۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
مولانا ظہور مہدی مولائی

حوزہ/ اسلامی روایات و احادیث نے ظھور کے وقوع پذیر ہونے کا کوئی وقت تو معین نہیں کیا ہے چونکہ امام کی غیبت کی طرح وہ بھی اسرار الہی میں سے ہے ، لیکن اس کے وقوع کو یقینی و حتمی قرار دیا ہے۔ لہذا ہمیں اس کا ہر وقت انتظار کرنا چاہیئے اور اس کے حوالہ سے ہمارے جو فرائض ہیں انہیں ضرور انجام دینا چاہیئے۔

تحریر: حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا ظھور مھدی مولائی

خلاصہ :
حوزہ نیوز ایجنسی
آج سے نہیں صدیوں سے بالخصوص اھل اسلام و ایمان کے درمیان یہ سوال اٹھتا چلا آرہا ھے کہ منجی و مصلح عالم بشریت حضرت امام مھدی علیہ الصلوۃ والسلام کا ظھور کب ھوگا؟
اورجیسے جیسے ظلم و ستم اور سفاکیت و بربریت بڑھتی جاتی جارھی ھے ویسے ویسے اس سوال کی شدت و قوت میں اضافہ ھوتا جارہا ھے۔
سوال فقط یہی نہیں ھوتا کہ " آنحضرت کا ظھور کب ھوگا " بلکہ اس سے منسلک و مربوط یہ سوالات بھی سماعت سے آئے دن ٹکراتے رھتے ھیں کہ" امام زمانہ کیوں غائب ھیں ، ان کی غیبت کا فلسفہ اور ان کی غیبت میں زندگی گزارنے کی نوعیت و کیفیت کیا ھے ؟
چونکہ یہ تمام سوالات دینی و اعتقادی ھونے کے ھمراہ عقلی و فکری حیثیت بھی رکھتے ھیں ، اسلئےحامئ عقل و منطق "دین اسلام " نے ان کے شفاف جوابات مرحمت کئے ھیں اور معصوم رھبران اسلام نے پوری وضاحت کے ساتھ ان حقائق کو روشن کیا ھے۔
اس مقالہ میں اس اھم سوال کہ " حضرت امام مھدی علیہ الصلوۃ والسلام کا ظہور کب ھوگا " ؟ کا روایات معصومین علیھم السلام کے تناظر میں شافی جواب دینے کی سعی و کوشش کی گئی ھے ، اور اس سوال سے مربوط و متعلق کچھ ضروری مطالب اس لئے ذکر کئے گئے ھیں تاکہ اصل سوال کا جواب پوری وضاحت کے ساتھ سامنے آسکے۔

حضرت امام عصر علیہ السلام کا ظھور کب ھوگا ؟

مقدمہ :
قیامت سے پہلے اور اس کے قریب ایک عالمی مصلح و منجی کے ظھور کا اعتقاد ایک یقینی و اجماعی اعتقاد ھے ، کہ جس کی تمام توحیدی و غیر توحیدی ادیان اور کچھ بشری و انسانی مکاتب نے بھی بشارت دی ھے۔
البتہ دین اسلام نے دیگر ادیان و مکاتب کے بالمقابل اس مسئلہ کو مضبوط و مستحکم نظری و عملی معیارات کے ساتھ صحیح صورت میں واضح طور پر پیش کیا ھے ۔
چنانچہ اس نے عالمی مصلح و منجی کو " مھدی " کے نام سے پہچنوایا ھے اور ان کے تمام تر مشخصات و حالات کو وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ھے۔
اسی لئے حضرت امام مھدی علیہ الصلوۃ و السلام اور ان کا انتظار جملہ مسلمانوں کا ایک دینی ، سماجی و ثقافتی مسئلہ بنا ھوا ھے اور اس پر تمام ملت اسلامیہ کا اتفاق نظر موجود ھے ۔
یہ بھی حقیقت ھے کہ سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور سے لے کر آج تک اس مسئلہ کی تبیین و تبلیغ ھوتی چلی آرھی ھے ، جو زمانہ ظھور کی آمد کے سلسلہ میں امت مسلمہ کو پر امید بنائے ھوئے ھے۔
بحمداللہ جب بھی ہمارے سماج میں اہل ایمان کے سامنے بارہویں امام و ھادئ معصوم حضرت مھدی علیہ الصلوۃ والسلام کے ظہور کا ذکر آتا ہے تو ان کے چہروں پر امید و نشاط کا نور پھیل جاتا ہے اور دل آنحضرت کے فراق میں تڑپنے اور آنکھوں کے کٹورے شوق دیدار میں اشکوں سے لبریز ھوکر چھلکنے لگتے ہیں۔

تشریح مفاھیم :
۱۔ مھدی :
سنی عالم لغت ابن منظور نے لسان العرب میں لکھا ھے :
المَهْدِيُ الذي قد هَداه الله إِلى الحق، و قد اسْتُعْمِل في الأَسماء حتى صار كالأَسماء الغالبة، و به سُمي‏ المهْدِيُ‏ الذي بَشَّر به النبيُّ، صلى الله عليه و سلم، أَنه يجي‏ء في آخر الزمان ۔(1)
لسان العرب ،ج ۱۵ ، ص ۳۵۴۔
مھدی اسے کہتے ہیں جسے اللہ نے یقینی طور پرحق کی ھدایت دے دی ھو ، اور مھدی کو اسماء کے لئے اسقدر استعمال کیا گیا ھے کہ وہ اسمائے غالبہ کے مانند ھوگیا ھے اور اسی بنیاد پر اسے بھی " مھدی " کہکر پکارا جاتا ھے جس کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بشارت دی ھے کہ وہ آخری زمانے میں آئے گا۔
۲۔ ظھور :
خلیل فراھیدی نے کتاب العین میں لکھا ھے :
الظَّهْرُ : خلاف البطن من كل شي‏ء۔۔۔۔۔ و الظُّهُورُ : بدو الشي‏ء الخفي۔۔۔۔۔(2) کتاب العین ، ج ۴، ص ۳۷۔
ظَھَرَ : ھر شے کےخلاف بطن کو کہتے ہیں ۔۔۔اور ظھور ، مخفی چیز کے ظاھر ھونے کانام ھے۔
۳۔ روایات :
فیومی نے المصباح المنیر میں لکھا ھے کہ :
روایت کا لغوی معنیٰ ، حمل ( اٹھانا) ھے ، جیساکہ کہا جاتا ھے " روی البعیرْ الماءَ " اونٹ نے پانی اٹھالیا۔(3) المصباح المنیر ، ،ج۲ ،۲۴۶۔
اگرچہ یہ لفظ ، داستان ، قصہ اور نمائش نامہ کے لئے بھی استعمال ھوتا ھے ۔(4) فرھنگ ابجدی ،ص ۴۴۶ ، واژہ روی۔
لیکن علم حدیث شناسی میں کلمہ روایت ، معنئ حدیث کے مترادف ھے اور حدیث کو اس لئے روایت کہا جاتا ھے کہ معصوم کے قول ، فعل یا تقریر کو نقل یا حمل کرتی ھے نیز حدیث نقل کرنے والے کو " راوی " اس لئے کہا جاتا ھے کہ وہ " حامل حدیث " ھوتا ھے ۔(5) حدیث شناسی، ج ۳ ، ص ۳۰۔
روایات ، کلمہ روایت کی جمع ھے۔
۴۔ انتظار :
صاحب لسان العرب نے لکھا ھے :
النظر : الانتظار، يقال: نَظَرْتُ‏ فلاناً و انْتَظَرْتُه‏ بمعنى واحد۔ (6) لسان العرب ،ج ۵ ،ص ۲۱۶7
نظر کامعنیٰ " انتظار ھے ، کہا جاتا ھے : میں نے فلاں کو دیکھا اور اس کا انتظار کیا ، اس طرح ان دونوں کو ایک ھی معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ھے۔

ولادت و غیبت :
شیعی نقطہ نظر سے یہ حقیقت بالکل ثابت و مسلم ھے کہ مصلح کائنات ، منجی عالم انسانیت ، بارھویں امام ، حضرت مھدی علیہ الصلوۃ والسلام و عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی ولادت باسعادت ۱۵ شعبان المعظم ۲۵۵ ھجرئ قمری میں عراق کے معروف شہر " سامرا " میں واقع ھو چکی ھے۔
آپ کے پدر بزرگوار کا نام " امام حسن عسکری " اور مادر گرامی کا نام " نرجس " ھے۔
ولادت کے بعد آپ کوصرف پانچ سال تک اپنے پدر بزرگوار کا سایہ نصیب ھوا ھے چونکہ ۲۶۰ ھجری میں آپ کے والد بزرگوار کی غریب الوطنی میں شھادت واقع ھوئی ھے۔
حضرت امام مھدی علیہ الصلوۃ والسلام کو دو غیبتیں پیش آئی ہیں :
۱۔ غیبت صغریٰ : یہ مختصر غیبت ، مصلحت الہی کے سبب آپ کی ولادت باسعادت یعنی ۲۵۵ ھجری قمری سے شروع ھوتی ھے اور ۳۲۹ ھجرئ قمری میں ختم ھوجاتی ھے ، اس مدت میں امام مھدی علیہ الصلوۃ والسلام اپنے چار خاص نائبوں کے ذریعہ امت کی رشد و ھدایت اور دستگیری فرماتے ھیں اور اس کے بعد آپ کی غیبت کبریٰ کا آغاز ھوتا ھے۔
۲۔ غیبت کبریٰ : یہ غیبت ، الہی حکمت و مصلحت کے سبب ۳۲۹ ھجرئ قمری سے شروع ھوئی ھے اور ابھی تک جاری و ساری ھے ، اس کا خاتمہ اس وقت ھوگا جب آنحضرت حکم و اذن خداوند متعال سے ظھور فرمائیں گے۔
البتہ اس مدت میں آپ کے نائبین عام ( جامع الشرائط علماء و فقہاء ) امت کی رشد و ھدایت اور دستگیری کا فرض انجام دیتے آرھے ھیں۔

غیبت کی علت و وجہ :
سرکارامام مھدی علیہ السلام کی غیبت کی اصل و واقعی علت تو خداوند حکیم ہی جانتا ہے ممکن ہے کہ وہ ہمارے لئے آنحصرت کے ظھور فرمانے سے پہلے ناقابل فہم بھی ہو۔
چونکہ اس سلسلہ میں حضرت امام صادق علیہ الصلوۃ و السلام سے نقل کی جانے والی روایت سے کچھ اسی طرح کا اشارہ ملتا ھے ، حضرت نےفرمایا ھے : ۰ "انّ لصاحب هذا الامر غیبه لابدّ منها یرتاب فیها کلّ مبطل، فقلت : ولما جعلت فداک؟ قال : لأمر لم یؤذن لنا فی
کشفہ لکم قلت فما وجه الحکمه فی غیبته؟ قال وجه الحکمه فی غیبته وجه الحکمه فی غیبات من تقدّمه من حجج اللّه تعالی ذکره ان وجه الحکمه فی ذلک لا ینکشف الاّ بعد ظهوره کما لم ینکشف
وجہ الحکمه فیما آتاه الخضر (علیه السلام) من خرق السفینه و قتل الغلام و اقامه الجدار لموسی (علیه السلام) الی وقت افتراقهما"(7) علل الشرائع ، ج۱ ، ص ۲۴۶
اس روایت کا خلاصہ یہ ھے کہ :
صاحب الامر کے لئے " غیبت " حتمی و یقینی ھے ، اور ھمیں اس کی علت و وجہ بیان کرنے کی اجازت نہیں ھے ، ان کی غیبت کی حکمت وھی ھے جو سابقہ حجتوں کی غیبت میں پائی جاتی تھی پس وہ حضرت کے ظھور کے بعد اسی طرح روشن ھوگی ، جس طرح حضرت خضر علیہ السلام کے کشتی توڑنے ، بچہ کو قتل کرنے اور بوسیدہ دیوار کی مرمت کرنے کی حکمت ، حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اس وقت روشن ھوئی تھی جب وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ھونے لگےتھے۔
تذکر : ایسا لگتا ھے کہ مذکورہ روایت میں " حکمت " کا لفظ " علت " کے معنیٰ میں استعمال ھوا ھے۔

غیبت کی حکمت و مصلحت :
غیبت امام مھدی علیہ الصلوۃ والسلام کی علت ووجہ سے آگاھی سے عاجزی ھم بیان کرچکے ھیں البتہ روایات و احادیث میں اس کی کچھ حکمتیں اور مصلحتیں بیان کی گئی ہیں جو ہمارے لئے قابل درک و فہم ہیں ، ان میں سے چند یہ ہیں :
1- امام کی جان کا تحفظ :
بعض روایتوں سے یہ استفادہ ھوتا ھے کہ اللہ عز وجل نے غیبت کے وسیلہ سے امام عصر علیہ الصلوۃ والسلام کو قتل کے خطرہ سے بچا رکھا ھے۔
چونکہ ماحول ایسا تھا کہ اگر حضرت ولادت کے بعد لوگوں کے درمیان ظاھر ھوجاتے تو قتل کر دیئے جاتے ، اسی بنیاد پر عند اللہ جو ان کے ظھور کا معین و مقرر وقت ھے اگر اس سے قبل ظاھر ھوجائیں ،تب بھی یہی خطرہ لاحق ھو سکتا ھے اور اس صورت میں آپ اپنی الہی و دینی ذمہ داریوں اور اصلاحی و تعمیری مقاصد و اھداف انجام نہیں دے سکیں گے۔(8) کافی ، ج ۱، ص ۳۳۷۔

2- طواغیت عصر کی بیعت سے آزادی :
کچھ روایتوں کے مطابق امام عصر علیہ الصلوۃ والسلام کی غیبت کی ایک مصلحت یہ ھے کہ وہ اس بات پر مامور ھیں کہ تقیہ کے طور پر بھی کسی ظالم و طاغوت ٗحکمراں کی بیعت نہ کریں اور الھی و دینی احکام کو مکمل طور پر بغیر کسی پردہ پوشی اور خوف و خطر کے جاری وساری اور نافذ فرمائیں۔
روایت میں واضح طور پر یہ آیا ھے :
وہ غائب ھیں تاکہ اس وقت شمشیر کے ساتھ قیام کریں کہ جب کسی حاکم وحکومت کی بیعت ان کے ذمہ نہ ھو۔ (9) سیرہ پیشوایان ، ص ۶۹۰۔
3 - لوگوں کی تادیب :
جو امت اپنے رسول اور اماموں کی ناقدری کرے اور ان کے سلسلہ میں اپنے وظائف و فرائض پر عمل نہ کرے بلکہ ان کے اوامر و نواہی سے بغاوت کرے تو رواو معقول ہے کہ اللہ تعالی اس سے اس کے امام و رہبر کو جدا کردے تاکہ وہ آپے میں آسکے اور اس کی غیبت کی مدت میں اسکے وجود کی قدر و برکت کو محسوس کر سکے۔
سبحان اللہ کیا کہنا اللہ عز اسمہ کے اہتمام کا ، کہ اس نے وقت ظہور آشکار نہ فرما کر اور تمام ادوار کے اہل اسلام و ایمان کے لئے سلسلہ انتظار کو جاری و ساری قرار دے کر انھیں یہ موقع فراہم کیا ھے کہ وہ اپنے اپنے عہد میں ظہور رونما ہونےکی امید پر اس کے لئے بہترین تلاش و فعالیت انجام دیں اور آنے والے مصلح عالم بشریت کے لئے اپنے سماج کو ایک فعال ، متحرک اور صالح معاشرہ میں تبدیل کرڈالیں۔
4 - بندوں کی آزمائش :
یہ حقیقت ، دینی منابع سے ثابت ھے کہ بندوں کا امتحان ، صالحین کا انتخاب اور پاک و طاھر افراد کا چناؤ اللہ عز و جل کی ثابت سنتوں میں سے ھے۔
زندگی ، مسلسل امتحان و آزمائش کا نام ھے تاکہ بندے دین ، ایمان اور تسلیم و رضا کے سائے میں تربیت پائیں اور اللہ عز و جل کے اوامر و نواھی کی مکمل اطاعت و پیروی کرکے کمال و سعادت تک پہنچیں اور اس طرح ان کی پوشیدہ صلاحیتں اجاگر ھوں ۔
بندوں کا امتحان مختلف ذریعوں سے ھوتا ھے ان میں سے ایک وسیلہ و ذریعہ حضرت امام مھدی علیہ الصلوۃ والسلام کی غیبت ھے۔
جن کا ایمان سست و کمزور ھوگا ، غیبت کی وجہ سے ان کا باطن کھل کر سامنے آجائے گا اور جن کا ایمان قلبی و حقیقی ھوگا ، وہ حضرت کے انتظار ، ظھور کی امید اور شدائد و مصائب میں ایستادگی کے سبب مزید پختہ و شائستہ ھوجائیں گے اور الھی اجر و انعام کے بلند درجہ کو حاصل کرلیں گے۔
غیبت امام علیہ السلام کے ذریعہ بندوں کا امتحان ھونا ، عبد صالح حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ الصلوۃ والسلام سے نقل ھوا ھے آپ نے فرمایا ھے :
اللہ ، غیبت کے ذریعہ سے اپنے بندوں کی آزمائش فرمائے گا۔ (10) سیرہ پیشوایان ، ص ۶۸۸۔
زمانہ غیبت میں امام کے زندگی گزارنے کی کیفیت و نوعیت :
اس حوالے سے علماء کے درمیان تین نظریئے پائے جاتے ہیں :
1۔ امام مھدی علیہ السلام ، جناب عیسیٰ کی طرح لوگوں سے بالکل الگ تھلگ رہ کر زندگی گزارتے ہیں یعنی نہ ان پر ظاھر ہوتے ہیں اور نہ ان کے درمیان حاضر ہوتے ہیں۔
اس نظریہ کے قائلین کی تعداد بہت کم ہے۔
2۔ لوگوں کے درمیان حاضر ہوتے ہیں لیکن ان پر ظاہر نہیں ہوتے اور انھیں دکھائی نہیں دیتے۔
3۔ لوگوں کے درمیان حاضر بھی ہوتے ہیں اور ظاہر بھی ، لیکن لوگ آنحضرت کو پہچان نہیں پاتے، جیساکہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے :
" صاحب الامٍر ، اس اعتبار سے جناب یوسف کی طرح ہیں ، برادران یوسف عاقل و دانا ہونے اور ماضی میں ان کے ساتھ زندگی گزارنے کے باوجود ، اس وقت تک ( مصر میں ان سے مل کربھی)ان کو نہیں پہچان سکے ،جب تک جناب یوسف نے خود اپنا تعارف نہیں کرایا ، جناب یعقوب اور یوسف کے درمیان صرف اٹھارہ دن کی مسافت تھی لیکن انھیں یوسف کی کوئی اطلاع نہیں تھی ، پس کیوں یہ لوگ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ یہی کام اللہ تعالی اپنی حجت صاحب الامر کےلئے بھی انجام دے !؟
وہ حضرت بھی لوگوں کے درمیان آتے جاتے ہیں ، بازاروں سے گزرتے ہیں اور ان کے فرشوں پہ قدم رکھتے ہیں لیکن لوگ انھیں پہچان نہیں پاتے ، وہ اسیطرح سے اس وقت تک زندگی گزاریں گے جب تک خداوند متعال انھیں لوگوں کے درمیان ان کے تعارف کی اجازت نہیں دے گا۔ (11) کمال الدین ج ۲ ، باب ۳۳ ، ص ۳۴۱۔

ظھور کا وقت اور زمانہ :
امام علیہ السلام کا ظھور کب ھوگا !!؟

یہ سوال اکثر و بیشتراہل ایمان وانتظار کی زبان پر آتا رہتا ھے۔
اس اھم سوال کا جواب یہ ھے کہ سرکار امام مھدی علیہ الصلوۃ والسلام کا ظھور فرمانا ، ایک حتمی و یقینی امر ھے لیکن اس کا وقت و زمانہ معین نہیں کیا گیا ھے ، کیونکہ غیبت کی علت و وجہ کی طرح ظھور کے وقت کا پوشیدہ رکھنا بھی اسرار الہی میں سے ھے۔
البتہ روایات میں اس کےقریب الوقوع ھونے کی کچھ خاص علامتیں اور نشانیاں ضرور بتائی گئی ھیں جیسے سفیانی کا خروج اور قتل نفس زکیہ وغیرہ۔
جبکہ اھل بیت طاھرین علیھم السلام کی روایات میں یہ بھی وارد ھوا ھے کہ خداوند متعال نے حکمت و مصلحت کی بنا پر لوگوں سے امام کے ظھور اور اس کے زمانہ کو پوشیدہ رکھا ھے اور کسی پر اسے ظاھر نہیں کیا ھے۔
جیسا کہ حضرت رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے :
" مثلہ الساعۃ التی"لایجلیھا لوقتھا الا ھو ثقلت فی السموات والارض لا یاتینکم الا بغتۃ"(12)
کمال الدین، ج ۲ ،ص ۳۳۷.
یعنی ان ( امام مھدی کی غیبت کی) مثال قیامت کی طرح ہے کہ اس (اللہ) کے علاوہ کوئی اسے آشکار نہیں کرسکتا ، اس کی رسائی آسمانوں اور زمین میں عظیم و سنگین ھے وہ ناگہانی طور پر پیش آئے گی۔
حضرت امام صادق علیہ السلام نے بھی اس سلسلہ میں یوں ارشاد فرمایا ہے :
ہم نے نہ ماضی میں ظھور کا وقت معین کیا ہے اور نہ مستقبل میں اس کا وقت معین کریں گے ۔(13) کتاب الغیبہ ، ص ۴۲۶۔
اس بنیاد پر جو بھی ظھور کا وقت معین کرے گا وہ جھوٹا اور دھوکہ باز ہوگا، چنانچہ حضرت امام باقر علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ھے:
ظھور کا وقت معین کرنے والے جھوٹ بولتے ہیں ،جھوٹ بولتے ہیں ، جھوٹ بولتے ہیں۔ (14)
کافی ، ج ۱ ، ص ۳۶۸۔

امام کے ظھور کی بشارتیں :
اسلامی روایات و احادیث میں بحدٍ وافرحضرت امام مھدی علیہ الصلوۃ والسلام کے ظھور پرنور کی بشارتیں پائی جاتی ھیں۔
لیکن اس مقالہ میں ھم فقط سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ سلم سے نقل ھونے والی بشارتوں کے کچھ نمونے ذکر کررھے ھیں :
1- سعید ابن جبیرنے ابن عباس اور ابن عباس نے سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ سلم سے نقل کیا ھے کہ آپ نے فرمایا :
«ان خلفائي واوصيائي وحجج الله علي الخلق بعدي لأثنا عشر، أولهم أخي و آخرهم ولدي.»
قيل:«يارسول الله! و من أخوک؟»
قال عليه السلام: «علي بن أبي طالب».»
قيل: «ومن ولدک؟»
قال صلي الله عليه و اله و سلم: «المهدي الذي يملأها -أي يملأ الارض - قسطا و عدلا کما ملئت جورا و ظلماو الذي بعثني بالحق بشيرا لو لم يبق من الدنيا الا يوم واحد لطول الله ذلک اليوم حتي يخرج فيه ولدي المهدي، فينزل روح الله عيسي بن مريم فيصلي خلفه و تشرق الارض بنور ربها و يبلغ سلطانه المشرق والمغرب.» (15) کمال الدین ، ج ۱ ، ص۲۸۰
بیشک میرے خلفا ، میرے اوصیا اور میرے بعد اللہ کی مخلوقات پر حجتیں بارہ افراد ھوں گے ،
ان کا پہلا میرا بھائی ھوگا اور آخری میرا بیٹا ھوگا۔
پوچھا گیا: یارسول اللہ آپ کا بھائی کون ھے ؟
آپ نے فرمایا : علی ابن ابی طالب۔
پھر پوچھا گیا : آپ کا بیٹا کون ھے ؟
آپ نے فرمایا : وہ مھدی ھیں جو زمین کو قسط وعدل سے اسی طرح بھر دیں گے جسطرح وہ ظلم و جور سے بھری ھوگی۔
اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بشیر بناکر مبعوث کیا ھے اگر دنیا میں ایک دن کے علاوہ کچھ باقی نہ بچے گا تو اللہ اسی دن کو اتنا طولانی فرمادے گا کہ میرا بیٹا خروج و قیام کرے ، پس عیسیٰ ابن مریم نازل ھوکر اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے چمک اٹھے گی اور اس کی سلطنت مشرق و مغرب میں پھیل جائے گی ۔
2- سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ سلم نے یہ بھی فرمایا ھے :
«المهدي من ولدي، يکون له غيبة و حيرة تضل فيها الامم، يأتي بذخيرة الأنيباء فيملأها عدلاو قسطا کما ملئت جورا و ظلما. (16) کمال الدین، ج۱ ، ص ۲۷۱۔
مھدی میری اولاد سے ھیں ، ان کے لئے ایسی غیبت و حیرت پیش آئے گی جس میں بہت سے گروہ گمراہ ھو جائیں گے ، وہ ذخیرہ انبیا کے ساتھ آئیں گے پس اس ( زمین) کو عدل و قسط سے اسی طرح بھر دیں جس طرح وہ جور و ظلم سے بھری ھوگی۔
3- یہ بھی حضرت مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت ھے :
" المهدي رجل من ولدي لونه لون عربي و جسمه جسم إسرائيلي على خده الأيمن خال كأنه كوكب دري يملأ الأرض عدلا كما ملئت جورا يرضى في خلافته أهل الأرض و أهل السماء و الطير في الجو۔(17) عقدالدرر ، ص ۱۰۰ ، ح ۵۶۔
مھدی میری اولاد سے ھونگے ، ان کا رنگ ، عربی ھوگا اورجسم ، اسرئیلی ھوگا ، ان کے داہنے رخسار پر ستارہ کے مانند چمکتاھوا تل ھوگا ،وہ زمین کو عدل سے اسی طرح بھردیں گے جس طرح وہ ظلم سے بھری ھوگی ، ان کی خلافت میں اھل آسمان اور پرندے فضا میں راضی ھونگے۔
قابل ذکر ھے کہ جسم اسرائیلی سے مراد یہ ھے کہ امام مھدی علیہ الصلوۃ والسلام جسمانی اعتبار سے حضرت موسی علی نبینا و آلہ و علیہ السلام کی طرح قوی ھیکل ھونگے۔
4- حنفی قندوزی نے ابو بصیر سے اور انھوں نے امام جعفر صادق علیہ الصلوۃ والسلام سے اور آپ نے اپنے آبائے طاھرین سے اور ان حضرات نے سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کیا ھے :
" المهدي من ولدي، اسمه اسمي و کنيته کنيتي وهو أشبه الناس بي خلقا و خلقا، تکون له غيبة و حيرة في الامم حتي تضل الخلق عن أديانهم، فعند ذلک يقبل کالشهاب الثاقب، فيملأ الارض قسطا و عدلا کما ملئت ظلما و جورا "۔ (18) بحار الانوار ، ج ۳۹ ، ص۳۰۹۔
یعنی مھدی میری اولاد سےھونگے ، ان کا نام میرا نام ھوگا اور ان کی کنیت میری کنیت ھوگی ، وہ لوگوں میں سب سے زیادہ شکل و صورت اور اخلاق و کردار کے حوالے سے مجھ سے مشابہ ھونگے ، ان کے لئے ایک ایسی غیبت ھوگی جو امتوں کی حیرانی و سرگردانی کا باعث ھوگی ، یہانتک لوگ اپنے دینوں سے گمراہ ھوجائیں گے ، پس اس وقت وہ " شھاب ثاقب" کی طرح نمودار ھوکر زمین کو قسط و عدل سے اسی طرح بھردیں گے جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ھوگی۔
مذکورہ بشارتوں میں حضرت امام مھدی علیہ الصلوۃ والسلام کا تعارف ، ان کے خصوصیات و مشخصات ، ان کی غیبت ، اس کامقصد ، ان کے ظھور کی کیفیت ، اس کے قرب کی نشانیاں اور اس کا ھدف وغیرہ مکمل وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ھے ، لیکن وقت ظھور کا تعین نہیں کیا گیا ھے چونکہ یہ الھی حکمت و مصلحت اور فلسفہ امتحان و آزمائش کے خلاف ھے۔

امام کے ظھور کے شرائط :
یہ شرائط مکمل طور پر ھم پر واضح نہیں ھیں ، چونکہ ظھور بھی غیبت کی طرح اسرار الہی میں سے ھے ، فقط اس کی حقیقت اسی وقت روشن ھوگی جب وہ وقوع پذیر ھوگا۔
لیکن متعدد روایتوں سے استفادہ کرتے ھوئے بعض اھل علم و نظر نے دو چیزوں کو " شرائط ظھور " کے عنوان سے پیش کیا ھے :

1- زمین کا ظلم و ستم سے بھرجانا :
یہ حقیقت ھے کہ بہت سی روایات نے یہ بیان کیا ھے کہ حضرت امام مھدی علیہ الصلوۃ والسلام ظھور فرماکر ظلم و ستم سے بھری دنیا کو عدل و انصاف سے مملو و معمور فرمائیں گے۔
انھیں روایتوں سے بعض اھل علم و نظر نے یہ شرط اخذ کی ھے کہ جب دنیا ظلم و ستم سے بھرجائےگی تبھی امام علیہ السلام ظھور فرمائیں گے۔
کچھ شیعوں نے انھیں روایتوں سے سوء استفادہ کرتے ھوئے ایک نامعقول و غیرمشروع نظریہ بھی تیار کیا ھے جو واقعا قابل مذمت ھے۔
ان کا کہنا ھے کہ ظھور کو جلدی وجود میں لانے کے لئے ضروی ھے کہ فساد اور ظلم وستم کو رواج دیا جائے۔
جبکہ ان روایتوں کی مراد یہ نہیں ھے کہ ظھور کے واقع ھونے کے لئےفساد اور ظلم وستم کو رواج دیا جائے بلکہ مقصود یہ ھے کہ قہری طور پر ظھور سے قبل حالات ایسے ھوجائیں گے کہ دنیا فساد اور ظلم وستم سے بھر جائے گی۔
2 ۔ ظھور سے قبل متعدد قیاموں کا ھونا :
یہ بھی متعدد روایتوں میں آیا ھے کہ حضرت کے ظھور سے قبل بہت سے قیام وجود میں آئیں گے جو امام کے عالمی و جہانی قیام کا زمینہ ھموار کریں گے۔
بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ھے کہ :
ایک حکومت دنیا کے مشرق میں ایک صالح رھبر کے ہاتھوں قائم ھوگی جو ظھور تک باقی رھے گی۔ (19) عصر ظھور، ص ۱۵ تا ۱۹۔
بعض علمامعتقد ھیں کہ وہ حکومت ، یہی انقلاب اسلامی کے ذریعہ قائم ھونے والی ایران کی دینی و اسلامی حکومت ھے۔
تذکر : البتہ ایسا لگتا ھے کہ مذکورہ دونوں چیزوں کو ظھور کی شرطوں کے بجائے "علائم اور نشانیوں " کا نام دینا زیادہ مناسب اور درست ھے۔
ھمارے فرائض :
۱۔ افزائش معرفت وایمان :
یہ زمانہ ، زمانہ انتظار ھے اور اپنے کو عرفانی ، اسلامی اور ایمانی اعتبار سے بنانے اور سنوارنے کا زمانہ ھے۔
اس مھلت و فرصت کے زمانہ میں ھمیں اپنے کو اتنا سنوارنا چاھیئے کہ امام علیہ السلام کی معیت و ھمراھی کے لائق قرار پاسکیں۔
۲۔ قرآن و اھل بیت سے مضبوط وابستگی :
قرآن و اھل بیت ، دین اسلام کے قوانین و ھدایات اور تعلیمات و معارف کا علمی و عملی نمونہ ھیں ، ھمیں اپنے روزمرہ کے اعمال و افعال میں ان کی مکمل پیروی کرنی چاھیئے اور اپنی پوری زندگی کو ان کے زیرسایہ گزارنا چاھیئے۔
۳۔ ہر وقت آمادگی :
امام علیہ السلام کے استقبال کےلئے ھمیں اپنے کو ھروقت آمادہ رکھنا چاھیئے ، اور یہ آمادگی اسی وقت وجود میں آئے گی جب ھم ھر ھر قدم پر اپنے دین و مذھب کے پابند ھونگے۔
۴۔ مسلسل ذکر و یاد :
ھر وقت اللہ ، رسول اور امام وقت کی یاد میں رھنا چاھیئے اور اس یاد و رابطہ کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنا چاھیئے۔
۵۔ دعا و مناجات :
مولا کے ظھور کے لئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں ایک مضطر کی طرح تڑپ تڑپ کر دعا کرنی چاھیئے۔
۶۔فروغ دعوت امر و نہی:
تمام دینی و ایمانی فرائض پر مکمل عمل کے ساتھ خصوصی طور پر بہت شائستہ و موثر طورپر امر بمعروف اور نہی ازمنکر کو فروغ دینا چاھیئے تاکہ صالح سماج وجود میں آسکے۔
۷۔ باعمل علما و مجتہدین کی پیروی :
دینی فقہا و مراجع کی اطاعت و پیروی اور دینی و سیاسی حالات میں ان کی ھدایات پر عمل کرنا چاہیئے تاکہ آخری زمانہ کےگمراہ کن فتنوں سے بچ سکیں۔

نتیجہ :
بعنوان نتیجہ کہا جا سکتا ھے کہ اسلامی روایات و احادیث نے ظھور کے وقوع پذیر ھونے کا کوئی وقت تو معین نہیں کیا ھے چونکہ امام کی غیبت کی طرح وہ بھی اسرار الہی میں سے ھے ، لیکن اس کے وقوع کو یقینی و حتمی قرار دیا ھے۔
لھذا ھمیں اس کا ھر وقت انتظار کرنا چاھیئے اور اس کے حوالہ سے ھمارے جو فرائض ھیں انھیں ضرور انجام دینا چاھیئے۔
اللھم عجل لولیک الفرج واجعلنا من انصارہ و شیعتہ واھلک اعدائہ اجمعین۔

حوالے :
1- ابن منظور ، لسان العرب ، دار الصادر بیروت ، ۱۴۱۴ ھ ،ج ۱۵ ، ص ۳۵۴۔
2- خلیل فراھیدی ، کتاب العین ، نشرھجرت قم ،۱۴۰۶ھق ، ج ۴، ص ۳۷۔
3- فیومی ،المصباح المنیر ، دارالرضی قم ، چاپ اول ۱۴۰۹ھ ق ،ج۲ ،۲۴۶۔
4- بستانی ، فواد افرام ، مھیار ، رضا، فرھنگ ابجدی عربی ۔ فارسی ، انتشارات اسلامی تھران ، چاپ دوم ۱۳۷۵ ھ ش ، ص ۴۴۶ ، واژہ روی۔
5-نصیری ، علی ، حدیث سناسی، انتشارات سنابل قم ، چاپ ۱۳۸۳ ش ، ج ۳ ، ص ۳۰۔
6- المصباح المنیر ، ج ۱ ،ص ۱۲۴۔
7- لسان العرب ،ج ۵ ،ص ۲۱۶
8- شیخ صدوق، علل الشرائع، کتاب فروشی داوری، قم ، چاپ اول، 1385ش ، ج۱ ، ص ۲۴۶۔
9- کلینی ، یعقوب ، کافی ، تھران ، دارالکتب الاسلامیہ ، ۱۳۸۸ق ، ج ۱، ص ۳۳۷۔
10- پیشوائی ، مھدی ، سیرہ پیشوایان ، قم ، موسسہ امام صادق علیہ السلام ، ۱۳۹۰ ش ، ص ۶۹۰۔
11- حوالہ سابق ، ص ۶۸۸۔
12- صدوق ، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمة، ترجمه: منصور پهلوان، قم ، دارالحدیث، ۱۳۸۰ ش ، ج ۲ ، باب ۳۳ ، ص ۳۴۱.
13- حوالہ سابق ، ج ۲ ،ص ۳۳۷.
14- الطوسی، الشیخ ابوجعفر، محمد بن الحسن بن علی بن الحسن (متوفای۴۶۰ه)، کتاب الغیبه، تحقیق الشیخ عباد الله الطهرانی، الشیخ علی احمد ناصح، ناشر:مؤسسة المعارف الاسلامیة ، ص ۴۲۶.
15- کافی ، ج ۱ ، ص ۳۶۸.
16- کمال الدین ، ج ۱ ، ص۲۸۰۔
17- حوالہ سابق ،ص ۲۷۱۔
18- شافعی ، یوسف بن یحییٰ ، عقد الدرر فی اخبار المنتظر ، قم ، انتشارات مسجد مقدس جمکران ، ۱۴۲۸ ق ، چاپ سوم ، ص ۱۰۰ ، ح ۵۶پ
19- مجلسی ، محمدباقر ، بحارالانوار، تھران ، انتشارات اسلامیہ ، بی تا ، ج ۳۹ ، ص۳۰۹۔
20- کورانی ، علی ، ترجمہ مھدی حقی ، عصر ظھور ، قم ، نشر سپھر ، ۱۳۹۱ش ، ص ۲۱۵ تا ۲۱۹۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .