تحریر: مولانا ظہور مہدی، مسجد جامع ولئ عصر، مہاجنگا، مڈگاسکر، افریقہ
حوزہ نیوز ایجنسی | "عید" اور " فطر" دونوں عربی لفظ ہیں ، اور "عید فطر" در اصل ماہ شوال المکرم کے پہلے دن کو کہا جاتا ہے ، البتہ اس مرکب کلمہ کا مطلب " فطرت کی طرف واپسی" ہوتا ہے۔
مشہور و معروف قرآنی تفسیر " نمونہ " میں مرقوم ہے کہ اس دن کو " عید فطر "اس لئے کہا جاتا ہے کہ انسان ، ماہ مبارک رمضان میں اللہ رب العزت کی مسلسل طاعت و عبادت بجا لانے کی وجہ سے اس دن اپنی فطری طہارت و پاکیزگی کی طرف پلٹ آتا ہے اور خلاف فطرت آلودگیوں اور کثافتوں سے دور ہوجاتا ہے۔(1)
مذکورہ مفہوم سے پتہ چلتا ہے کہ عید فطر درحقیقت "جشن طہارت و پاکیزگی" کا نام ہے۔
لہذا ہمیں یہ دن جائز تفریح و آسودگی کے ہمراہ خداوند متعال کے ذکر و شکر اور اس اہم دعا کے ساتھ گزارنا چاہیئے کہ:
اے رب کریم ، ماہ مبارک رمضان کے طاعت و عبادت بھرے زمانہ کی وجہ سے تونے جو فطری و معنوی طہارت و پاکیزگی ہمیں عطا فرمائی ہے ، اسے ھمیشہ باقی رکھنے کی توفیق عنایت فرما۔
قرآن حکیم اور عید فطر
عید فطر ایک ایسا باعظمت عالمی دینی و اسلامی "جشن طہارت و پاکیزگی " ہے کہ جس کی حرمت و اہمیت کی طرف قرآن حکیم نے تین مقامات پر اشارے کئے ہیں :
۱۔خداوند کریم و حکیم نے سورہ مبارکہ بقرہ میں ارشاد فرمایا ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ۔(1)
یعنی رمضان کا مہینہ وہ ہے ، جس میں قرآن لوگوں کی راہنمائی ، ہدایت کی روشن دلیلوں اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے کی غرض سے اتارا گیا ہے ، پس جو تم میں سے اس مہینہ میں حضر (اور وطن) میں ہو وہ روزے رکھے اور جو مریض ہو یا سفر میں ہو ، وہ دوسرے دنوں میں اسی تعداد کے برابر روزے رکھے۔
اللہ تمھارے لئے آسانی چاہتا ہے ، وہ تمھارے لئے سختی و دشواری نہیں چاہتا ( روزوں کی یہ قضا) اس لئے ہے تاکہ تم مقررہ تعدار و مقدار کامل کرلو اور اللہ کی کبریائی اور بڑائی بیان کرو اس پر کہ اس نے تمھیں ہدایت فرمائی ہے اور شاید تم اس کے شکر گزار بن جاؤ۔
قابل ذکر ہے کہ اس آیہ کریمہ میں "و لتکملوا العدۃ و لتکبروا اللہ علی ماھداکم " سے شب و روز عید فطر میں تکبیریں کہنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ،
جیساکہ سعید نقاش نے حضرت امام جعفر صادق علیہ الصلوۃ والسلام سے روایت کی ہے کہ امام علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:
میرے لئے عید فطر کی رات میں تکبیر قراردی گئی ہے لیکن وہ واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے۔
وہ کہتا ہے میں نے پوچھا: کن اوقات میں ؟
تو آپ نے فرمایا :
عید کی رات مغرب و عشاء اور فجر کی نماز کے بعد اور (پھر ) نماز عید کے بعد ، پھر( یہ سلسلہ) منقطع ہو جاتا ہے۔
میں نے عرض کی ، کس طرح تکبیر کہوں ؟ تو فرمایا:
اس طرح کہو : اللہ اکبر ، اللہ اکبر ، لا الہ الا اللہ واللہ اکبر ، اللہ اکبر ، و للہ الحمد ، اللہ اکبر علی ما ھدانا۔
(پھر فرمایا) اللہ کے کلام " ولتکملو العدۃ و لتکبرواللہ علی ما ھداکم " سے یہی مراد ہے۔(2)
۲۔ خداوند متعال نے سورہ مبارکہ اعلیٰ میں ارشاد فرمایا ہے :
"قد افلح من تزکیٰ" (3)
یعنی یقیناً کامیاب ہوا ، وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی۔
۳۔ پھر سورہ مبارکہ اعلیٰ ہی میں ارشاد ہوا ہے:
"و ذکر اسم ربہ فصلیٰ"(4)
یعنی اور وہ (کامیاب ہوا) جس نے اپنے رب کے نام کو یاد کیا ، پھر نماز پڑھی۔
یہ دونوں آیتیں بھی عید فطر کے پاک و پاکیزہ دن سے متعلق ہیں ، دلیل یہ ہے کہ ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ الصلوۃ والسلام سے پوچھا:
آیہ" قد افلح من تزکی " سے مراد کیا ہے تو آپ نے فرمایاکہ:
جس نے زکات فطرہ دی وہ کامیاب ہوا۔
(اور ظاہر ہے کہ زکات فطرہ دینا ، اس عظیم الشان دن کا ایک واجب عمل ہے)۔
پھر اس نے پوچھا :
آیہ " و ذکر اسم ربہ فصلیٰ " سے کیا مراد ہے تو آپ نے فرمایا کہ:
اور جو جبانہ ( صحرا)کی طرف جائے اور نماز (عید ) پڑھے۔(5)
قرآن حکیم کی مذکورہ تین آیتوں میں اس عید کا تذکرہ ہونا ، بلاشبہ اس کے عظیم مقام و مرتبہ پر دلالت کرتا ہے ، لہذا جملہ اہل اسلام و قرآن کو اس عظیم و مبارک دن کا بہت پاس و لحاظ رکھنا چائیے اور کوئی بھی ایسا عمل انجام نہیں دینا چاہیئے ، جو اس کی حرمت و قداست کے منافی ہو۔
احادیث اور عید فطر :
عید فطر کے سلسلہ میں وارد ہونے والی حدیثوں اور روایتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان سب کو یہاں پیش کرنا ایک مشکل امر ہے ، لہذا ذیل میں صرف چند احادیث کو نقل کیا جا رہا ہے:
۱۔حدیث سرکار مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :
فَإِذَا کَانَتْ لَیْلَةُ الْفِطْرِ وَ هِیَ تُسَمَّی لَیْلَةَ الْجَوَائِزِ أَعْطَی اللَّهُ الْعَاملینَ أَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ فَإِذَا کَانَتْ غَدَاةُ یَوْمِ الْفِطْرِ بَعَثَ اللَّهُ الْمَلَائِکَةَ فِی کُلِّ الْبِلَادِ فَیَهْبِطُونَ إِلَی الْأَرْضِ وَ یَقِفُونَ عَلَی أَفْوَاهِ السِّکَکِ فَیَقُولُونَ یَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ اخْرُجُوا إِلَی رَبٍّ کَرِیمٍ یُعْطِی الْجَزِیلَ وَ یَغْفِرُ الْعَظِیمَ ، فَإِذَا بَرَزُوا إِلَی مُصَلَّاهُمْ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ لِلْمَلَائِکَةِ مَلَائِکَتِی مَا جَزَاءُ الْأَجِیرِ إِذَا عَمِلَ عَمَلَهُ قَالَ فَتَقُولُ الْمَلَائِکَةُ إِلَهَنَا وَ سَیِّدَنَا جَزَاؤُهُ أَنْ تُوَفِّیَ أَجْرَهُ قَالَ فَیَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فَإِنِّی أُشْهِدُکُمْ مَلَائِکَتِی أَنِّی قَدْ جَعَلْتُ ثَوَابَهُمْ عَنْ صِیَامِهِمْ شَهْرَ رَمَضَانَ وَ قِیَامِهِمْ فِیهِ رِضَایَ وَ مَغْفِرَتِی وَ یَقُولُ یَا عِبَادِی سَلُونِی فَوَ عِزَّتِی وَ جَلَالِی لَا تَسْأَلُونِّی الْیَوْمَ فِی جَمْعِکُمْ لِآخِرَتِکُمْ وَ دُنْیَاکُمْ إِلَّا أَعْطَیْتُکُمْ وَ عِزَّتِی لَأَسْتُرَنَّ عَلَیْکُمْ عَوْرَاتِکُمْ مَا رَاقَبْتُمُونِی وَ عِزَّتِی لَآجَرْتُکُمْ وَ لَا أَفْضَحُکُمْ بَیْنَ یَدَیْ أَصْحَابِ الْخُلُودِ انْصَرِفُوا مَغْفُوراً لَکُمْ قَدْ أَرْضَیْتُمُونِی وَ رَضِیتُ عَنْکُمْ
قَالَ فَتَفْرَحُ الْمَلَائِکَةُ وَ تَسْتَبْشِرُ وَ یُهَنِّئُ بَعْضُهَا بَعْضاً بِمَا یُعْطِی اللَّهُ هَذِهِ الْأُمَّةَ إِذَا أَفْطَرُوا.(6)
سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے کہ :
جب عید فطر کی رات کہ جسے انعامات کی رات کہا جاتا ہے ، آتی ہے تو اللہ عمل کرنے والوں کو بغیر حساب کے اجر عطا فرماتا ہے اور جب عید فطر کی صبح آتی ہے تو اللہ تمام شہروں میں فرشتوں کو بھیجتا ہے ، پس وہ زمین پر اتر کر گلیوں کے کنارے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں:
اے محمد کی امت والو! نکلو کریم پروردگار کے لئے کہ وہ بہت جزا د یتا ہے اور بڑے بڑے گناہ معاف کر دیتا ہے۔
پس جب ( امتی) نماز عید ( ادا کرنے کے لئے ) اس کے مقام پہ پہنچ جاتے ہیں تو اللہ عز و جل فرشتوں سے فرماتا ہے :
اے میرے فرشتو! جب کام کرنے والا ، پورا کام کردے تو اس کی جزا کیا ہوتی ہے؟
پس فرشتے جواب دیتے ہیں : اے ہمارے معبود اور سید و آقا ، اس کی جزا یہ ہے کہ اسے مکمل اجر عطا کرے۔
پس اللہ فرماتا ہے : اے میرے فرشتو! میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ماہ رمضان میں ان (بندوں) کے صیام و قیام کا ثواب اپنی رضا و خوشنودی اور بخشش و مغفرت کو قرار دیا ہے۔
پھر اللہ ( اپنے بندوں سے خطاب کر کے ) فرماتا ہے:
اے میرے بندو! مجھ سے سوال کرو ، پس اپنی عزت و جلال کی قسم کہ آج اس اجتماع میں تم اپنی آخرت اور دنیا سے متعلق جو بھی طلب کروگے ، میں ضرور عطا کروں گا ، اور اپنی عزت کی قسم جب تک تم مجھے اپنا محافظ قرار دو گے اور مجھ سے ڈرتے رہو گے ، میں تمھارے عیبوں کو چھپاتا رہوں گا اور اپنی عزت کی قسم میں تمھیں عذاب سے پناہ دوں گا اور جو لوگ ھمیشہ جہنم میں رہنے والے ہیں ان کے سامنے تمھیں رسوا نہیں کروں گا۔
(اب) پلٹ جاؤ ( اپنے گھروں کی طرف) کہ تمھیں بخش دیا گیا ہے ، تم نے مجھے خوش کیا ہے ، میں تم سے خوش ہوں۔
سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں :
پس ( یہ سن کر ) فرشتے خوش ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو بشارت اور تہنیت پیش کرتے ہیں ، اللہ کے اس فضل و کرم پر جو اس نے ماہ رمضان کے خاتمہ پر اس امت کو عنایت فرمایا ہے۔
۲۔ حدیث امیر المومنین مولا علی علیہ الصلوۃ والسلام :
انما ھو عید لمن قبل اللہ صیامہ و شکر قیامہ ، و کل یوم لا یعصی اللہ فیہ فھو عید(7)۔
عید فقط اس کے لئے ہے کہ اللہ نے جس کے صیام و قیام کو قبول فرما لیا ہو اور ہر وہ دن ، جس میں اللہ کی معصیت و نافرمانی نہ کی جائے ، عید کا دن ہے۔
حضرت مولا امام امیر المومنین علیہ الصلوۃ والسلام کی اس حدیث مبارک سے چند باتیں سمجھ میں آتی ہیں :
الف : روز عید خوشی منانے کا حق فقط اسے ہے جس نے ماہ رمضان کو صیام و قیام کے عالم میں اس طرح گزارا ہو ، کہ اس کی یہ سعی و کوشش بارگاہ الہی میں قبول ہونے کے لائق قرار پا گئی ہو۔
ب : یہ روز عید فقط اللہ تعالی کے مطیع و فرمانبردار بندوں سے مخصوص ہے۔
ج : اس عید کا اللہ تعالی کے باغی و عاصی بندوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
د : حقیقت یہ ہے کہ عید ، اللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری سے تشکیل پاتی ہے ، لہذا اللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری سے مزین کر کے انسان اپنی زندگی کے ہردن کو "روز عید" بنا سکتا ہے۔
ھ : روز عید ، طاعت و عبادت اور طہارت و پاکیزگی کا دن ہے ، لہذا گناھوں کی کثافت و آلودگی سے اس کی قداست و پاکیزگی کو ٹھیس پہنچانا ، اس پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔
و : ھنر یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر دن کو روز عید بناڈالے ، جبکہ بہت بڑا عیب یہ ہے کہ کوئی اپنے پروردگارکی بنائی ہوئی عید کو بھی اس کی نافرمانی کر کے اپنے لئے عید نہ رہنے دے۔
۳۔ حدیث حضرت امام رضا علیہ الصلوۃ والسلام :
انما جعل یوم الفطر العید لیکون للمسلمین مجتمعاً یجتمعون فیہ و یبرزون اللہ عز و جل فیمجدونہ علی ما من علیہم فیکون یوم عید و یوم اجتماع و یوم زکٰوۃ و یوم رغبۃ و یوم تضرع (8)۔
حجت خداوند متعال ، فرزند رسول مولا امام رضا علیہ الصلوۃ والسلام اس حدیث میں روز فطر ( پہلی شوال ) کو عید قرار دئے جانے کی وجہ اس طرح بیان فرماتے ہیں:
روز فطر کو عید اس لئے قراردیا گیا ہے ، تاکہ مسلمان اس دن ایک جگہ جمع ہوں اور اللہ عز و جل کے حضور حاضر ہو کر اس کی تمجید و تعظیم بجالائیں ، اس فضل و احسان پر جو اس نے ان پر فرمایا ہے۔
پس یہ دن ، روز عید ہے ، روز اجتماع ہے ، روز زکات ( فطرہ) ہے ، روز رغبت ( اللہ کی طرف توجہ اور رغبت کا دن) ہے اور روز تضرع ( بارگاہ الہی میں فروتنی اور گڑ گڑانے کا دن) ہے۔
واقعاً غور و فکر اور محاسبہ کا مقام ہے کہ ہمارے رسول و ائمہ طاھرین علیہم السلام کی نگاہ میں عید کی حقیقت کیا ہے اور ہم اسے کس طرح مناتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ہم نے عید کی واقعیت و حقیقت کو بہت حد تک مسخ کر ڈالا ہے اور اس کے ساتھ واقعاٌ ظلم و زیادتی سے کام لیا ہے۔
لیکن اللہ تعالی غفور و رحیم ہے ہمیں اب تک کے کئے ہوئے گناہوں پر دل سے نادم ہونے کے بعد اس سے معافی مانگنی چاہیئے اور اس کی بارگاہ اقدس میں یہ عہد کرنا چاہیئے کہ :
اے عید سعید کے اور ھمارے پروردگار !! تیری مدد کے سہارے اب ہم روز عید کو بیہودہ خرافات سے ضرور پاک کریں گے اور اس کی کھوئی ہوئی عظمت و قداست کو ضرور واپس لائیں گے۔ آمین
حوالے:
1- قرآن مجید ، سورہ بقرہ ، آیت 185۔
2- عاملی حر ، وسائل الشیعہ ، ج 7 ، ص 455۔
3- قرآن مجید ، سورہ اعلیٰ ، آیت 14۔
4- قرآن مجید ، سورہ اعلیٰ ، آیت 15۔
5- شیخ صدوق ، من لا یحضر الفقیہ ، ج 2 ، ص 501 ، ح 1474۔
6- سید ابن طاؤس ، اقبال الاعمال ، ج 1،ص 25۔
7- نہج البلاغہ ، کلمات قصار ، حکمت 428۔
8- شیخ حر عاملی ، وسائل الشیعہ ، ج 5 ، ص 141۔