیرا اس بیمار دوست کے پاس بیٹھنا ، مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل و برتر تھا۔
اس سے پتہ چلتا ھے کہ حج و زیارت انسان کی الھی ، دینی و انسانی تربیت کا ایک عظیم اھتمام و انتظام ھے ۔
لھذا اس کے تمام تعلیمات اور مناسک و اعمال پر گہرائی کے ساتھ نظر کرنی چاھیئے اور پوری معرفت کے ساتھ حج کرنا چاھیئے اور حج کے ذریعہ ھمارا اللہ ھماری جیسی تربیت کرنا چاھتا ھے ، ھمیں اس طرح اپنے نفس کو تربیت دینی چاہیے ۔
حج ، حق خداوند متعال :
حج ، بندوں کے اوپر اللہ تعالیٰ کا ایک حق ھے جس کا وجوب قرآن حکیم کے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 97 سے ثابت ھے ، اس آیہ مبارکہ میں ارشاد ھوا ھے:
" وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلاً و من کفر فان اللہ غنی عن العالمین "
اللہ کی خاطر بندوں پر واجب ھے کہ اس کے گھر کا قصد و ارادہ کریں (البتہ) وہ لوگ جو اس راستہ کی توانائی رکھتے ھیں۔
اور جو نافرمانی کرے (استطاعت ھوتے ھوئے حج کو نہ جائے تو جان لے کہ) بیشک اللہ تمام عالمین سے بے نیاز ھے۔
حدیث میں آیا ھے جو استطاعت کے ھوتے ھوئے حج نہ کرے وہ یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ محشور ھوگا۔
پیغام :
حج ، اللہ کا وہ عظیم حق ھے کہ مستطیع ھونے کے بعد جسے ترک کرنا ، مسلمان کو اسلام سے خارج کرکے یہودیت و عیسائیت کی صف میں پہنچا دیتا ھے یعنی ھدایت و نجات سے محروم کردیتا ھے۔
میقات :
1- ابھی حاجی کئی کیلومیٹر مکہ معظمہ ، بیت اللہ الحرام اور مرکز عشق و مودت سے دور ھے اور حکم ھوتا ھے کہ اتر جاؤ ، نیچے آجاؤ سواریوں سے ، پیادہ ھوجاؤ اور ظاھری اعتبار سے بھی اپنے کو بدل ڈالو ، اتاردو اپنے زرق و برق لباس کو ، اتار دو اپنے جبہ و دستار کو ، گویا " فاخلع نعلیک " پر پوری طرح سے عمل کرو جبکہ ابھی وادئ مقدس کافی دور ھے جانتے ھو یہ کونسی جگہ ھے؟
اسے " میقات" کہتے ھیں ۔
2- میقات کسے کہتے ھیں اس کی تعریف کیا ھے ؟
اھل مکہ کے علاوہ ساری دنیا سے جو لوگ حج یاعمرہ کرنے آتے ھیں انھیں اس کے لئے کچھ معین اور خاص مقامات سے احرام باندھنا پڑتا ھے انھیں مقامات کو میقات کہتے ھیں اور میقات کی جمع مواقیت ھے۔
گویا میقات سے اعمال حج کی شروعات ھوتی ھے یہاں حج و عمرہ کے لئے احرام باندھا جاتا ھے۔
3- احرام کیا ھے ؟
یعنی اپنے من پسند لباس کو اتار دینا اور الھی و دینی لباس پہننا۔
احرام یعنی مردوں کو ایک لنگی اور ایک ردا پہننا جو سلی ھوئی نہ ھوں ، نقش دار نہ ھوں اور رنگ برنگی نہ ھوں بلکہ سفید ھوں۔
حاجی کو احرام سے پہلے ناخنوں کو کاٹ لینا اور بغل و زیرناف بالوں کو نورہ سے صاف کرلینا چاھیئے اور قربت کی نیت سے احرام باندھنا چاہیئے اور اس کے بعد غسل کرنا چاھیئے۔
احرام کے کچھ محرمات اور ان کے پیغامات :
۱۔ ھرقسم کے عطر و خوشبو کا استعمال حرام ھے۔
پیغام :
حج میں انسان کو اسلام ، ایمان ، یقین ، رضا و تسلیم ، عشق خداوند متعال اور مودت اھل بیت طاھرین کے عطر سے پوری طرح معطر ھونا چاھیئے حاجی اگر اس عطر سے معطر ھوجائے تو پھر کسی عطر و خوشبو کی ضرورت نہیں رھتی۔
۲۔ معطر لباس پہننا بھی حرام ھے چاھے وہ پہلے سے معطر ھو۔
پیغام :
لباس تقوی پہننے کے بعد کسی معطر لباس کی ضرورت نہیں ھے۔
۳۔ آئینہ دیکھنا حرام ھے۔
پیغام :
اللہ کے گھر جاکر اور اس کا مہمان بن کر فقط الہی و دینی آئینہ میں اپنی تصویر دیکھنی چاھیئے ، اور ہمیشہ اسی آئینہ میں اپنی حقیقت دیکھنے کا عادی بن جانا چاھیئے۔
۴۔ سلا ھوا کپڑا پہننا حرام ھے۔ پیغام :
کفن کی طرح بغیر سلا اور سفید لباس پہننا ھے تاکہ اللہ سے ملاقات اور موت کا منظر ھمہ وقت نگاھوں کے سامنے رھے۔
۶۔ سرمہ لگانا۔
پیغام :
حاجی کو اللہ کے گھر کے گرد و غبار کو اپنا سرمہ چشم بنا لیناچاھیئے۔
دوسرے یہ کہ انسان سرمہ جمال و خوبصورتی کے لئے استعمال کرتا ھے پس جو آنکھیں سرزمین وحی اور کعبہ مقدس کے جمال زیارت سے منور اور حسین و جمیل ھو جائیں ، انھیں پھر مادی سرمہ کی ضرورت کہاں رہ جاتی ھے۔
طواف اور اس کے آداب :
مناسک و اعمال حج میں ایک اھم عمل طواف ھے۔
طواف یعنی اللہ تعالی کے مقدس گھر کعبہ کے اردگرد سات مرتبہ گھومنا اور چکر لگانا۔
اس کا پیغام یہ ھے کہ :
1- کعبہ شمع اسلام اور یادگار معشوق ھے لھذا ھر مسلمان اور عبدٍ عاشق کو اس کے اردگرد پروانہ وار گھومنا چاھیئے اور یہ عمل معرفت اور عشق الھی میں ڈوب کر انجام دینا چاھئے۔
2- طواف کرتے وقت دعا کرنی چاھئے کہ اے اللہ مجھے توفیق دے کہ ساری زندگی تیرے دین کے اردگرد گھومتا رھوں۔
3- طواف کے شرایط میں سے ایک شرط یہ ھے کہ حجراسود سے شروع کرے اور اسی پر ختم کرے۔
اس سے یہ پیغام حاصل کرنا چاھیئے کہ اللہ ھماری ابتداء و انتہا تیری ذات اقدس ھے ، لھذا جس طرح تونے ھماری ابتدا اپنے دین اسلام پر قرار دی ھے اسی طرح ھماری انتہا یعنی موت بھی اسلام پر قرار دینا۔
4- ھمیں کسی بھی حالت میں شرق و غرب کے چکر نہیں لگانے چاھئے بلکہ مادی و معنوی دونوں قسم کے امور کی اصلاح کے لئے اللہ کے گھر کعبہ یا مسجد کے چکر لگانے چاھیئیں۔
5- طواف اس طرح کرنا ھے کہ حاجی کی بائیں طرف کعبہ مقدس کی طرف ھو ، اس کا اصل فلسفہ تو اللہ ، رسول اور اھل بیت ھی جانتے ھیں ، لیکن اس سے یہ پیغام لیا جاسکتا ھے کہ انسان کا قلب و دل بائیں طرف ھوتا ھے گویا اسے کعبہ سے قریب کرکے خود اس کے سپرد کرنا ھے تاکہ اس میں اسلام و ایمان گھر کرلے اور کبھی بھی اس کے اندر کفر ، شرک اور نفاق داخل نہ ھونے پائے۔
منیٰ میں قربانی کا مقصد اور پیغام :
حاجی منیٰ میں پہلا عمل جو بجا لاتا ھے اس کا نام " رمئ جمرات " ھے اور اس کے بعد منیٰ کا دوسرا عمل " قربانی " ھے۔
چونکہ " قربانی " کا عمل شیطان کے پتھر مارنے گویا اسے اپنے سے دور کرنے کے بعد انجام دیا جاتا ھے ، اس لئے اس سے یہ پیغام ملتا ھے کہ دین و مذھب یا اللہ تعالی کے بندوں کےلئے اگر انسان قربانی دینا چاھتا ھے تو وہ شیطان سے دور ھونے کے بعد ھی دے سکتا ھے۔
یعنی قربانی دینے کے لئے شیطان کو اپنے سے دور کرنا اور اسے پسپا کرنا بہت ضروری ھے۔
قربانی ، مالی ھو یا جانی دونوں کے لئے اپنی ھوائے نفس کو کچلنے کے ساتھ ساتھ شیطان کے وسوسوں کو کچلنا بھی ضروری ھوتا ھے۔
منیٰ میں قربانی کرنے کی کچھ حکمتیں ھیں مثلاً :
۱۔ یہ حکم خداوند متعال کی اطاعت ھے اور عبودیت و بندگی کا اظہار ھے۔
۲۔ یہ حضرت ابراھیم و اسماعیل علیھما الصلوۃ والسلام کے جذبہ خلوص و للہیت کو خراج عقیدت پیش کرنا ھے۔
۳۔ ان کے گرانقدر جذبہ عشق و للہیت سے اپنے عشق وخلوص میں اضافہ کرنا ھے اور اس میں ترقی لانا ھے۔
۴۔ اس قربانی کے ذریعہ قربانئ ابراھیم و اسماعیل کو ذھن میں لاکر متوجہ ھونا ھے کہ اللہ تعالی کا حکم ، اسکا فرمان اور اس کی رضا اتنی اھم ھے کہ اس کی خاطر جان ، مال ، آل ، اولاد اور عزت و آبرو سب کچھ قربان کیا جاسکتا ھے۔
۵۔ اس قربانی سے ھمیں اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا ھے۔
۶۔ اس قربانی سے یہ درس لینا ھےکہ جو جتنا اللہ تعالی کا مطیع و فرمانبردار ھوتا ھے اسی اعتبار سے اس کی اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش ھوتی ھے اور اسی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس کی عظمت و اھمیت ھوتی ھے۔
۷۔ منیٰ میں جو جانور قربانی کے لئے لے جایا جاتا ھےوہ خود ، اس کا خون اور اس کاگوشت و پوست سب اللہ تعالی کی نظر میں محترم ھوجاتا ھے۔
یہ ھمارے لئے سوچنے کامقام ھے کہ جب ایک جانور اللہ کی راہ میں قربان ھونے کی وجہ سے اتنا محترم ھوجاتا ھے تو پھر انسان اگر اس کی راہ میں قربان ھوجائے تو کتنا محترم ھوگا۔
۸۔ سرکار امام صادق علیہ الصلوۃ والسلام ارشاد فرماتے ھیں :
«و اذبح حنجرتی الهوی والطمع عند الذبیحة» (23)
یعنی قربانگاہ منیٰ میں جب قربانی کے جانور کو ذبح کرو تو اپنی ھواھوس اور طمع وحرص کے گلے پر بھی خنجر چلا ڈالو۔
۹۔منیٰ میں یہ قربانی دو صورتیں رکھتی ھے :
پہلی صورت ظاھری ھے اس میں ھم اللہ تعالی کی رضا کی خاطر ایک حیوان کو ذبح کرتے ھیں۔
دوسری صورت باطنی ھے۔
جسمیں ھمیں اس حیوان کی طرح اپنے اندر چھپے ھوئے حیوان اور جانور کو قتل کردینا چاھیئے۔
حلق و تقصیر :
عادت ایک ایسی شے ھے جسے ترک کرنا بہت دشوار اور مشکل ھوتا ھے ، عادت کو ترک کرنا کتنا دشوار اور مشکل ھوتا ھے اسے سرکار امام حسن عسکری علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے اس ارشاد میں بیان فرمایا ھے :
ردالمعتاد عن عادتہ کالمعجز۔ (24)
اھل عادت کا ، اپنی عادت کو چھوڑ دینا ، معجزہ کے مانند ھے۔
اور یہ معجزہ ھمیں موسم حج میں قدم قدم پر دیکھنے کو ملتا ھے ، حج بیت الحرام میں یہ معجزہ مردوں سے بھی ظاھر ھوتا ھے ، عورتوں سے بھی ظاھر ھوتا ، بوڑھوں سے بھی ظاھر ھوتا ھے اور لحیم شہیم جوانوں اور نوجوانوں سے بھی ظاھر ھوتا ھے۔
وہ جیسے ھی اپنے اپنے میقات تک پہچتے ھیں اپنے من پسند شاندار اور خوبصورت کپڑوں کو اتار کر ایک طرف رکھ دیتے ھیں اور اپنی پسند اور ھواھوس کے گلے پر پاؤں رکھکر بالکل سادہ البتہ صاف ستھرا سفید الھی و دینی لباس زیب تن کرلیتے ھیں۔
یہ لباس ، موت اور آخرت کی یاد دلانے کے ساتھ ھرحاجی اور دیکھنے والے کو اپنے دامن کردار سے گنا ھوں کے داغوں کو آب خلوص ، آب توبہ اور اشک استغفار سے دھونے اور اسے لباس احرام کی طرح بالکل صاف ستھرا بنانے کی دعوت دیتا ھے۔
اللہ اکبر ، جب کہ لباس انسان کے لئے بہت زیادہ اھم ھے ، ھم نے دیکھا ھے اگر انسان کو اسکا من پسند لباس فراھم نہیں ھوتا تو وہ بہت پروگرامس میں شرکت نہیں کرتا ، بہت سی شادیوں میں جانا کینسل کردیتا ھے۔
لیکن یہی انسان جب حج پہ جاتا ھے تو اللہ تعالی کی خاطر بالکل سادہ بلکہ زندگی میں کفن پہننے پہ تیار ھوجاتا ھے ، گویا کعبۃ اللہ کی زیارت کے لئے کفن پہن کر وہ عند اللہ جانے کی تیاری کا اعلان کرتا ھے۔
جبکہ بعض معاشروں میں سفید لباس بچوں اور نوجوانوں کا پہننا مرغوب نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے موت کو دعوت دینا خیال کیا جاتا ھے ، لیکن لباس احرام پہن کر تمام حجاج بالخصوص نوجوان حاجی اس خرافات اور باطل فکر و رسم کے گلے پر بھی پاؤں رکھ کر اسے کچل ڈالتےھیں۔
اسی طرح " حلق" ھے۔
" حلق " کے معنیٰ سر تراشنے کے ھیں ، جو پہلی بار حج واجب کے لئے جائے اس پر سرکا منڈانا واجب ھے۔ یہ سچ ھے کہ سر کے بال اکثر لوگوں کے لئے بڑی اھمیت کے حامل ھوتے ھیں اور وہ انھیں اپنی خوبصورتی اور زینت کا راز سمجتھے ھیں۔
حقیقت بھی یہی ھے کہ سر کے بال آدمی کو ظاھری جمال و زینت عطا کرتے ھیں اور واقعا اس کے قیافہ میں خوبصورتی پیدا کر دیتے ھیں۔
اسی لئے بعض لوگوں کو سر کے بالوں سے عشق کی حد تک محبت ھوتی ھے۔
دیکھا گیا ھے کہ بعض کالجوں ، مدرسوں یا ملازمتوں میں سر منڈانے یا بال چھوٹے رکھنے کی شرط ھوتی ھے تو بالوں کے عاشق افراد ان کالجوں اور ملازمتوں کو جوائن نہیں کرتے یا جوائن کرنے کے بعد اپنے بالوں کو بحال رکھنے کی وجہ سے چھوڑ دیتے ھیں۔
یعنی بعض افراد اس حد تک بالوں سے وابستہ ھوجاتے ھیں کہ بعض اوقات اس طرح کی وابستگیاں خطرناک ثابت ھوتی ھیں اور کبھی کبھی دین و ایمان کو بھی واقعاً خطرہ میں ڈال دیتی ہیں۔
حلق اور عرب سماج :
عرب سماج میں سر کا منڈا ھونا غلامی کی علامت سمجھا جاتا تھا ، عام طور سے رواج تھا کہ عرب اپنے غلاموں کو سر منڈا رکھتے تھے گویا اس سے آقا و غلام ، آزاد و بندہ ، مخدوم و خادم اور مطاع و مطیع کے درمیان فرق حاصل ھو تا تھا۔
تاریخ بتاتی ھے کہ سقیفہ کے شوم و مبحوس حادثہ کے رونما ھونے کے بعد جب کچھ اصحاب رسول اور مولا علی کے طرفداروں نے آپ کو ظالم و غاصب حکومت کے خلاف قیام کی رائے دی اور اس سلسلہ میں اپنی حمایت اعلان کیا تو ان سے مولا نے یہی فرمایا تھا : اگر اس امر میں مصمم ھو تو فلاں روز فلاں ، فلاں وقت اور فلاں مقام پر سر منڈا کر حاضر ھونا۔(25)
اس سے پتہ چلتا ھے کہ عرب میں سر کا منڈوانا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن ھم موسم حج میں دیکھتے ھیں کہ دنیا بھر کے مسلمان بصد خوشی و رغبت اپنے پروردگار کی خوشنودی کے لئے یہ کام انجام دینے کے لئے صف بصف کھڑے نظر آتے ھیں جو ان کے اللہ رب العزت کے سامنے سراپا تسلیم ھونے اور اس کی خاطر سب کچھ کر گزرنے کی واضح دلیل ھے۔
شائستہ ھے کہ ھر حاجی اسی روح تسلیم و اطاعت کو زندگی بھر اپنے اندر باقی رکھے اور اسے فقط موسم حج سے مخصوص نہ سمجھے۔
آخرکلام میں رب کریم سے دعا ھے کہ ھمیں جلد از جلد بامعرفت حج کرنے کی توفیق عطا کرتے ھوئے دنیا و آخرت میں اس کے فیوض و برکات سے بہرہ مند فرمائے۔آمین
حوالے :
۱۔ المنجد ، ج ۱ ، کلمہ حج ، بی نا ، بی تا
۲۔ اصول کافی ، ترجمہ مصطفوی ، ج ۱ ، ص۵۴ ، بی نا، بی تا۔
۳۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، موسسه الوفاء، ج67، ص 211.
۴۔ خواجه نصیر الدین طوسی، آداب المتعلمین ، ترجمه: محسن احمدوند، قم، نهاوندی، چاپ دوم، 1385، ص 27
۵۔ آمدی ، عبد الواحد ، غرر الحکم و درر الکلم , جلد۱ , صفحه۲۵۳، بی نا ، بی تا۔
۶۔ قرآن حکیم ، سورہ انعام ، آیہ ۱۶۲
۷۔ قرآن حکیم، سورہ بقرہ ، آیہ ۱۵۶
۸۔ قرآن حکیم ، سورہ ق ، آیہ ۱۶
۹۔ قرآن حکیم ، سورہ بقرہ ، آیہ ۱۶۵
۱۰۔ قمی شیخ عباس ، سفینۃ البحار ،قم ، مکتبۃ السنائی ، مادہ ھجر، بی تا۔
۱۱۔ قرآن حکیم ، سورہ یوسف ، آیہ ۶۴۔
۱۲۔ " " ، سورہ ابراھیم ، آیہ ۱۲۔
۱۳۔ " " ، آل عمران ، آیہ ۱۵۹۔
۱۴۔ " " ، سورہ حج ، آیہ ۲۶
۱۵۔ عاملی ، حر ، وسائل الشیعہ ، ج ۱ ، ص ۶۰ ، بی نا، بی تا۔
۱۶۔ محمدی ، ری شہری ، میزان الحکمہ ، ج ۲ ، انواع الحج ، بی نا، بیتا۔
۱۷۔ احسائی ، ابن ابی جمہور ، عوالي اللئالي العزيزية في الأحاديث الدينية ،جلد۴، صفحه۳۰۔
۱۸۔مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، ج ۹۶ ، ص ۱۲۰
۱۹۔ سید احمد مستنبط(ره) ، القطرہ ، جلد1، بخش امام موسی بن جعفر الکاظم(ع) ، صفحه 592۔
۲۰۔ مکارم الأخلاق , جلد۱ ، ص ۲۵۱.
۲۱. وسايل الشيعه، ج 13، ص 313.
۲۲۔ کلینی ، محمد ابن یعقوب ، فروع كافى، ج 4، ص 545۔
۲۳۔ مصباح اشریعه و مفتاح الحقیقه ، بیروت ، موسسه الاعلمی للمطبوعات ، ص ۴۹-
۲۴۔ ابن شعبہ حرانی ، تحف العقول ، ج ۱، ص ۴۸۹
۲۵.احمد ابن ابی یعقوب ، تاریخ یعقوبی، ج2، ص 126، بی نا ، بی تا۔