تحریر : مولانا ظہور مہدی، مقیم حال : مہاجنگا، مڈگاسکر
حوزہ نیوز ایجنسی | اہل علم و نظر جانتے ہیں کہ ہفتہ کی راتوں میں سب سے با عظمت رات " شب جمعہ " ہے۔
عام مہینوں کی راتوں میں سب سے با عظمت رات " شب نیمہ شعبان " ہے ، اور پورے سال کی تمامتر راتوں میں سب سے با عظمت اور افضل و برتر رات " شب قدر "ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ " شب قدر " وہ عظیم المرتبت رات ہے کہ جس کی برابری کوئی رات نہیں کر سکتی ، چونکہ وہ بنص قرآن ہزار مہینوں سے افضل و برتر ہے" لیلۃ القدر خیر من الف شھر" (1)۔
البتہ کچھ راتیں ایسی ضرور ہیں ، جو عظمت و رفعت میں اس سے مشابہت رکھتی ہیں ، انھیں میں سے ایک رات " لیلۃ الجوائز " ہے۔
لیلۃ الجوائز یعنی کیا ؟
ہمارے درمیان لوگوں کی اچھی خاصی تعداد ایسی ہے جو ایک حد تک " لیلۃ الرغائب " کو تو جانتی ہے ، لیکن شاید " لیلۃ الجوائز " سے آشنا نہیں ہے۔
لیلۃ الجوائز کا مطلب ہے " انعامات کی رات "، لیکن یہ " انعامات کی رات " کون سی ہے ؟ اس میں انعامات کون دیتا ہے ؟ کن لوگوں کو دیتا ہے ؟ کس وجہ سے دیتا ہے ؟ اور انعامات کس مقدار میں دیتا ہے ؟
یہ سارے سوالات ایسے ہیں ، کہ جن کے شافی جوابات " لیلۃ الجوائز " سے آشنا ہونے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں ، لہذا ہم یہاں بالترتیب مذکورہ سوالوں کے جوابات تحریر کر رہے ہیں :
پہلے سوال کا جواب :
لیلۃ الجوائز ، عید فطر کی رات کا باعظمت نام ہے اور یہ مبارک نام اس رات کو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے دیا گیا ہے۔
دوسرے سوال کا جواب :
اس باعظمت رات میں انعامات خود خداوند متعال تقسیم فرماتا ہے۔
تیسرے سوال کا جواب :
یہ انعامات ھمارا محسن و منعم پروردگار اپنے عمل کرنے والے بندوں کو مرحمت فرماتا ہے۔
چوتھے سوال کا جواب :
خداوند رؤف و مہربان یہ انعامات اپنے بندوں کو ان کے ماہ رمضان میں کئے ہوئے نیک اعمال کی وجہ سے عنایت فرماتا ہے۔
پانچویں سوال کا جواب:
اللہ عز و جل یہ انعامات " بے حساب اجر و ثواب " کی شکل میں عطا فرماتا ہے۔
توجہ رہے کہ ہم نے یہ مذکورہ جوابات سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس ایک حدیث مبارک سے حاصل کئے ہیں:
" فاذا کانت لیلۃ الفطر وھی تسمیٰ لیلۃ الجوائز اعطی اللہ العاملین اجرھم بغیر حساب(2)۔
یعنی پس جب فطر کی رات آتی ہے اور وہ وھی رات ہے کہ جس کا نام " لیلۃ الجوائز " ہے تو اللہ ، عمل کرنے والے بندوں کو بے حساب اجر عطا فرماتا ہے۔
شب قدر سے اس رات کی مشابہت:
احادیث و روایات میں شب قدر کی طرح اس رات میں بھی کچھ اعمال بجالانے کی تاکید کی گئی ہے مثلاٌ :
۱۔ غسل :
شب قدر کی طرح اس رات میں بھی دو غسل کرنا مستحب ہے ، جیساکہ علامہ سید ابن طاؤس علیہ الرحمہ نے " اقبال الاعمال" میں تحریر کیا ہے :
اگر انسان باخبر ہو جائے کہ یہ رات ، عید فطر کی رات ہے تو مستحب کہ غروب آفتاب سے پہلے غسل بجالائے اور دوسری روایت میں آیا ہے کہ مستحب ہے اس رات کے آخر میں بھی غسل بجالائے۔(3)
۲۔ شب بیداری :
شب قدر کی طرح اس رات کو نماز ، دعا اور توبہ و استغفار کے ساتھ جاگ کر گزارنا مستحب ہے۔
حضرت امام صادق علیہ الصلوۃ والسلام اپنے پدر زرگوار حضرت باقرالعلوم امام محمد باقر علیہ الصلوۃ والسلام سے نقل کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
" کان علی ابن الحسین یحیی لیلۃ عید الفطر بصلاۃ حتی یصبح و یبیت لیلۃ الفطر فی المسجد و یقول : یابنی ما ھی بدون لیلۃ یعنی لیلۃ القدر(4)۔
یعنی (حضرت امام ) علی ابن الحسین( زین العابدین علیھما الصلوۃ والسلام ) عید فطر کی رات نماز کے ہمراہ جاگ کر گزارتے تھے یہانتک کہ صبح ہوجاتی تھی اور شب عید فطر مسجد کے اندر شب گزاری کرتے تھے اور فرماتے تھے :
اے مرے لال !! یہ رات شب قدر سے کم نہیں ہے۔
۳۔ زیارت حضرت سیدالشہداء امام حسین علیہ الصلوۃ والسلام:
شب قدر کی طرح اس رات بھی سرکار سید الشہداء علیہ الصلوۃ والسلام کی قبر مبارک کی زیارت کرنے کی روایات میں بہت فضیلت وارد ہوئی ہے۔
معتبر سند کے ساتھ حضرت امام صادق علیہ الصلوۃ والسلام سے روایت کی گئی ہے کہ :
جو بھی تین راتوں میں سے کسی ایک رات میں قبر حسین( علیہ الصلوۃ والسلام ) کی زیارت بجا لائے گا ، اس کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔
راوی نے عرض کی : میں آپ پر قربان جاؤں ،
وہ تین راتیں کون سی ہیں ؟
تو آپ نے فرمایا :
شب عید فطر ، شب عید قربان اور شب نیمہ شعبان (5)۔
ظاہر ہے کہ اللہ عز و جل نے بہت سے دنوں اور راتوں کو عظمت و فضیلت عطا فر ما کر ہماری فلاح و نجات اور سعادت و خوشبختی کا سامان فراہم کرنا چاہا ہے۔
لہذا ہمیں اپنے بے پناہ عطوف و مہربان پروردگار کے اس انتظام و اہتمام پر شکر و سپاس بجا لاتے ہوئے ضرور اس سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیئے۔
و آخر دعواناان الحمد للہ رب العالمین۔
حوالے :
۱۔ قرآن حکیم ، سورہ قدر ، آیہ ۳۔
۲۔ شیخ مفید ، الامالی ، مجلس ۲۷ ، ص ۲۳۲۔
۳۔ اقبال الاعمال ، جزء اول ، ابواب احکام شہر رمضان ، باب ۳۶، مخصوص بہ شب عیدفطر۔
۴۔ حوالہ سابق۔
۵۔ ابن قولویہ ، کامل الزیارات ، باب ۷۲ ، ص ۱۷۹ ، حدیث ۲۔