تحریر: سکندر علی بہشتی
حوزہ نیوز ایجنسی । دینِ اسلام کے فروعی اعمال میں نماز کے بعد روزہ کو اہمیت حاصل ہے، جو پورے سال میں ایک مہینہ رمضان المبارک میں مکلفین پر واجب ہے۔ روزہ کے فلسفہ واثرات کی جانب قرآن اور رویات معصومین میں اشارہ کیا گیاہے۔ ان شرائط میں بعض فقہی ہیں جو صحت روزہ کے لئے شرط ہیں اوران کی تفصیل مراجع عظام نے توضیح المسائل میں بیان کیا ہے لیکن آیات وروایات میں روزہ کے فلسفہ و اثرات کے حامل وہ روزے ہیں جن میں اس کے معنوی،اخلاقی اور حقیقی پہلووں کی رعایت کی گئی ہو۔ زیر نظر تحریر میں روزہ کے معنوی پہلو پر پر بحث کی گئی ہے۔
قرآن کریم میں روزہ کے واجب ہونے کا فلسفہ اس آیت میں واضح طور پر بیان ہوا ہے:
یٰا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامَ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَقُوْنَ ۔(بقرہ ۱۸۳)
’’اے ایمان دارو! تم پر روزہ اسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم اس کی وجہ سے گناہوں سے بچ جاؤ ۔‘‘
زیر نظر آیت میں ماہ مبارک رمضان کی برتری کی وجہ بیان کی گئی ہے اس لئے روزے کے تربیتی پروگرام زیادہ سے زیادہ اور گہری آگاہی کے ساتھ آسمانی تعلیمات سے ہم آہنگ ہونا چاہئے تاکہ اس سے روح وبدن کی آلودگی و گناہ دھل جائے ۔
روزہ احادیث میں:
اس مہینے میں شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ رسو ل خدا فرماتے ہیں: جب رمضان کا چاند دکھائی دیتا ہے تو جہنم کے دروزے بند اور بہشت کے دروزے کھول دیے جاتے ہیں، نیز شیطان زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں ۔حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ جبرائیل سے فرماتا ہے:’’زمین پر اترواور سرکش شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ دو تاکہ وہ میرے بندوں کے روزے خراب نہ کریں۔‘‘(میزان الحکمہ ج۴،ص۳۳۰)
روزہ ڈھال ہے:
تجھ پر روزے کی پابندی لازم ہے کیونکہ یہ جہنم کے خلاف ڈھال ہے ۔اگر ممکن ہو کہ تمہیں بھوکے پیٹ موت آئے تو ایسا ہی کرو۔ روزہ جسم کی زکاۃ ہے۔حضرت علی ؑ فرماتے ہیں تم پر روزے رکھنا واجب ہے کیونکہ روزہ بدن کی زکوٰۃ ہے ۔ہرچیز کی ایک زکوۃ ہے اور جسم کی زکوۃ روزہ ہے ۔(میزان الحکمہ ج۴،ص۴۰۰)
دل کا روزہ:
امام علی ؑ فرماتے ہیں:جسمانی روزہ یہ ہوتا ہے کہ عذاب کے خوف واجر وثواب کی خواہش میں اپنے ارادہ واختیار کے ساتھ کھانے پینے سے اپنے آپ کو روکاجائے۔دل کاروزہ یہ ہوتا ہے کہ حواس خمسہ کو باقی گناہوں سے روکا جائے اور دل کوبرائیوں کے تمام اسباب سے خالی رکھاجائے۔دل کاروزہ،زبان کے روزہ سے بہتر ہے اور زبان کاروزہ شکم کے روزہ سے بہتر ہے ۔(میزان الحکمہ ج۵،ص۷۰۲)
روزہ حرام سے بچنے کانام ہے:
حضرت رسول اکرم ؐ نے جابر بن عبد اللہ انصاری سے فرمایا:اے جابر! یہ رمضان المبارک کامہینہ ہے جو شخص ا س کے دن کو روزہ رکھے،اس کی رات کے کچھ حصے میں نماز پڑھے،اپنے پیٹ شرمگاہ اور زبان کو (حرام سے ) بچائے رکھے تو وہ شخص گناہوں سے ایسے باہر آجائے گا جس طرح اس مہینہ سے باہر آتا ہے ۔(میزان الحکمہ ج۵،ص۷۰۳)
ریاضت کا حصول،فلسفہ روزہ:
امام حسن ؑ فرماتے ہیں: خداوندعالم نے ماہ رمضان کو لوگوں کی ریاضت کے لئے بنایا ہے، تاکہ اس کی بندگی کی راہ میں مقابلہ کریں۔ پس ایک گروہ اس مقابلے میں کامیاب ہواہے اور دوسرا گروہ ناکام رہا ہے اور اس نے اپنے مقصود کو نہیں پایا ہے۔ پس ایسے انسان پر تعجب ہوتا ہے جو اس دن کھیل کود اور ہنسی مذاق میں مشغول ہو جس دن نیکو کارجزا پائیں گے اور گناہ گار خسارہ دیکھیں گے۔
گرمی کے روزے کا فلسفہ:
جو شخص گرمی کے زمانہ میں خدا کی رضا کے لئے روزہ رکھے اور اسے پیاس لگے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک ہزار فرشتہ بھیج دیتا ہے جو اس کے چہرے کو پونچھتے ہیں اور افطار تک اسے خوشخبری دیتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: تمہاری خوشبو اور سانسیں کس قدر پاکیزہ ہیں، میرے فرشتو گواہ رہنا کہ میں نے اسے بخش دیا ہے ۔(میزان الحکمہ ج۵ص۷۰۶)
سردیوں کے روزے کا فلسفہ:
سردیوں میں روزے رکھنا پاکیزہ اوربے مشقت کی کمائی ہے۔(میزان الحکمہ ج۵ص۷۰۷)
انسان کے لئے اجروثواب اس عمل پر مشقت کے مطابق ہے چاہے وہ عمل اعضا وجوارح کے ذریعے انجام پائے یاکسی اور طریقے سے، اسی لئے پیغمبر اکرم ؐنے فرمایا: افضل عبادت وہ ہے جس میں مشقت زیادہ ہو۔ ایک اور روایت کے مطابق بہترین عمل وہ ہے جس میں مشقت زیادہ ہو۔
وجوب روزہ کا سبب:
اگر کوئی کہے کہ لوگوں کوروزے کا حکم کیوں دیا گیا ہے تو جواب میں کہا جائے گا کہ انہیں معلوم ہو کہ بھوک اور پیاس کی کس قدر تکلیف ہوتی ہے اس سے وہ آخرت کے فقر وفاقہ کو سمجھیں اور نیز اس لئے بھی کہ روزہ دار خضوع وخشوع اور فروتنی اختیار کرے تو اسے اس کااجر ملے اور وہ یہ سمجھے کہ اس کااجر خدا کے پاس ہے اس کو اس کی معرفت حاصل ہوجائے،اسے بھوک اور پیاس سے جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کرے تاکہ ثواب کامستحق قرار پائے۔ اس کے ساتھ ساتھ (روزہ میں) خواہشات نفسانی کو شکست ہو، دنیا میں لوگوں کو اس سے نصیحت حاصل ہو، آخرت میں فرائض کی ادائیگی کے لئے تیار کرے، ان کی رہنمائی کرے اور انہیں معلوم ہو کہ دنیا میں فقراء ومساکین کس شدت سے فقر وفاقہ میں مبتلا ہوتے ہیں اس طرح وہ اپنے مال میں فرض شدہ واجبات ان کو ادا کریں۔ (میزان الحکمہ ج۵،ص۶۹۳)
فلسفہ روزہ اور تعمیر انسان روزہ انسان کے ایمان اور اس کی روحانیت کو تقویت بخشتا ہے، گناہ سے بچنے کے لئے ارادے کو مستحکم کرتا ہے، مشکلات اور مصائب برداشت کرنے کی قوت پیداکرتاہے۔ روزہ، انسان کو ہلاکت وتباہی سے نجات دلاتا ہے، مشکلوں کوآسان بناتا ہے۔ پیغمبر اسلامؐ نے ایک حدیث کے ضمن میں روزہ دار کو اتنی عظمت کا حامل بتایا ہے کہ قیامت کے دن، اسے گناہ گاروں کی شفاعت کا حق حاصل ہوگا، جو شخص ماہ رمضان میں روزہ رکھے، اپنی زبان اور جنسی خواہشات کو گناہ سے آلودہ نہ ہونے دے، لوگوں کو کسی قسم کی اذیت نہ پہنچائے، خداوند عالم اس کے گذشتہ وآئندہ تمام گناہوں کو بخش دے گا، اسے جہنم سے آزاد کر کے اپنی بہشت جاوداں میں جگہ عطا کرے گا اور گناہ گار مسلمانوں کے سلسلہ میں اس کی شفاعت کو قبول کرے گا۔
روزہ کا ایک اہم فلسفہ انسان کی دنیا وآخرت دونوں کو سنوارتا ہے اور روزہ انسان کی روح کو لطافت، اس کے ارادہ کو قوت اور خواہشات کو توازن واعتدال عطا کرتاہے۔ روزہ انسان کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ بھوک پیاس کے باوجود،آب ودانہ کو ہاتھ نہیں لگاتا، مختصر یہ کہ روزہ انسان کو حیوانیت کی گہری کھائی سے نکال کر ایسی معراج عطا کرتا ہے کہ وہ صف ملائکہ سے بھی آگے نظر آتا ہے .بارگاہ الٰہی سے جب شیطان کو نکالا گیا تو اس نے عہد کیا کہ بنی آدم کو عبادت خدا سے منحرف کر کے غیر خدا کی بندگی پر مجبور کرے گا، لیکن روز ہ شیطان کو اس ناپاک مقصد میں ناکام بنا دیتا ہے اور انسان کو ضلالت وگمراہی نیز شیطانی غلبہ سے محفوظ رکھتا ہے۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔