۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مجمع جہانی شیعہ شناسی

حوزہ / رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے موقع پر، مجمع جہانی شیعہ شناسی نے قرآنی مراکز اور اداروں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن نیٹ ورکس اور قرآنی سافٹ ویئر کی تیاری اور تقسیم کے مراکز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قرآنی سرگرمیوں، صوت و ترتیل کو فروغ دیتے ہوئے تکفیری قاریوں کی ترویج نہ کریں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی "اکنا" سے رپورٹ کے مطابق، مجمع جہانی شیعہ شناسی (ورلڈ اسمبلی آف شیعہ اسٹڈیز) نے قرآنی مراکز اور اداروں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن نیٹ ورکس اور قرآنی سافٹ ویئر کی تیاری اور تقسیم کے مراکز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے موقع پر قرآنی سرگرمیوں، صوت و ترتیل کو فروغ دیتے ہوئے تکفیری قاریوں کی ترویج نہ کریں۔

مجمع جہانی شیعہ شناسی کے پیغام کا متن اس طرح ہے:

بسم الله الرحمن الرحیم

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ .

ہم اس وقت رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی شروعات پر ہیں، جو کہ قرآن مجید کے نزول کا مہینہ ہے اور اس مہینہ میں اکثرمومنین کلام وحی اور اہل بیتِ رسول صلوات الله علیہم اجمعین کی سیرت کی پیروی اور ان سے مأثور دعاؤں سے مرتبط ہوتے ہیں۔

اس مہینے میں، آیاتِ کریمہ کی نورانیت نے تمام اسلامی معاشروں کا احاطہ کئے ہوتا ہے اور شبِ قدر کی مبارک راتوں میں تو اللہ کی وسیع رحمت حجتِ خدا پر ملائکۃ اللہ کے نزول کے ساتھ عروج پر ہوتی ہے اور اس میں مومن انسان کی روح اس سفرۂ الہی سے بھرپور استفادہ کرتی ہے۔

یہ مقدس مہینہ خدا کی دو عظیم نعمتوں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو عظیم امانتوں یعنی قرآن و اہل بیت علیہم السلام کے نورانی مظاہر کی راہ ہموار کرتا ہے۔ کہ جن سے تمسک کرتے ہوئے امتِ اسلامی کبھی بھی گمراہی کا شکار نہیں ہو سکتی اور جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا ہے کہ "یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوں گے حتی کہ حوضِ کوثر پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وارد ہوں گے(آ ملیں گے)"۔

لہٰذا، کوئی بھی تفرقہ انگیز دعوت جو "حَسْبُنَا كِتَابُ‏ اللهِ" کہہ کر دوسرے ثقل یعنی اہل بیت علیہم السلام کو قرآن کریم سے الگ کرنے کی کوشش کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز "قُومُوا عَنّی" سے اس کی سرزنش کی جائے گی اور انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محضر مبارک سے نکال دیا جائے گا اور اسی طرح قرآن کریم کا ہر وہ قاری جو اہل بیت عصمت و طہارت اور ان کے پیروکاروں کے ساتھ دشمنی اور کینہ پروری کرے گا، "رُبَّ تالِ القرآنِ و القرآنُ يَلعَنُهُ" کا مصداق قرار پاتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نفرین کا مستحق ٹھہرے گا۔

بدقسمتی سے تاریخ اسلام نے ایسے راویوں اور قاریوں کا مشاہدہ کیا ہے جو قرآن کریم کے خالق کے بقول " کلامِ وحی کا لفظ ان کے لبوں سے کبھی بھی ان کے دلوں میں نہیں اترتا"، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے فقط کاغذ اور سیاہی سے قرآن کریم کو بطور تصنیف استعمال کیا اور ناطقِ قرآن سے روگردانی کی اور قرآن لانے والی ذات کی اولاد کا سر نیزہ پر بلند کیا اور قرآن کی تلاوت کرنے والے کے ہونٹوں اور دانتوں پر ظلم کیا اور ان کی توہین کی۔

ہمارے دور میں بھی اس زمانے کی طرح قرآن کریم کو اہل بیت علیہم السلام سے جدا کرنے والے افراد کو قرآن کریم کی تلاوت اور قرائت کرنے والوں میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے جو اپنے غیر فرقہ مسلمانوں سے دشمنی و خصومت کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ ان سے قرآن پاک کے کم از کم اخلاقی معیارات کا خیال نہیں رکھتے بلکہ انسانی اخلاقیات کے اصولوں اور بنیادوں کی بھی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

یہ تکفیری تحریکیں اہل قبلہ اور قرآن کے درمیان رحمت اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے بجائے سعودی تیل کے ڈالرز سے پروردہ تکفیری سلفی فرقہ واریت کو فروغ دینے اور مسلمانوں کی اکثریت بالخصوص اہل بیت علیہم السلام کے پیروکار مسلمانوں کو مشرک پکارنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

الحذیفی جیسا فرقہ پرست قاریٔ قرآن، جسے آل سعود نے مسجد نبوی (ص) کی امامتِ جماعت کے لیے مقرر کیا تھا، چونکہ مکتب اہل بیت علیہم السلام کے خلاف بغض رکھتا تھا لہذا اس نے حتی سرکاری اور اعلیٰ ربتہ مسلمان ایرانی مہمانوں کی حرمت تک کو پامال کیا اور اسی طرح آلِ سعود کی جانب سے مسجد الحرام کی امامتِ جماعت پر منصوب قاری "السدیس" ، جو غیر وہابی مسلمانوں کے خلاف انتہائی فحش اور غلیظ زبان استعمال کرتا ہے اور شیعہ مسلمانوں کو قتل کرنے اور ان کی نوامیس کو کنیز بنانے کی دھمکی دیتا ہے، یا ایک اور وہابی تکفیری قاری جو حملہ آور سعودی بمبار پائلٹ کے ساتھ بیٹھتا ہے اور وہ مظلوم یمنیوں کے قتلِ عام میں مشارکت کرتے ہوئے فخریہ طور پر اپنے اس مجرمانہ فعل کو میڈیا میں منتشر بھی کرتا ہے۔

یقیناً قرآن کریم اور اس کے لانے والے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے غیر انسانی رویوں کو ناپسند اور ان سے نفرت کرتے ہیں اور یہ تلاوت کرنے والے "اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا" کا مصداق قرار پاتے ہوئے " رُبَّ تالَ القرآن والقرآنَ یلعنُهُ" کی واضح مثال ہیں۔

اب ان صریح قرآن کے مخالف چہروں کو دیکھتے ہوئے آیا کسی مسلمان ملک میں ان فرقہ پرست قاریوں کی آواز کو اسلامی ملک کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن چینلوں پر نشر کیا جانا درست ہے؟ یا آیا انہیں مصر اور ایران کے ممتاز قاریوں کی آوازوں کے برابر رکھا جانا صحیح ہے؟ یا کچھ لوگوں کو ان کے پڑھنے کے طریقے کی نقل کرنے کی ترغیب دی جانا صحیح ہے؟

آیا مولای متقیان حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام ہمارے رول ماڈل نہیں ہیں؟ کیا ان کی سیرت میں یہ بات نہیں ملتی کہ انہوں نے اپنے صحابی "کمیل" کو ولایتِ اہل بیت علیہم السلام کی مخالفت کرنے والے بظاہر خوبصورت شخص کی تلاوت سننے سے منع کیا تھا؟

کیا ہمارے پاس اہل بیت علیہم السلام کے پیروکاروں اور چاہنے والوں میں سے سینکڑوں قاریانِ قرآن موجود نہیں ہیں، جو ہر سال قرآن کریم کی تلاوت کے عالمی مقابلوں میں اعلیٰ مقام حاصل کرتے ہیں؟

ان اساتید اور نامور قاریوں کے باوجود ممتاز تکفیری قاری کو متعارف کرانے کی کیا ضرورت ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ مکتبِ اسلام اور قرآن کریم جیسی مقدس کتاب فرقہ واریت اور تکفیر کو فروغ دینے کو پسند نہیں کرتی ہے اور مسلمانوں کو فرقہ واریت اور تکفیر کو فروغ دینے والے قاریوں کی آواز سننے کی ضرورت نہیں ہے۔

لہٰذا، رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے موقع پر، تمام قرآنی مراکز اور اداروں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن نیٹ ورکس اور قرآنی سافٹ ویئر کی تیاری اور تقسیم کے مراکز سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اس اہم نکتہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے قرآنی سرگرمیوں، صوت و ترتیل کو فروغ دیتے وقت تکفیری قاریوں کی ترویج سے پرہیز کریں اور صاحبِ شریعت کی خوشنودی کا باعث بنیں۔

والسلام علیکم و رحمۃ الله و برکاته

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .