۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
News ID: 361394
11 جولائی 2020 - 13:27
مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ/اگر انہیں ایسا کوئی عالم نہیں ملتا ہے جو انکی جیسی بات کرے تو اپنے میں ہی سے کسی کو ڈھونڈ کر علامہ بنا دیتے ہیں ۔

تحریر:مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | 

سرزمین افغانستان سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک دوست ڈاکٹر مسلم مدنی نےکسی زمانے میں مہراب صادق نیا نامی ایک ایرانی قلمکار کی ایک تحریر بھیجی تھی جس میں ہم نے تھوڑا تصرف کر کے بر صغیر کے حالات کے مطابق ڈھالتے ہوئے کوشش کی ہے ان حالات کی عکاسی ہو سکے جہاں روز نئے نئے علامہ پیدا ہو رہے ہیں جہا نِ اردو کے موجودہ حالات اور معاشرے میں نت نئےالقابات کی سونامی کے پیش نظر اس تحریر کا مطالعہ شاید برا نہ ہو ۔

 چند سال قبل میں  خانہ خدا کی زیارت  و عمرہ کی غرض سے مکہ گیا ، میں نے مکہ میں زائرین کو حیران و پریشان دیکھا اسکے برخلاف جب میں مدینہ پہنچا تو معاملہ بالکل مختلف تھا ، لوگ جوق در جوق بقیع کے اطراف میں جمع تھے کوئی رو رہا تھا کوئی مصائب پڑھ رہا تھا کوئی آہیں بھر رہا
تھا ، ایسا کیوں ؟۔۔۔۔
ایسا اس لئے تھا کہ مکہ پہنچ کر انہیں نہیں پتہ تھا کیا کرنا ہے   کس طرح اپنے جذبات کا اظہار کرنا ہے ، بعض تو ذکر و دعاء میں مشغول تھے لیکن بعض
کو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ جب کعبہ پر پہلی بار نظر پڑے تو کیا  کرناچاہیے کونسی دعاء   پڑھنا چاہیے خدا کے گھر کو دیکھ کر کیا کہنا چاہیے ،کسے سلام کرنا چاہیے کس سمت میں چلنا چاہیے ، انہیں مختلف لوگوں میں ایک قافلہ ایسا تھا جو قم سے آیا تھا ، قافلہ میں یہ دیکھ کر میری حیرت کی
انتہا نہ رہی کہ کچھ لوگ کعبہ کی طرف دیکھ رہے تھے اور جناب معصومہ سلام
اللہ علیہا کو سلام کر رہے تھے ، {جب زیارت عادت بن جاتی ہے تو اکثر ایساہوتا ہے)
کچھ وہ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امام رضاعلیہ السلام کو سلام کر رہے تھے ، کچھ وقت کے امام کو پکار رہے تھے اورامام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا ذکر کر رہے تھے ، کچھ وہ تھے
جو ساتھ آئے ہوئے قافلہ کے عالم دین اور معلم کارواں کی باتوں پر کان دھرے تھے اور بار باراس سے پوچھتے اب کیا پڑھیں اب کیا کریں ؟ طواف کر لیں تو پھر کیا کریں ؟ صفا و مروہ کی سعی کے دوران کیا پڑھیں؟  ، جب عالم دین نے ان سے کہا کہ
عمرہ کے مناسک کو انجام دو اِحرام، طواف، نماز طواف، سعی بین صفا و مروہ اور تقصیر یہ سب کچھ کرنا ہے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے احرام تو آپنے میقات سے ہی باندھا  ہوا ہے  اب میرے ساتھ رہیں میں جتنا کرتا رہوں اتناہی آپ بھی کرتے رہیں ، سیدھے سادھے لوگ عالم دین کے ساتھ ہو لئے اس نے
جیسے جیسے مناسک کو انجام دیا سب نے ویسا ہی کیا  طواف و  نماز وسعی وتقصیر کے بعد جب عمرہ مکمل ہو گیا تو لوگوں کو عالم دین نے مبارکباد دی
کہ آپ کو مبارک ہو آپ کا عمرہ مکمل ہو گیا اب لوگوں نے پوچھا کہ اب یہ عمرہ تو مکمل ہو گیا اب کیا کریں؟۔۔۔
عالم دین نے جواب دیا کچھ نہیں اب آپ خدا کے حضور اسکے گھر  کے سامنے بیٹھ کر جو چاہیں پڑھیں قرآن پڑھیں دعائیں پڑھیں جو چاہیں بلکہ میں تو یہ کہونگا اچھا موقع نصیب ہوا ہے آپ لوگوں کو  جہاں کہیں خلوت ملے کوئی کونہ ملے کونہ پکڑ کر بیٹھ جائیں  اورخدا سے محو گفتگو ہو جائیں
 ، بار بار نہ پوچھیں کیا پڑھنا ہے کیا کرنا ہےجو ضرورری مناسک سے میں نے کروا دئیے اب آپ ہیں اور آپ کا خدا مجھے بھی
اپنے رب کے ساتھ اس پاکیزہ مقام پر درددل کرنے کا موقع دیں آپ بھی  اپنےکریم رب سے گفتگو کریں ، میں نے دیکھا کہ سب نےعالم کی بات سن تو بڑے غورسے لی لیکن جب دیکھا کہ عالم دین اب اور کچھ کرنے کرانے کو تیار نہیں بلکہ ایک طرف بیٹھ کر خانہ خدا پر نظریں گاڑے  گھورے جا رہا ہے اور اسےدنیا و ما فہیا کی خبر نہیں تو لوگوں نے آپس میں کاناپھوسی شروع کر دی
اس بار ہمارے ٹور والے کیسا عالم لے آئے ہیں جو کہتا ہے خدا سے بات کروخدا سے کیا بات کریں؟ پچھلے ٹور والا عالم کتنا زبردست تھا ہر روزدعائیں پڑھتا تھا ہر شب دیر رات تک  کچھ نہ کچھ بتاتا رہتا تھا اب یہ پڑھو اب یہ کرو  یہ کونسا عالم ہے کہ تقصیر کے بعد جسکی ساری دعائیں ہی ختم ہو گئیں  وہ کتنا اچھا عالم تھا جو کہتا تھا  خانہ خدا کے دائیں جانب نظر پڑے تو یہ پڑھو بائیں جانب نظر پڑے تو یہ پڑھو سامنے سے کعبہ دکھے تو
یہ پڑھو  ہر طواف کے شوط کی  دعاء یہ ہے  ہر قدم پر پڑھنے والا ورد یہ ہے، زمزم کا پانی پیو تو یہ پڑھو ، زمزم کے پانی سے منھ دھوو تو یہ پڑھواٹھو تو یہ پڑھو جھکو تو یہ پڑھو چلو تو یہ پڑھو لیکن یہ کونسا عالم ہے
جو کہتا ہے خدا سے بات کرو ؟
میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ  کتنے سادے دین کو کتناپیچیدہ بنا دیا ہے  طول تاریخ میں ایسے کم ہی عالم ہیں جنہوں نے دو اور دو
چار کام کی بات  کی ہو اور عوام نے انکو سراہا ہو  ہم نے تو یہی دیکھا ہےکہ جتنا دین کو سادہ بیان کیا جاتا ہے اتنا ہی لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مولانا صاحب بس بہت معمولی سے ہی ہیں  اور جو عالم دے دھڑا دھڑ اذکار واوراد بتاتا رہے اس کے علم کا ہر طرف چرچہ ہوتا ہے خاص کر اگر کوئی یہ
بھی بتانے لگے کہ یہ ذکر کروگے تو دوکان چلے گی یہ ورد کروگے تو کارخانہ کارخانوں میں بدل جائے یہ دعاء پڑھوگے تو   تجارت میں ترقی ہی ترقی ہوگی بزنس کسی تیز رفتار ٹرین کی طرح دوڑے گا   اگر کوئی یہ ہنر جانتا ہو اوردعاوں کے ساتھ انکے فوائد و ثمرات بھی بتانے لگے تو اس سے بڑھ کر تو کوئی
عوام کی نظر میں عالم نہیں رہتا  ۔
اب بے چارے عوام کو کون سمجھائے یہ سبکی دکانیں چلا کر در حقیقت اپنی دوکان چلا رہا ہے  اصل برکت تو حرام سے بچنے میں ہے اصل فائدہ تو زندگی کو گناہوں سے پاکیزہ بنانے میں ہے  اگر روح گناہوں میں آلودہ ہے اور دل میں خشیت الہی نہیں تو یہ اوراد و اذکار کس کام کے ۔۔۔
یہیں سے ہمیں حقیقی علماء کی شناخت بھی ہو جاتی ہے جو بیچارے  مکر و فراڈ
سے دور ہوتے ہیں وہ سیدھا سیدھا دین بتاتے ہیں  لیکن انکی کوئی نہیں سنتاکیونکہ جب بات دین کی آتی ہے تو اس عالم کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی جو اپنے
علم کی روشنی میں لوگوں کی زندگی میں نورانیت لانا چاہتا ہے نہ اسکا علم کام آتا ہے نہ اسکی کوشش بلکہ اسکے اندر تو اتنی طاقت بھی نہیں ہوتی کہ
صحیح بات کو منوا سکے کیونکہ جب دین اور عوام کا معاملہ آتا ہے  تو عوام کی طاقت ایک عالم سے زیادہ ہو جاتی ہے  یہی وجہ ہے کہ عوام ایسے عالم کے
پاس جانا چاہتے ہیں جو انکے افکارو نظریات کا حامی ہو انکی تائید کرتا ہوانکی مانتا ہو  اور اگر انہیں ایسا کوئی عالم نہیں ملتا ہے جو انکی جیسی بات کرے تو اپنے میں ہی سے کسی کو ڈھونڈ کر علامہ بنا دیتے ہیں ۔۔۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .