انتخاب وترجمہ: سیدحمیدالحسن زیدی الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور
حوزہ نیوز ایجنسی | صاحبان فہم و شعور کے لیے عقلی اور نقلی دلائل سے یہ ثابت ہے کہ امامت کی سب سے اہم شرط دین سے مربوط تمام مسائل کا علم اور امام کی سب سے اہم ذمہ داری بھی دینی احکام و قوانین کی حفاظت اور ان کی ترویج ہے اور درحقیقت ان ذمہ داریوں کوانجام دینے کے لئے فلسفۂ امامت کو سمجھا جاسکتا ہے تمام ائمۂ معصومین ؑایسے ہی تھے اور امام رضاؑ بھی اپنے زمانے میں ان تمام صلاحیتوں کے مالک تھے۔
اپنے بیس سالہ دور امامت میں آپ نے احکام شریعت کی نشر و اشاعت اور مخلص علماء کی تربیت کی بھرپور کوشش کی آپ اور آپ کے مخلص شاگردوں کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ آپ کے ذریعہ بہت سی احادیث منظر عام پر آئیں جس کے نمونے آج بھی احادیث کی کتابوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
دین سے مربوط تمام مسائل جیسے معرفت خدا، توحید، خدا کے صفات ثبوتیہ اور سلبیہ کائنات کی خلقت اور اس کا فلسفہ ، عدل الہی، جبر و اختیار، قضا و قدر، نبوت، فلسفۂ نبوت، عصمت، علم، امامت اور اس کے شرائط، فلسفۂ امامت، اخلاقی فضائل و کمالات، برے اخلاق، حرام چیزیں، گناہ اور ان کی سزائیں اور فقہ کے مختلف ابواب میں آپ کی احادیث موجود ہیں۔
اگر کتب جدید کا مطالعہ کیا جائے تو مذکورہ عنوانات اور دسیوں دوسرے موضوعات کے بارے میں آپ سے مروی احادیث نظر آئیں گی اس کے علاوہ حکام وقت اور دوسرے مذاہب کے علماء کے ساتھ آپ نے بہت سے مناظرے اور مباحثے بھی انجام دیئے جو تاریخ و حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔
آپ کے علمی مناظروں کا مطالعہ اور ان پر غور کرنے سے آپ کی علمی برتری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
امام رضا ؑنے اپنی حیات بابرکت میں ایسے مخلص اور صاحب علم شاگردوں کی تربیت کی جنھوں نے آپ کی زندگی میں اور آپ کے بعد دین کے دفاع اور اسلامی تعلیمات کی ترویج کے سلسلہ میں آپ کے مقصد کی پاسبانی کی، آپ کے بعض شاگردوں کے نام یہ ہیں: احمد ابن محمد ابی نصر بزنطی، محمد ابن فضل کرخی، عبد اللہ ابن جندب بجلی، اسماعیل ابن احوص اشعری، احمد ابن محمد اشعری آپ کے خاص اور قابل اعتماد شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ حسن ابن علی خزاز، محمد ابن سلیمان دیلمی، علی ابن حکم انباری، عبد اللہ ابن مبارک نہاوندی، حماد ابن عثمان باب، سعد ابن سعد، حسن ابن سعید اہوازی، محمد ابن فرج رخجی، خلف بصری، محمد ابن سنان، بکر ابن محمد ازدی، ابراہیم ابن محمد ہمدانی، محمد ابن احمد بن قیس اور اسحق ابن محمد حصیبی بھی آپ کے شاگردوں میں سے تھے۔ (1)
ابوالصلت بیان کرتے ہیں: کہ میں نے علی ابن موسیٰ الرضا ؑسے اعلم کسی اور کو نہیں دیکھا جو عالم بھی ان کو دیکھتا وہ میری ہی طرح ان کے اعلم ہونے کی گواہی دیتا تھا۔
مامون مختلف مذاہب کے علمائ، فقہاء اور متکلمین کو اپنے دربار میں بلاتا تھا وہ لوگ علی ابن موسیٰ الرضا ؑسے مناظرہ اور مباحثہ کرتے تھے امام رضا ؑان پر غالب ہوتے تھے اور وہ سب آپ کے علم و فضل اور اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرتے تھے۔
علی ابن موسیٰ الرضا ؑفرماتے ہیں کہ میں روضۂ رسولؐ میں بیٹھتا تھا مدینہ میں علماء کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود جب وہ کسی مسئلہ کا جواب نہیں دے پاتے تھے تواسے میرے پاس بھیجتے تھے اور میں اس کا جواب دیتا تھا۔
محمد ابن اسحق ابن موسیٰ ابن جعفر ؑنے اپنے والد سے نقل کیا کہ موسیٰ ابن جعفر ؑنے اپنی اولاد سے فرمایا:
تمہارے بھائی علی ابن موسیٰ الرضا ؑعالم آل محمد ہیں دینی مسائل ان سے معلوم کرو اور ان کے اقوال کی حفاظت کرو میں نے امام ابوجعفر محمد باقر ؑسے سنا ہے آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ عالم آل محمد تمہارے صلب میں ہے کاش میں ان سے ملاقات کرتا وہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑکے ہمنام ہیں۔ (2)
رجاء ابن ابی ضحاک جو مدینہ سے طوس کے سفر میں امام رضاؑ کے ہمراہ تھا کہتا ہے کہ ہم جس شہر میں پہونچتے تھے لوگ احکام دین سیکھنے کے لئے آپ کے پاس جمع ہونے لگتے تھے اور آپ سے مسائل شریعت معلوم کرتے تھے اور آپ ان کے جواب میں اپنے آباء و اجداد کے حوالہ سے مولائے کائنات اور پیغمبر اسلاؐم کی احادیث نقل کرتے تھے۔
مامون نے بھی کہا ہاں اے ابن ضحاک وہ روی زمین پر سب سے بہتر، سب سے زیادہ عالم اور سب سے زیادہ عبادت گذار ہیں۔ (3)
ابراہیم ابن ابی العباس کا بیان ہے: کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ امام رضا ؑسے کوئی سوال کیا گیا ہو اور آپ کو اس کا جواب نہ معلوم ہو میں نے آپ سے اعلم کسی اور کو نہیں دیکھا۔
مامون آپ سے مختلف مسائل معلوم کرتا تھا اور آپ سب کا جواب دیتے تھے آپ کی گفتگو اور جوابات قرآن سے ہوتے تھے آپ ہر تین دن میں ایک قرآن ختم کرتے تھے اور فرماتے تھے اگر میں چاہوں تو اس سے کم مدت میںبھی قرآن ختم کرسکتا ہوں لیکن جس آیت پر پہونچتا ہوں آیت اور اس کی شان نزول کے بارے میں غور کرتا ہوں اسی وجہ سے تین دن میں ایک قرآن ختم ہوتا ہے۔ (4)
.......................................
حوالے
(1)مناقب آل ابی طالب، ج۴، ۳۹۷
(2)بحار الانوار، ج۴۹، ص۹۵
(3)بحار الانوار، ج۴۹، ص۱۰۰
(4)بحار الانوار، ج۴۹، ص۹۰