حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ نواسہ رسول اکرم حضرت امام حسن ؑجوانان جنت کے سردار ہیں۔ آپ کے علم‘ حلم‘ جلالت اور کرامت میں عکس رسول اکرم واضح طور پر نظر آتا ہے۔ حضرت علی ؑکے بعد امامت کا درجہ رکھتے ہیں آپ نے جس انداز میں ظاہری زندگی بسر فرمائی اور امن و اخوت اور صلح و محبت کی لاثانی روایات قائم کیں ان سے سیرت رسول اکرم کی عکاسی ہوتی ہے۔ امام حسن مجتبی ؑ کا یہ قول ”جو شخص دنیا کو بہت محبوب رکھتا ہے اس کے دل سے آخرت کا خوف چلا جاتا ہے“ انسان و انسانیت کی ہدایت کے لئے بہترین گائیڈ لائن ہے۔
حضرت امام حسن ؑ کی ولادت باسعادت (15 رمضان المبارک) کے مبارک موقع علامہ ساجد نقوی نے مزید کہا کہ صلح امام حسن ؑ عالم اسلام کےلئے مشعل راہ ہے جس کی روشنی میں جس سے سبق حاصل کرکے مسلمان انتشار و افتراق‘ جنگ و جدال اور قتل و غارت گری سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ حضرت امام حسنؑ نے جن مشکل‘ کٹھن اور سنگین حالات میں اسلام کی بقااور امت مسلمہ کو جنگ اور فساد سے بچانے کےلئے صلح کی یہ ان کے کردار کی خصوصیت اور سیرت کا امتیاز ہے۔ تنگ نظری‘ ذاتی خواہش اور انفرادی مفاد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کے حصول اور اسلام کے استحکام کے لئے باہمی رواداری اور صلح و محبت کا ماحول بناکر آپ نے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔
علامہ ساجد نقوی نے مزید کہا کہ نواسہ رسول حضرت امام حسن ؑ کی سیرت و کردار سے الہام لیتے ہوئے ہم نے بھی وطن عزیز میں اتحاد و وحدت کی جدوجہد کو آگے بڑھایا جس سے نہ صرف ارض پاک انتشار و افتراق سے محفوظ رہا بلکہ پاکستانی عوام بھی اخوت کی لڑی میں پرﺅے جاچکے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اتحاد بین المسلمین کا فروغ اور اخوت و وحدت ہمارا دینی و اسلامی فریضہ ہے۔ اسلام کی بقاءاور امت کی وحدت کے لئے ہماری جدوجہد جاری ہے تاہم ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ملک سے انتہا پسندی و قتل و غارتگری کا قلع قمع کیا جائے تاکہ ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا نہ ہو۔
قائد ملت جعفریہ پاکستان نے یہ بات زور دے کر کہی کہ آج کے اس کٹھن دور میں جب مسلمان فرقہ واریت‘ مسلک پرستی‘ شدت پسندی اور اخلاقی جرائم میں مبتلا ہیں وقت کا تقاضا ہے کہ ان مسائل سے نبرد آزما ہونے اور اختلافات کو جڑوں سے اکھاڑنے کے لئے باہمی صلح و رواداری کو فروغ دیا جائے اور فروعی اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے سینکڑوں مشترکات پر بلاتفریق فرقہ و مسلک جمع ہوکر اسلام و مسلمین کو متحد کیا جائے اسی سے دین اسلام کو مستحکم ہوگا اور مسلمان خدا کی دنیا کے وارث ہوں گے۔