۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا ظہور مہدی مولائی

حوزہ/عشرۂ کرامت ماہ ذوالقعدۃ الحرام کے ان ابتدائی باعظمت و باکرامت گیاره دنوں کو کہا جاتا ہے جوحضرت امام رضا علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی خواہر گرامی جناب مصومہ قم علیھا السلام کی ولادت باسعادت کی یاد سے منسوب و متعلق ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی|
عشرہ کرامت کا تعارف:
عشرۂ کرامت ماہ ذوالقعدۃ الحرام کے ان ابتدائی باعظمت و باکرامت گیاره دنوں کو کہا جاتا ہے جوحضرت امام رضا علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی خواہر گرامی جناب مصومہ قم علیھا السلام کی ولادت باسعادت کی یاد سے منسوب و متعلق ہیں۔
ان دنوں کو " عشرہ کرامت" کا باعظمت و خوبصورت نام و عنوان ، انقلاب اسلامی ایران کی شاندار کامیابی کے بعد دیا گیا ہے۔
اس مبارک عشرہ کا آغاز چونکہ خاتون کرامت جناب معصومہ قم علیھا السلام کے روز ولادت سے ہوتا ہے اس لئے اس مختصر تحریر میں ان بی بی کےفضائل و مناقب کے چند گوشے اور ان سے حاصل ہونے والے کچھ پیغامات آپ قارئین کرام کے پیش خدمت ہیں :
الف، ولادت معصومہ سے پہلے مدح و ثنائے معصومہ :
قَالَ مولاناالصَّادِقُ علیہ السلام :
إِنَّ لِلَّهِ حَرَماً وَ هُوَ مَکةُ وَ لِرَسُولِهِ حَرَماً وَ هوَ الْمدِینَةُ وَ لِأَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ حَرَماً وَ هُوَ الْکوفَةُ وَ لَنَا حَرَماً وَ هُوَ قُمُّ وَ سَتُدْفَنُ فِیهِ امْرَأَةٌ منْ وُلْدِی تسَمَّی فاطِمَةَ مَنْ زَارَهَا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ. قَالَ الرَّاوِی وَ کانَ هَذَا الْکلَامُ مِنْهُ قَبْلَ أَنْ یولَدَ الْکاظِمُ۔(1)
جناب معصومہ سلام اللہ علیھا کی ولادت سے تقریبا ۴۵ سال قبل مصحف ناطق حضرت امام صادق علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا ہے :
بیشک اللہ کا ایک حرم ہے اور وہ مکہ ہے ، اس کے رسول کا ایک حرم ہے اور وہ مدینہ ہے ، امیرالمومنین کا ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے اور ہمارا ایک حرم ہے اور وہ قم ہے ، عنقریب وہاں میری اولاد میں سے " فاطمہ " نامی ایک خاتون دفن ہوگی جو اسکی زیارت کرے گا وہ جنت میں ضرور جائے گا۔
راوی کہتا ہے یہ کلام آنحضرت سے اس وقت صادر ہوا ہے جب آپ کے فرزند ارجمند حضرت امام کاظم علیہ السلام دنیا میں تشریف نہیں لائے تھے۔
پیغامات: 
۱۔ امت غور کرے کہ جب نسل امام صادق علیہ السلام سے ۴۵ سال کے بعد آنے والی ان کی پوتی اس قدر رفعت و عظمت رکھتی ہے تو خود حضرت امام صادق علیہ السلام کس قدر و منزلت کے مالک ہونگے۔
۲۔ اس مبارک حدیث میں اس باعظمت خاتون کی ولادت اور وفات دونوں کی خبر دی گئی ہے جو امام علیہ السلام کے علم کی وسعت و ہمہ گیری کو بیان کرتی ہے اور یہ خبر اپنے اندر یہ پیغام رکھتی ہے کہ ہمارے امام ہماری زندگی کے تمامتر کلیات و جرئیات کو مکمل طور پر جانتے ہیں لہٰذا ہمیں ان کا شیعہ ہونے کے ناطہ ان کے تعلیمات کے خلاف کوئی کام نہیں کرنا چاہیئے۔
۳. یہ حدیث ، حضرت امام صادق علیہ الصلوۃ والسلام کے علم کی وسعت کے ہمراہ آنحضرت کی صداقت پربہی عظیم دلیل ہے۔
۴۔ اس حدیث کے مطابق بی بی کی زیارت کرنے والے پر جنت واجب ہوجاتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایمان و عقیدہ اور صالح عمل سے بے نیاز ہوکر فقط بی بی معصومہ سلام اللہ علیھا کی زیارت بجالانا جنت میں جانے کے لئے کافی ہے اور کیا مذکورہ حدیث یہی مفہوم رکھتی ہے؟
اس کاجواب یہ ہےکہ ایسا نہیں ہے۔
زیارت بلاشبہ ایک نیک عمل ہے اور ہر نیک عمل ، دین و قرآن کے اعتبار سے تقوی الہی کی بنیاد پر قبول ہوتا ہے اور قبول ہونے کے بعد ہی وہ حصول جنت کا باعث بنتا ہے۔
اور یہ ظاہر ہے کہ زیارت اس دینی و قرآنی قانون سے مستثنی نہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ اس مبارک حدیث میں بی بی کی زیارت کو جنت میں جانے کا مقتضی قرار دیا گیا ہے۔
یعنی ہم علم اصول کی روشنی میں اس طرح کہیں گے کہ جنت میں جانے کے لئے دو چیزوں کا محقق ہونا ضروری ہے :
پہلی چیز مقتضی موجود ہو اور دوسری چیز یہ کہ مانع مفقود ہو۔
یہاں بی بی معصومہ سلام اللہ علیھا کی زیارت کی شکل میں جنت میں جانے کا مقتضی تو موجود ہے ، لیکن مانع اور رکاوٹ کا نہ ہونا بہی ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ دین و ایمان کے سائے میں انسان واجبات کو ترک نہ کرے اور محرمات کو انجام نہ دے۔
اگر یہ دونوں چیزیں باہم کسی کے اندر جمع ہوجاتی ہیں تو اس زائر کا جنتی ہونا یقینی ہوجاتا ہے۔
۵۔ اس حدیث میں پورے شہر قم کو اہل بیت طاہرین علیہم السلام کا " حرم " قرار دیا گیا ہے۔
لہٰذا ہم سب کو بی بی معصومہ کے روضہ مبارک کے ہمراہ پورے شہر قم کا احترام کرنا چاہیئے اور اس شہر کی حرمت و قداست کے منافی کوئی عمل انجام نہیں دینا چاہیئے۔ 

ب، ولادت و تربیت معصومہ سلام اللہ علیھا:
جناب معصومہ سلام اللہ علیھا پہلی ذیقعدہ ۱۷۳ ھ ق کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئی تھیں (۲) آپ اپنے برادر بزرگوار حضرت امام علی رضا علیہ الصلوۃ و السلام سے ۲۵ برس چھوٹی تھیں چونکہ امام رضا علیہ الصلوۃ و السلام گیارہ ذیقعدہ ۱۴۸ ھ ق کو متولد ہوئے تھے۔(۳)
آپ نے تین معصوم اماموں کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہے۔
آپ چھ سال تک اپنے بابا باب الحوائج حضرت امام موسی کاظم علیہ الصلوۃ و السلام کے مبارک سایہ تربیت میں رہیں اور اس کے بعد آپ کے پدر بزرگوار مدینہ سے باہر ھارونی قیدو اسارت میں آخر حیات تک مبتلا رہے۔
۲۱ سال آپ نے اپنے برادر بزرگوار حضرت امام علی رضا علیہ الصلوۃ و السلام کی نورانی تربیت و امامت کے زیر سایہ گزارے ہیں۔
آ پ کی ولادت باسعادت اور شان و عظمت کی خبر حضرت امام صادق علیہ الصلوۃ و السلام پہلے ہی دے چکے تھے۔ 
پیغامات:
۱۔ہر اہل فکر و شعور اندازہ لگا سکتاہے کہ جس بی بی کی شان و عظمت کی خبر اس کی ولادت سے ۴۵ سال قبل ایک معصوم امام دے چکے ہوں جب وہ پیدا ہوئی ہوگی تو کاشانہ امامت میں اللہ تعالی کے ذکر و شکر اور خوشیوں کا کیا عالم رہا ہوگا یقینا یہ ناقابل بیان امر ہے۔ 
ظاہر ہے کہ تاریخ ہرشخصیت کے سارے جزئیات کو بیان کرنے سے قاصر ہوتی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ خاندان رسالت و امامت کو اس بی بی کی ولادت سے ایسی ہی مسرت ہوئی ہوگی کہ جیسی سرکار رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو " عطائے کوثر" سے ہوئی تہی۔
۲۔ سرکار امام کاظم علیہ الصلوۃ و السلام نے اس بی بی کا نام " فاطمہ" رکھا تھا
فاطمہ کوئی نیا نام نہیں تھا اس سے پہلے اس نام کی بہت سی خواتین پائی جاتی تھیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ نام کا نیا یا پرانا ہونا اہم نہیں ہے بلکہ اس کا باعظمت و بابرکت ہونا اہم ہے۔
افسوس کا مقام ہے کہ ہمارا سماج آج اس حوالہ سے بہی ائمہ طاہرین کی سنت و سیرت سے دور ہوتا چلا جارہا ہے اور مبارک و مقدس ناموں کا ایک عظیم ذخیرہ ہونے کے باوجود نئے نام رکھنے کی ہوس میں بری طرح سے مبتلا ہوچکا ہے جس کے نتیجہ میں ایسے ایسے نام منظر عام پر آرہے ہیں کہ جو معنویت و مقصدیت سے یکسر خالی دکھائی دیتے ہیں۔ 

ج، آپ کی نسلی و خاندانی فضیلت :
آپ کی نسلی و خاندانی فضیلت یہ ہے کہ آپ عرب کے مشہور ومعروف قبیلہ قریش کے خاندان بنی ھاشم سے تھیں جو اپنے فضل و شرف میں نہایت معروف تھا۔
اس کے علاوہ آپ کی نسلی و خاندانی عظمت و برتری کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ ایک امام کی بیٹی ایک امام کی بہن اور ایک امام کی پھپہی ہیں۔
اس عظمت کی طرف آپ کی زیارت میں بہی یہ کہکراشارہ کیا گیا ہے:
السلام علیکٍ یا بنت ولی اللہ ، السلام علیکٍ یا اخت ولی اللہ، السلام علیکٍ یاعمۃ ولی اللہ۔(۴)
پیغامات:
۱۔ نسلی و خاندانی طورپر مسلمان یا شیعہ یا سید ہونا یقینا ایک فضل وشرف ہے لیکن یہ ایسا فضل و شرف ہے جو خالص اللہ عز و جل کے لطف و کرم کا نتیجہ ہے اس میں ہمارا کوئی رول یا ارداہ و اختیار شامل نہیں ہے۔
لہذا اس فضل و شرف پر فخر سے زیادہ ہمیں اللہ عز و جل کا شکر ادا کرنا چاہیئے۔
۲۔ یہ وھبی فضل و شرف ہے لہٰذا عمل سے بے نیاز ہوکر فقط اس پر فخر کرنا یا فقط اسے جنت میں جانے کا وسیلہ سمجھنا اپنے آپ کو دہوکا دینا اور دنیا و آخرت کے خسارہ میں مبتلا ہونا ہے۔
بی بی معصومہ سلام اللہ علیھا کا عظیم کردار اور ان کا دین و مذھب کی ہر حال میں پابندی کرنا، ہمیں یہ پیغام دیتاہے کہ جب اللہ تعالی نے ہمیں بہترین دین پر پیدا کیا ہے تو اس کے ذریعہ ہمیں خود کو بہترین بنانا چاہیئے ، اور جب اس نے ہمیں شاندار نسل و خاندان سے نوازا ہے تو اس کی اطاعت و عبادت کرکے ہمیشہ ہمیں اس کی بخشی ہوئی شان و عظمت کو باقی رکھنا چاہیئے۔
نیزہمارے مولاحضرت امام صادق علیہ الصلوۃ و السلام کے ارشاد مبارک " کونولنا زینا ولا تکونو علینا شینا " سے بہی ہمیں یہی پیغام ملتا ہے۔
د، آپ کے نام و القاب کی وضاحت:
حضرت امام صادق و کاظم علیہما الصلوۃ و السلام نے اپنی اس بیٹی کا نام " فاطمہ " رکھا هے۔
قابل ذکر و توجہ ہے کہ حضرت امام کاظم علیہ الصلوۃ و السلام نے اپنی تین بیٹیوں کا نام فاطمہ رکھا تھا۔
یعنی ایک ہی گہر میں فاطمہ نام کی تین بیٹیاں پائی جاتی تھیں۔
معنی کے اعتبار سے فاطمہ بچانے والی ، چھڑانے والی اور نجات دینے والی خاتون کو کہتے ہیں۔
چونکہ جناب معصومہ کی شفاعت سے شیعہ نجات پائیں گے اور آپ کے روضہ مبارک کی زیارت بہی بہت سوں کو بیماری ، دکھ درد اور رنج و الم سے نجات دیتی ہے پہریہ کہ آپ کے فضل و کرم کے زیرسایہ قائم ہونے والا " حوزہ علمیہ قم " دنیا بہر کے گم گشتہ و گمراہ لوگوں کی ھدایت و نجات کا ایک عظیم و اہم مرکز بنا ہوا ہے۔
اس لئے آپ کا نام آپ کی ذات مبارک سے بالکل ہماھنگ اور متحد ہے اور آپ کی ذات مبارک سے ان برکتوں نے آشکارہوکر ثابت کردیا ہے که بیشک آپ فاطمہ ہیں۔ 
آپ کے دو زیات نامے ہیں ایک زیارت نامہ بہت معروف ہے جو عام طور سے آپ کے مبارک حرم میں وارد ہونے کے بعد پڑھا جاتا ہے۔
دوسرا زیارت نامہ معروف نہیں ہے ، لیکن اس میں آپ کے متعدد القاب ذکر ہوئے ہیں مثلا طاہرہ ، زکیہ ، راضیہ و مرضیہ وغیرہ جو سب کے سب آپ کی عظمت و کرامت کی نشاندہی کرتے ہیں۔
پیغامات:
۱۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے اور امام کے نام رکھنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
ہم بغیر کسی مقصدیت و مناسبت کے ، صرف اچھا لگنے کی وجہ سے نام رکھ دیتے ہیں ، اکثر اوقات اس نام کا مطلب بہی ہمیں معلوم نہیں ہوتا اور پہر ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ بچے کا عمل و کردار اس نام سے ہماھنگ ہوگا یا نہیں ہوگا۔
بہت ممکن ہے کہ ہم بچہ کا نام عالم رکہیں اور اسے علم سے ذرہ برابر دلچسپی نہ ہو۔
لیکن امام ، معصوم اور صاحب علم لدنی ہوتے ہیں وہ جس کا جو بہی نام رکھتے ہیں مکمل علم و آگاہی کے ساتھ معنویت و مقصدیت کے تحت رکھتے ہیں لہٰذا ہمیں اس سلسلہ میں بہی ان کی پیروی کرنی چاہیئے۔
۲۔ تمام والدین کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ اپنی اولاد کا اچھا ، مبارک اور بامقصد نام رکہیں اور یہ نام بہت سوچ سمجھ کر رکہیں۔
دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ جو نام رکہیں اس کے مطابق بچے کو بنانے کی کوشش کریں،
تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ بچہ کی اسطرح تربیت کریں کہ صاحب شعور ہونے کے بعد وہ خود اپنے نام اور اس کے مقصد پر پورا اترنے کی پوری پوری کوشش کرے۔

ھ، جناب معصومہ علیھا السلام کی عظمت ائمہ طاہرین علیہم السلام کی نگاہ میں:
جب ہم اسلامی احادیث و روایات کا مطالعہ کرتے ہیں ، تو آپ کی عظمت سے متعلق چار اماموں کے ارشادات ہمیں نظر آتے ہیں :
۱۔ ارشاد حضرت امام صادق علیہ الصلوۃ والسلام : 
إنّ لله حرماً و هو مکه، ألا اِنّ لرسول الله صلی الله علیه و آله حرماً و هو المدینه، ألا و اِن لأمیرالمومنین علیه‌السلام حرماً و هو الکوفه، ألا و اِنّ قم الکوفه الصغیرة، ألا اِنّ للجنه ثمانیه ابواب، ثلاثه منها اِلی قم. تقبض فیها امرأة من ولدی اسمها فاطمه بنت موسی علیه‌السلام، و تدخل بشفاعتها شیعتی الجنه بأجمعهم. (۵)
آپ نے فرمایا ہے کہ آگاہ ہوجاؤ اللہ کا ایک حرم ہے اس کا نام مکہ ہے ، آگاہ ہوجاؤ کہ اس کے رسول کا ایک حرم ہے اور وہ مدینہ ہے ، آگاہ ہوجاؤ کہ امیرالمومنین کا ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے ، آگاہ ہوجاؤ کہ قم چہوٹا کوفہ ہے ، آگاہ ہوجاؤ کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تین قم کی طرف کھلتے ہیں ، اسی شہر میں میری اولاد میں سے فاطمہ بنت موسی نامی خاتون کی روح قبض ہوگی اور اس کی شفاعت سے میرے تمام شیعہ جنت میں داخل ہونگے۔
اس حدیث میں چار شہروں کی عظمت بیان کی گئی ہے مکہ ، مدینہ ، کوفہ اور قم۔
پیغامات:
الف: شہروں سے متعلق ہماری ذمہ داری : 
اللہ نے جس سرزمین دیہات ، گاؤں یا شہر میں ہمیں پیدا کیا ہے ذاتی و تخلیقی طورپر اس میں کوئی برائی نہیں پائی جاتی ۔
لہٰذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس کے نام و شان کو باقی رکہیں اور اس کے لئے بدنامی کا سبب قرار نہ پائیں، ورنہ ہمیں اس کا جواب دینا ہوگا۔
مثلا کوفہ ایک اچھا اور مبارک شہر ہے یہاں بڑے بڑے مبارک و مقدس مقامات ہیں لیکن کچھ غلط کردار اور بے وفا لوگوں نے کوفہ کو اتنا بدنام کردیا ہے کہ اب اکثر عوام کے ذھن میں کوفہ کا نام سنتے ہی بے وفائی کا تصور ابہر کے سامنے آتا ہے تو یقینا یہ مبارک شہر جن لوگوں کی وجہ سے بدنام ہوا ہے انہیں اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس کا حساب ضرور دینا ہوگا۔ 
لہٰذا اپنے وطن اور شہر سے متعلق بہی ہمیں اپنی ذمہ داری کو پہچاننا چاہیئے اور ہمیشہ اس کے لئے نیک نامی کا سبب بننا چاہیئے۔ 
کیاکہنا اہل بیت اور جناب معصومہ علیہم السلام کا کہ وہ جس شہر میں پیدا ہوئے یا جس شہر میں رہے اس کا نام روشن کردیا ، اسی لئے انہیں ارکان البلاد شہروں کا ستون اور بیضۃ البلد شہروں کی نورانیت اور زینت و رونق کہا گیاہے۔
جناب معصومہ سلام اللہ علیھا قم میں تشریف فرما ہوئیں تو آپ کی وجہ سے قم کو یہ عظمت حاصل ہوئی کہ اسے عش اہل بیت ، آشیانہ آل محمد اور قم مقدس کہا جاتا ہے۔ 
ہمیں اپنی شھزادی جناب معصومہ کے باعظمت کردار و اخلاق سے یہ سبق اور پیغام حاصل کرنا چاہیئے کہ ہم یہ زندگی ایسے پاکیزہ کردار و اخلاق سے گزاریں کہ دنیا و آخرت میں خود بہی سرخرو قرار پائیں اور اپنے وطن اور شہر کے لئے بہی سرخروئی کا باعث بنیں۔
ب : اس حدیث میں شیعوں سے متعلق بی بی کی عظیم المرتبت شفاعت کا بہی ذکر کیا گیا ہے۔ جس سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ ہمیں فقط شفاعت کی خبر سن کرخوش نہیں ہونا ہے بلکہ اپنے ایمان و کردار کے ذریعہ اپنی شیعیت کا ثبوت بہی دینا ہے۔
۲۔ ارشاد امام کاظم علیہ الصلوۃ والسلام :فداها ابو ها ، فداها ابوها ، فداها ابوها۔ (۶)
اس ارشاد مبارک کی شان ورود یہ ہے کہ حضرت امام کاظم علیہ الصلوۃ والسلام کے چاھنے والےجو مدینہ سے دور رھتے تھے ، ان کا ایک گروہ فرزند رسول کی زیارت کے اشتیاق اور اپنے دینی مسائل کا جواب حاصل کرنے کے ارادہ سے مدینہ پہنچتا ہے مگر وھاں پہچ کر اطلاع ملتی ہے کہ حجت خداند متعال ، فرزند رسول امام موسی کاظم علیہ الصلوۃ والسلام فی الحال مدینہ میں تشریف فرما نہیں ہیں۔
یہ فاقلہ مولا کے افراد بیت الشریف سے اپنے آنے کا سبب بیان کرتا ہے تو مولا کی نورنظر جناب معصومہ سلام اللہ علیھا کا فرمان ان تک پہنچتا ہے کہ دینی مسائل آپ لوگ اگر میرے سپرد کردیں تو ان کے جوابات دیئے جاسکتے ہیں۔
یہ خوش ہوکر اپنے دینی سوالات بی بی کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں اور پہر بی بی سے ان کے جوابات حاصل کرکے مدینہ سے اپنے وطن کی طرف چل دیتے ہیں ، مدینہ سے باہر نکلنے کے بعد کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت امام کاظم علیہ الصلوۃ والسلام کی سواری چلی آرہی ہے ۔
یہ دیکھ کر ان کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا ، وہ بصد مسرت مولا کو سلام و ادب بجا لاکر پوری روداد بیان کرتے ہیں تو مولا فرماتے ہیں :
لاؤ میں بہی تو ان جوابات کو دیکہوں ، آپ نے نگاہ امامت سے ان کا مطالعہ فرمایا اور فرط مسرت سے تین مرتبہ آپ کی زبان مبارک پر یہ فقرہ آیا:اس پر اس کا باپ قربان ہوجائے۔
الف، اس روایت سے بی بی کی دینی و علمی عظمت و جلالت کا اندازہ ہوتا ہے۔
ب ، اس روایت سے بہی ظاہر ہوتا ہے کہ بی بی نے اپنے بابا اور وقت کے امام برحق کے علم وفضل سے پورا پورا کسب فیض کیاتھا اور امام وقت کی ہمنشینی و مصاحبت کا واقعا حق ادا کیا تھا اور یہ واقعا قابل مدح و ستائش امر ہے۔
ج ، مذکورہ روایت سے یہ الھام بہی حاصل ہوتا ہے کہ اگر کوئی امام معصوم کے تعلیمات اور اخلاق و کردار کی مکمل پیروی کرلے تو اس کے علم اور کردار و اخلاق سے بہی عصمتی خوشبو آنے لگتی ہے۔
د ۔ بی بی نے یہ جوابات اسوقت عنایت کئے تھے جب آپ کی عمر فقط پانچ یاچھ سال کی تہی ، اتنی کمسنی میں رضاؤ رائے امام معصوم کے مطابق دینی مسائل کا جواب دینا یقینا بہت بڑا کمال ہے اور اسی فضل و شرف کا مصداق ہے جس کے لئے قرآن حکیم کا ارشاد ہے " ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء "(۷)
۳۔ ارشاد حضرت امام رضا علیہ الصلوۃ و السلام : 
الف ، عَنْ عَلِیِّ بْنِ موسَی الرِّضَا(ع) قَالَ: یا سَعْدُ عِنْدَکمْ لَنَا قَبْرٌ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاک قَبْرُ فاطِمَةَ بنْتِ موسَی(ع) قَالَ نَعَمْ مَنْ زَارَهَا عَارِفاً بِحَقِّهَا فَلَهُ الجنه (۸)۔
سعد اشعری قمی حضرت امام رضا علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا :
اے سعد تمہارے نزدیک ہماری ایک قبر ہے ۔
( سعد کہتے ہیں) میں نےعرض کی :
میں آپ پر قربان ( آپ کی مراد کیا ) جناب فاطمہ بنت امام کاظم علیہ السلام کی قبر ہے؟
حضرت نے فرمایا : ھاں ( وہی مراد ہے ) جو بہی اس کے حق کی معرفت کے ساتھ اسکی زیارت کرے گا وہ جنت کا حقدار قرار پائے گا۔
ب ، قال : من زار المعصومہ بقم کمن زارنی۔
ایک دوسری حدیث میں مولا امام رضا علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ :
جو قم میں معصومہ کی زیارت کرے گویا اس نے میری زیارت کی ہے۔
ہم اس سے قبل بیان کرچکے ہیں کہ بی بی کا نام فاطمہ ہے لیکن مولا امام رضا علیہ السلام نے اس حدیث میں بی بی کو " معصومہ " کا عظیم لقب دیا ہے جو بلاشک آپ کے عظیم کردار کی عصمت و طہارت پر بہترین دلیل ہے۔
پہر بی بی کی زیارت کو آپ نے اپنی زیارت کے مانند قرار دیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بی بی کا باعظمت کردار اپنے وقت کے امام سے اتنا مشابہ تھا کہ آپ کی زیارت کو خود امام نے اپنی زیارت کے مشابہ و مانند قرار دیا ہے۔
۴۔ ارشاد حضرت امام محمد تقی علیہ الصلوۃ و السلام :
قال : مَنْ زَارَ عَمَّتِی بِقُمَّ فَلَهُ الْجَنَّةُ۔ (۹)
سرکار امام محمدتقی علیہ السلام کا بی بی سے متعلق یہ معروف ارشاد ہے : 
جو قم میں میری پھوپھی کی زیارت کرے گا اس کے لئے جنت ہے۔
امام معصوم کا بی بی کی بامعرفت زیارت کرنے کے عوض جنت کی ضمانت و بشارت دینا ایک عظیم امر ہے جو بلاشبہ بی بی کے بلند مقام و مرتبہ کی نشاندہی کرتا ہے۔
رب کریم سے دعا ہے کہ وہ دنیا میں ہمیں ائمہ طاہرین علیہم السلام کے ہمراہ اس بی بی کی بامعرفت زیارت نصیب فرمائے اور آخرت میں ان کی باعظمت شفاعت سے نوازے آمین۔

تحریر : حجة الاسلام والمسلمین عالیجناب مولانا ظہور مہدی مولائی زید عزہ
حوزہ علمیہ قم مقدس ایران
..................
حوالے :
۱۔مستدرک الوسائل، میرزا حسین نوری، مؤسسه آل البیت (ع)، قم، چاپ اول، 1408ق، ج 1، ص 57، ح 12196
۲۔سفینه البحار، شیخ عباس قمی، دار الاسوة، قم، چاپ چهارم، 1427ق، ج 7، ص 124۔
۳۔ حوالہ سابق۔
۴۔ مفاتیح الجنان ، شیخ عباس قمی ، زیارت حضرت معصومہ ۔
۵۔ بروجردی ، حسین جامع الاحادیث الشیعه، ج12، ص 617.
۶۔ محمدي اشتهاردي، محمد ، حضرت معصومه فاطمه دوم، ص 133
۷۔ سورہ جمعہ ، آیت ۴۔
۸۔ عیون اخبار الرضا(ع)، شیخ علی بن بابویه صدوق، نشر جهان، تهران، چاپ اول، 1378ق، ج 2، ص 267۔
۹۔ بحار الانوار مجلسی ، ج 48 ، ص 316۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .