۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
محمد صرفی

حوزہ/ ماہ مبارک رمضان مغفرت اور رحمت کا مہینہ ہے اس پر برکت اور رحمت خدا کے مہینہ میں سب سے اہم نکتہ جو قابل ذکر ہے وہ یہ کہ یہ مہینہ ہمارے آقا حضرت صاحب الزمان کے وجود پر برکت کی دلیل ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،دبیرخانہ شہید سردارسلیمانیؒ قم،ایران میںماہ رمضان کے ایام میں مختلف پروگرام کاسلسلہ جاری ہے تقاریرکاسلسلہ بھی بہت منظم اوردقیق اندازمیں نمایاں ہے جسے ہرنے بہت پسند کیا،آجکی اس تقریرمیں حجۃ الاسلام و المسلمین آقای صرفی کو دعوت دی گئی،آپنے عنوان مذکورہ پرروشنی ڈالتے ہوئے فرمایا!ی ماہ مبارک رمضان مغفرت اور رحمت کا مہینہ ہے اس پر برکت اور رحمت خدا کے مہینہ میں سب سے اہم نکتہ جو قابل ذکر ہے وہ یہ کہ یہ مہینہ ہمارے آقا حضرت صاحب الزمان کے وجود پر برکت کی دلیل ہےقرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:(تنزل الملائکۃ والروح فیھا باذن ربھم من کل امر.)

یہ بات مسلم الثبوت ہے کہ ملائکہ جو شب قدر میں زمین پر نازل ہوتے ہیں وہ نرجس کے پھول حضرت بقیۃ اللہ الاعظم کے وجود کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور انھیں کی ذات گرامی ہے جو اس آیہ کریمہ کا مصداق حاضر ہیں. خود ائمہ معصومینعلیھم السلام نےاس بات کی طرف اشارہ کیا ہےکہ اگر اپنے مخالفین سے حضرت مھدی(عجل) کے وجود با برکت کےسلسلہ میں بحث ومباحثہ کی ضرورت ہوتی تواس آیہ کریمہ سےاستدلال کرو، چونکہ قرآں کریم نے ملائکہ کے نزول کی طرف اشارہ کیا ہے۔

لہذا مخالفین حضرات مھدی (عجل) کے وجود با برکت کے علاوہ کسی اور ذات کو اس کا مصداق قرار نہیں دے سکتے، پس حضرت امام صادق (ع) کرفرمایش کےمطابق سب سے پہلا نکتہ جو قابل اہمیت ہے وہ یہ کہ ماہ مبارک میں وجود با برکت امام زمانہ(عجل)کو ثابت کیا جا سکتا ہے. ہمارے اھل سنت برادران کی موثق کتابوں میں حضرت امام مھدی(عجل)کے وجود با برکت پر بہت ساری روایتیں موجود ہیں انکےوہاں حضرت مھدی(عجل)کا وجود ثابت شدہ ہے، بلکہ نہ صرف یہ کہ صرف اسلامی فرقوں کے درمیان حضرت مھدی (عجل) کا وجود ثابت ہے بلکہ دیگر ادیان بھی ایک مسیحی عالم کے عقیدہ پر پائیدار اور ثابت قدم ہیں۔

آجکی تقریر کاترجمہ حجۃ الاسلام والمسلمین مولانامحمدکامل صاحب قبلہ وکعبہ نے بہت ہی اچھے اندازمیں کیا مترجم مقرر نے اس سلسلے میں مزیدفرمایا!پس ہمارےاوردیگرمذاہب کےدرمیان صرف اتنا فرق پایاجاتا ہےکہ ہم اور دوسرے مذاہب کے درمیان قدرے اختلاف کے ساتھھ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ وہ ابھی پیدا نہیں ہوئے یا ہمیں انکی ولادت کے بارے میں معلوم نہیں ہے یا یہ کہ جب ظھور کا زمانہ نزدیک ہوگا تو حضرت مھدی کی ولادت ہوگی اور دنیا میں تشریف لائیں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، البتہ یہ بات بھی دیگر روایات کے تناظر میں جو یہ کہتی ہیں کہ جب ظھور ہوگا تو حضرت کی عمر چالیس سال ہوگی، اس کے پیش نظر اگر آیندہ جمعہ کو خدا کی طرف سے انکا ظھور مقرر ہوجائے تو ضروری ہے کہ حضرت کم از کم چالیس سال پہلے اس دنیا میں تشریف لا چکے ہوں۔

البتہ اھلسنت برادران ایک سطحی اور غیر علمی بنیاد کی بناپر کہتے ہیں کہ حضرت کی ولادت نہیں ہوئی ہے بلکہ انھیں اس سلسلہ میں اپنی لا علمی کا اعتراف کرنا چاہئے کیونکہ اگر ظھور آئندہ ھفتہ ہو جائے تو یہ بات مسلم ہے کہ آپکی ولادت چالیس سال پہلے ہو چکی ہے، اسکے بعد جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ حضرت مھدی (عجل) کی معرفت اس پر برکت مہینہ میں حاصل کرنے کی ہے. آپ دعائے افتتاح کے جملوں کی طرف ملاحظہ فرمائیں اس با عطمت دعا میں امام زمانہ (عجل) کا ذکر ملتا ہے: الھم انا نرغب الیک فی دولۃ کریمۃ. یعنی صبح سے شام تک ایک مرد مؤمن روزہ دار کا پورا شوق و اشتیاق اور اسکا عشق امام زمانہ (عجل) کی حکومت کریمہ میں خلاصہ ہوتا ہے یعنی ایک روزہ دار صبح سے شام تک اطاعت الھی میں پورا دن گزار کر افطار کےوقت دعائے افتتاح میں اپنے لمام کی حکومت کی دعاء کرتا ہے. ہم اپنے پروردگار سے دعا کرتے ہیں کہ جزو منتظرین دولت قرار پائیں اوریہ حکومت کریمہ سے وصل کردے۔

مولاناموصوف نے ذکرکیاکہ!لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف دعا کرنا کافی ہے، نہیں صرف دعا کرنا یقینا کافی نہیں ہوگا بلکہ دعا کے ساتھ تعجیل ظھور کے لئے عملی قدم اٹھانا بہت ضروری ہے اور صرف حکومت کریمہ کے لئے دعاء کرنا اور عملی قدم نہ اٹھانا یقینا دشمن کے جال میں پھنسنے کے مترادف ہے بلکہ عالمی پیمانہ پر ظھور کے لئے گفتگو کرنا اور اس سلسلہ میں عملی اقدام کرنا ہی ظھور کے لئے روستہ ہموار کرنا ہے جیسا کہ قرآن کا ارشاد گرامی ہے: و نرید ان نمن علی الذین استضعفو فی الارض... یعنی حکومت کریمہ مستضعفان عالم ک لئے ہے پس جو امام زمانہ(عجل) کے سپاہی اور فداکارکہلاتے ہیں ضروری ہےکہ ہم عالمی پیمانہ پر تمام مستضعفین کو ان باتوں سے آگاہ کریں اور انھیں بیدار کریں،طخدا وندعالم ہم سبکو حقیقی پیروان امام زمانہ بننے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سبکو انکے ناصروں میں قرار دے انشاء اللہ الھی آمین.

تبصرہ ارسال

You are replying to: .