۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
ضریح امام رضا علیہ السلام

حوزہ/امام رضا ؑاپنے والد بزرگوار کی طرح تمام انسانی کمالات سے آراستہ تھے اور اپنے زمانے کے لوگوں میں ایک مشہور اور منفرد شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ 

انتخاب و ترجمہ: سید حمیدالحسن زیدی،الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور 

حوزہ نیوز ایجنسی | امام رضا ؑاپنے والد بزرگوار کی طرح تمام انسانی کمالات سے آراستہ تھے اور اپنے زمانے کے لوگوں میں ایک مشہور اور منفرد شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ 

شیخ مفید علیہ الرحمہ نے تحریر کیا ہے: کہ امام موسیٰ ابن جعفر ؑکے بعد آپ کے فرزند علی ابن موسیٰ الرضا ؑامام ہوئے اس لئے کہ آپ اپنے تمام بھائیوں اور دوسرے اہلبیت ؑمیں سب سے افضل تھے آپ کا علم، حلم، تقویٰ اور قوت استدلال سب پر واضح تھی عوام و خواص، شیعہ اور سنی سب آپ کے فضائل و کمالات کا اعتراف کرتے تھے اورآپ کی امامت کے بارے میں آپ کے والد ماجد نے واضح طور پر اعلان کر دیا تھا۔ (1)

انھوں نے ایک اور جگہ تحریر کیا ہے: علی ابن موسیٰ الرضا ؑاپنے تمام بھائیوں میں سب سے افضل، سب سے زیادہ عقلمند، سب سے محترم اور سب سے زیادہ عالم تھے۔ (2)

ابراہیم ابن عباس کا بیان ہے: میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ امام رضاؑ نے کسی کے ساتھ سختی سے بات کی ہو، یا کسی کی بات کاٹی ہو، یاکسی محتاج کی حاجت کو جسے آپ پورا کرسکتے ہوں رد کیا ہو۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی کے سامنے پیر پھیلا کر یا دوسروں کی موجودگی میں ٹیک لگا کر بیٹھے ہوں یا اپنے غلاموں کو برا بھلا کہا ہو یا آواز سے ہنسے ہوں آپ کی ہنسی صرف تبسم کی صورت میں ہوتی تھی جب آپ دسترخوان پر بیٹھتے تھے تو تمام غلاموں، خدمت گاروں یہاں تک کہ گھر کے دربان کو بھی اپنے ساتھ بٹھاتے تھے، بہت کم سوتے تھے، روزے بہت رکھتے تھے، مہینہ کے تین روزہ آپ سے کبھی نہیں چھوٹتے تھے اور فرماتے تھے ہر مہینہ میں تین روزہ رکھنے سے پوری عمر روزہ رکھنے کا ثواب ملتا ہے۔ 

آپ رات کی تاریکی اور تنہائی میں صدقہ دیتے تھے جو یہ کہے کہ ہم نے ان سے افضل کسی کو دیکھا ہے (وہ جھوٹا ہے) اس کی تصدیق نہ کرو۔ (3)

ابن صباغ مالکی نے لکھا ہے: جو شخص بھی علی ابن موسیٰؑ کے حالات پر غور کرے وہ یہ سمجھ جائے گا کہ ان کو اپنے جد علی ابن ابیطالب ؑاور علی ابن الحسین ؑکی میراث ملی ہے۔ آپ مضبوط ایمان اور بلند مرتبے کے حامل تھے ان کے طرفدار اتنے زیادہ اور ان کے دلائل اتنے واضح تھے کہ مامون نے آپ کو اپنے دل میں جگہ دی اور ملکی امور میں شریک کرنا چاہا اس نے اپنے بعد کے لئے خلافت آپ کے حوالہ کی اور سب کے سامنے آپ کے ساتھ اپنی بیٹی کا عقد کیا آپ نمایاں صفات و کمالات کے حامل تھے شرافت نفس میں ہاشمی تھے اور آپ کی اصل نبوت تھی۔ (4)

زیاد ابن مروان کا بیان ہے: میں امام موسیٰ کاظم ؑکی خدمت میں تھا امام ابو الحسن رضا ؑبھی موجود تھے امام موسیٰ ابن جعفر ؑنے مجھ سے فرمایا یہ میرے بیٹے علی ہیں ان کی تحریر میری تحریر ہے ان کا کلام میرا کلام ہے اور ان کا نمائندہ میرا نمائندہ ہے وہ جو کچھ کہتے ہیں حق کہتے ہیں۔ (5)

مامون نے امام رضا ؑکی ولایت عہدی کے سلسلہ میں جو خط لکھا تھا اس میں اس طرح لکھا تھا: 
میں اپنی خلافت کی ابتدا سے برابر اس کوشش میں تھا کہ اپنی ولی عہدی کے لئے سب سے بہتر شخص تلاش کرسکوں میں نے جستجو کی لیکن مجھے ایسا کوئی نہیں ملا جو علی ابن موسیٰ الرضا ؑسے زیادہ مناسب ہو اس لئے کہ میں نے تقویٰ ، علم اور فضل میں ان کو سب سے بہتر پایا انھوں نے دنیا کو چھوڑ کر آخرت کو دنیا پر ترجیح دی ہے مجھے اس بات کا یقین ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے اس وجہ سے میں ان کو اپنا ولی عہد معین کر رہا ہوں۔ (6)

ابو الصلت بیان کرتے ہیں: مامون نے علی ابن موسیٰ الرضا ؑسے کہا چوں کہ آپ کے فضائل، آپ کا زہد، تقویٰ اور عبادت میرے نزدیک ثابت ہے لہٰذا میں آپ کو اپنے سے زیادہ خلافت کا اہل سمجھتا ہوں۔ (7)
                                 ............................................

حوالے

(1)الارشاد، ج۲، ص۲۴۷
(2)الارشاد، ج۲، ص۲۴۴
(3)بحار الانوار، ج۴۹، ص۹۰؛ مناقب آل ابی طالب، ج۴، ص ۳۸۹
(4)الفصول المہمہ، ص۲۲۵، ؛ مطالب السؤول، ج۲، ص۱۲۸؛ کشف الغمہ،، ج۳، ص۴۹
(5)الفصول المہمہ، ص۲۲۶
(6)تذکرۃ الخواص، ص۳۵۳
(7)بحار الانوار، ص۱۲۹؛ مناقب آل ابی طالب، ج۴، ص۳۹۲

                    جاری ہے

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .