۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
ذاکر حسین جعفری

حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھوپھی ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حرم مطہر حضرت فاطمہ معصومہ (س) کے مذہبی و بین الاقوامی امور کے ماہر اور مہر نیوز ایجنسی اردو کے ایڈیٹر حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید ذاکر حسین جعفری نے حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی ولادت با سعادت کے موقع پر کہا کہ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادی، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی ہمشیرہ اور امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی پھوپھی ہیں۔

آپ کی ولادت یکم ذیقعد 173 ھجری قمری میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام نجمہ خاتون تھا۔ آپ امام موسی کاظم علیہ السلام کی سب سے بڑی اور سب سے ممتاز صاحبزادی تھیں۔ ممتاز عالم دین شیخ عباس قمی اس بارے میں لکھتے ہیں: "امام موسی کاظم علیہ السلام کی صاحبزادیوں میں سب سے بافضیلت سیدہ جلیلہ معظمہ فاطمہ بنت امام موسی کاظم علیہ السلام تھیں جو معصومہ کے نام سے مشہور تھیں"۔ آپ کا نام فاطمہ اور سب سے مشہور لقب معصومہ تھا۔ یہ لقب انہیں آٹھویں امام حضرت علی رضا علیہ السلام نے عطا فرمایا تھا۔ اگرچہ زمانے نے امام موسی کاظم علیہ السلام کی مسلسل گرفتاریوں اور زودھنگام شہادت کے ذریعے آپ سے باپ کی محبت اور شفقت کا سایہ چھین لیا تھا، لیکن بڑے بھائی کے شفقت بھرے ہاتھوں نے آپ کے دل پر غم کے بادل نہیں آنے دیئے۔ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی امام علی رضا علیہ السلام سے سخت مانوس تھیں ، حضرت امام رضا علیہ السلام کے مجبورا شہر مرو سفر کرنے کے ایک سال بعد ۲۰۱ھ قمری میں آپ اپنے بھائیوں کے ہمراہ بھائی کے دیدار اور اپنے امام زمانہ سے تجدید عہد کے قصد سے عازم سفر ہوئیں راستہ میں ساوہ پہنچیں لیکن چونکہ وہاں کے لوگ اس زمانے میں اہلبیت (ع) کے مخالف تھے لہٰذا انھوں نےحکومتی اہلکاروں سے مل کر حضرت فاطمہ معصومہ (س) اور ان کے قافلے پر حملہ کردیا اور جنگ چھیڑدی جس کے نتیجہ میں حضرت کے ہمراہیوں میں سے بہت سے افراد شہید ہوگئے حضرت غم و الم کی شدت سے مریض ہوگئیں اور شہر ساوہ میں ناامنی محسوس کرنے کی وجہ سے فرمایا : مجھے شہر قم لے چلو کیونکہ میں نے اپنے بابا سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے : قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے ۔

اس طرح حضرت معصومہ (س) ساوہ سے قم پہنچ گئیں ۔
بزرگان قم جب اس مسرت بخش خبر سے مطلع ہوئے تو حضرت کے استقبال کے لئے دوڑ پڑے ، موسیٰ بن خزرج اشعری نے اونٹ کی زمام ہاتھوں میں سنبھالی اور فاطمہ معصومہ (ص) اہل قم کے والہانہ استقبال میں شہرقم میں وارد ہوئیں ۔ موسیٰ بن خزرج کے ذاتی مکان میں نزول اجلال فرمایا ۔

حضرت معصومہ (س) نے ۱۷دنوں تک قم میں زندگی گزاری اور اس مدت میں ہمیشہ مشغول عبادت رہیں اور اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتی رہیں ۔

باب الحوائج امام موسیٰ ابن جعفر(ع) کی دریگانہ،امام ضامن آہو حضرت علی ابن موسیٰ الرضا(ع) کی ہمشیر گرامی حضرت فاطمۂ معصومہ علیہا اسلام کی ذات اقدس ہر خاص و عام کے درمیان اس قدر بلند اور مقبول ہے کہ نہ صرف شیعیان اہل بیت علیہم السلام ان کے دربار میں آکر ” یا فاطمۃ اشفعی لنا “کی آواز بلند کرتے ہیں بلکہ دوسرے مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے پیروان اسلام بھی یہاں آ کر زانوئے ادب خم کرتے دیکھے گئے ہیں، حضرت معصومہ(س) قم اس الہی مکتب کی پرورش یافتہ ہیں جہاں لطف و مہربانی اپنے عروج پر ہے۔ امام رضا علیہ السلام نے اپنی زندگی میں ہی آپ کی عظمت و منزلت بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا: "جو شخص بھی قم میں حضرت معصومہ (س) کی زیارت کرے گا،وہ ایسے ہی ہے ،گویا اس نے مشہد میں میری زيارت کی ہے.
قم میں حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کا روضہ اور ان کی قبر مبارک ، شیعیان اہلبیت کے دلوں کی قبلہ گاہ اور بیماروں کے لئے دار الشفاء ہے ۔

حضرت امام جواد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو قم میں میری پھوپھی کی زیارت کرےگا وہ بہشت کا مستحق ہوگا۔ حضرت امام جواد (ع) کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ معصومہ (ع) کی معرفت کے ساتھ زيارت بہشت میں داخل ہونے کی اہم دستاویزات میں شامل ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .