حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شمع محمد رضوی نے دہ کرمات کے موقع پر تمام مومنین کرام کو تہنیت پیش کرتے ہوئے بیان کیا کہ بھائی بہن کی زندگی ایک مثالی زندگی ہے جوتمام بشریت کے لئے ہرلمحہ درس زندگی ہے،مولاناموصوف نےنوجوانوں اور جوانوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ آئیے سب سے پہلے اس بی بی کریمہ کی زندگی پر ایک مختصر سی روشنی ڈالی جائے؛
حضرت معصومہ (س) قم، کی مختصر حالات زندگی: حضرت فاطمہ معصومہ پہلی ذیعقدہ میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں، آپ کی پرورش ایسے خاندان میں ہوئی جس کا ہر فرد بافضیلت اور باکمال تھا۔ زہد اور عبادت، تقویٰ اور پرہیزگاری، حلم اور بردباری، صداقت اور استقامت، جود اور کرم، عفت اور پاکدامنی نیز یادِ خدا، اس خاندان کی برجستہ صفات ہیں، اس خاندان کے بزرگ ہدایت کے پیشوا،امامت کے روشن ستارے اور انسانیت کی کشتی کے ناخدا ہیں۔٢٠٠ھ ہجری میں مامون عباسی کے بے حداصرار اوردھمکیوں کی وجہ سے امام علیہ السلام سفر کرنے پر مجبور ہوئے امام علیہ السلام نے خراسان کے اس سفر میں اپنے عزیزوں میں سے کسی ایک کو بھی اپنے ہمراہ نہیں لیا ۔امام کی ہجرت کے ایک سال بعد بھائی کے دیدار کے شوق میں اور رسالت زینبی اور پیام ولایت کی ادائیگی کے لئے آپ نے بھی وطن کو الوداع کہا اور اپنے کچھ بھائیوں اور بھتیجوں کے ساتھ جانب خراسان روانہ ہوئیں۔ہر شہر اور ہرمحلے میں آپ کا والہانہ استقبال ہورہاتھا،یہی وہ وقت تھا کہ جب آپ اپنی پھوپھی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی سیرت پرعمل کرکے مظلومیت کے پیغام اور اپنے بھائی کی غربت مؤمنین اور مسلمانوں تک پہنچارہی تھیں اور اپنی و اہلبیت کی مخالفت کا اظہار بنی عباس کی فریبی حکومت سے کررہی تھیں ،یہی وجہ تھی کہ جب آپ کا قافلہ شہر ساوہ پہونچا تو کچھ دشمنان اہلبیت علیہم السلام جن کے سروں پر حکومت کا ہاتھ تھا، راستے میں حائل ہوگئے اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاکے کاروان سے ان بد کرداروں نے جنگ شروع کردی، کاروان کے تمام مرد شہید کر دئے گئے، ایک روایت کے مطابق حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاکو بھی زہر دیا گیا ۔بہر کیف حضرت معصومہ سلام اللہ علیہااس عظیم غم کے اثر سے یا زہر جفا کی وجہ سے بیمار ہوگئیں اب حالت یہ تھی کہ خراسان کے سفرکو جاری رکھنا ناممکن ہوگیالہٰذا شہر ساوہ سے شہر قم کا قصد کیااور آپ نے پوچھا اس شہر (ساوہ) سے قم کا کتنا فاصلہ ہے۔اس دوری کو لوگوں نے آپ کو بتایا تو اس وقت آپ نے فرمایا: مجھے قم لے چلو اس لئے کہ میں نے اپنے والد محترم سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا :شہر قم ہمارے شیعوں کا مرکز ہے۔اس مسرت بخش خبر سے مطلع ہوتے ہی اہل قم میں خوشی کی ایک لہر پیدا ہوگئی اور وہ سب کے سب آپ کے استقبال میں دوڑ پڑے۔ موسی بن خزرج جو کہ اشعری خاندان کے بزرگ تھے انھوں نے آپ کے ناقہ کی مہار کو آگے بڑھ کر تھام لیا اور باقی تمام لوگ پروانوں کی طرح اس کاروان کے ارد گرد چلنے لگے۔ ٢٣ربیع الاول ٢٠١ھ وہ عظیم الشان تاریخ تھی جب آپ کے مقدس قدم قم کی سرزمین پر آئے۔پھر اس محلے میں جسے آج کل میدان میر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے حضرت کی سواری موسی بن خزرج کے گھر کے سامنے بیٹھ گئی، آپ کی میزبانی کا عظیم شرف موسی بن خزرج کو مل گیا۔اس عظیم ہستی نے صرف سترہ(١٧) دن اس شہر میں زندگی گزاری اور ان ایام میں آپ اپنے خدا سے راز ونیاز اور اس کی عبادت میں مشغول رہیں۔آخر کار ١٠ ربیع الثانی اور ایک قول کے مطابق١٢ ربیع الثانی ٢٠١ ھ قبل اس کے کہ آپ کی چشم مبارک برادر عزیز کے چہرہ منور کی زیارت کرتی ،غریب الوطنی میں ہی بند ہوگئیں۔
حضرت معصومہ س علم و دانش کا سرچشمہ: والد بزرگوار کی شہادت کے بعد آپ کے بڑے بھائی یعنی حضرت امام رضا علیہ السلام نے آپ کی تعلیم اور تربیت کی ذمہ داری سنبھالی، آپ کمالات اور پارسائی کی وجہ اپنے بھائی کی خاص توجہ کا مرکز تھیں اسی لیے ساتویں امام کی تمام اولاد میں جو مقام و منزلت آپ نے پائی وہ کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوئی، ابن صباغ مالکی اس سلسلہ میں تحریر کرتے ہیں: ابوالحسن معروف بہ کاظم کی تمام اولاد صاحب فضیلت ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت امام کاظم علیہ السلام کی اولاد میں حضرت امام رضا علیہ السلام کے بعد علمی اور اخلاقی اعتبار سے حضرت معصومہ کو برترین مقام حاصل ہے۔ اس حقیقت کی گواہ آپ کے وہ القاب اور اوصاف ہیں جو ائمہ معصومین کی زبان مبارک سے نکلے ہیں، معصومین کے بیانات سے یہ بات روشن ہوتی ہے کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی طرح آپ بھی عالمہ غیر معلمہ تھیں۔
مولانا موصوف سے جب آپکی فضیلتوں پرکچھ سوال کئے گئے توآپ نے فرمایا!حضرت معصومہ [س]فضائل و کمالات کا مظہر:حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا کا حرم مکہ ہے، پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حرم مدینہ ہے، امیرالمومنین کا حرم کوفہ ہیاورمیرا اور میری اولاد کا حرم قم، قم ہمارا چھوٹا کوفہ ہے، جنت کے آٹھ دروازوں میں سے تین دروازہ قم کی سمت کھلتا ہے، ہماری اولاد میں فاطمہ بنت موسی اس جگہ دفن کی جائے گی، اس کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ جنت میں داخل ہوں گے۔
حضرت معصومہ س کا علمی مقام: حضرت معصومہ دنیا کا شمار دنیائے تشیع کی باعظمت خواتین میں ہوتا ہے، آپ علم و دانش کی عظیم منزل پر فائز ہیں۔ نقل کیا گیا ہے کہ ایک روز شیعوں کا ایک گروہ حضرت امام موسی کاظم سے ملاقات اور اپنے سوالات کا جواب حاصل کرنے کی غرض سے مدینہ آیا، چوں کہ حضرت امام کاظم علیہ السلام مدینہ میں نہیں تھے لہذا ان لوگوں نے اپنے سوالات لکھ کر حضرت معصومہ جو ابھی کمسن تھیں، کے حوالے کر دیا، وہ لوگ دوسرے دن بھی امام سے ملنے ان کے بیت الشرف پہونچے لیکن امام ابھی بھی سفر سے نہیں لوٹے تھے لہذا انھوں نے اپنے سوالات کو واپس مانگا تاکہ کسی اور موقع پر آکر امام سے ان کا جواب حاصل کریں، حضرت معصومہ ]س[نے جب ان کو ان کے سوالات لوٹائے تو انھوں نے دیکھا کہ سوالوں کے ساتھ ان کا جواب بھی لکھا ہے، وہ بہت خوش ہوئے اور انھوں حضرت معصومہ ]س[ کا بے حد شکریہ ادا کیا۔ جب وہ لوگ لوٹ رہے تھے تو راستے میں اتفاق سے امام کاظم علیہ السلام سے ملاقات ہو گئی، ان لوگوں نے امام سے سارا ماجرا نقل کیا۔ جب امام نے ان سوالوں کا جواب پڑھا تو تین بار فرمایا: فداھا ابوھا، فداھا ابوھا، فداھا ابوھا۔
حضرت معصومہ (س) کی زیارت روایات کی روشنی میں:روایتوں میں حضرت معصومہ کی زیارت کی بے حد فضیلت بیان کی گئی ہے، نقل کیا گیا کہ ایک بار سعد بن سعد حضرت امام رضا علیہ السلام کی خدمت مین شرفیاب ہوئے تو امام نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:اے سعد! تمہارے شہر میں ہمارے خاندان کی ایک قبر ہے۔ سعد نے عرض کیا: قربان جاوں! کیا آپ کی مراد فاطمہ بنت موسی بن جعفر ہیں؟ امام نے جواب دیا: ہاں، جو معرفت کے ساتھ اس کی زیارت کرے وہ جنت کا حقدار ہے۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا: جو قم میں میری پھوپھی کی زیارت کرے گا وہ جنت کا حقدار ہے۔