حوزہ نیوز ایجنسی । رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ کی مکی زندگی مشرکین اور کفار مکہ کی جانب سے اذیت، آذار، سختی، مشکلات اور شکنجوں سے عبارت ہے، بالاخر حکم خدا سے آپ نے مسلمانوں کے ہمراہ مدینہ منورہ ہجرت کی یوں مدینہ دارالاسلام اور مہاجرین و انصار آپس میں بھائی بن گئے اور رسول اکرم کی رہبری میں اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ غزوۂ بدر یا بدرالکبری پہلی جنگ تھی جو مسلمانوں اور کفار مکہ کے درمیان 17رمضان المبارک کو بدر کے مقام پر ہوئی۔
اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد کم ہونے کے باوجود خدا نے فتح عطا کی۔ کفار مکہ میں سے بعض قتل اور بعض اسیر ہوئے۔اس کامیابی نے مسلمانوں کی طاقت اور قدرت کو مشرکین پر آشکار کیا۔
تاریخی حقائق کے مطابق اس جنگ میں یہ کامیابی مسلمانوں خصوصاً حضرت علی علیہ السلام اور حضرت حمزہ علیہ السلام جیسے جانثاروں کی جرأت وبہادری کا نتیجہ تھی۔
قرآن کریم نے اس کامیابی کو غیبی امداد قرار دیاہے اور اس جنگ کو بدرالکبری بھی کہا جاتا ہے۔
مشہور نقل کے مطابق جنگ بدر 17 بروز جمعہ کی صبح اور ایک روایت کے مطابق 19رمضان سال دوم ہجری کو پیش آئی۔
خداوند عالم نے کاروان مکہ کی خبر پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو دی۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے اعلان کیا اور 313 اصحاب سمیت مدینے سے نکلے، پندرہ رمضان کو بدر نامی مقام تک پہنچے اور کنویں کے نزدیک نماز ادا کی۔ خدا نے لشکرِ کفر پر اسلامی لشکر کو فتح وکامیابی عطا کی اور سورۂ آل عمران، النساء اور انفال میں جنگِ بدر کی جانب اشارہ اور اس دن کو یوم الفرقان کے نام سے یاد کیا ہے۔ جنگِ بدر میں فرشتوں کے نزول اور غیبی مدد کا ذکر بھی ملتا ہے جو مسلمانوں کے دلوں کی مضبوطی کا سبب بنا۔
اسلامی تاریخ میں غزوۂ بدر مسلمانوں کی قدرت، طاقت، غیبی امداد اور کامیابی کا درخشان باب ہے۔