۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
جامعۃ الکوثراسلام آباد میں استقبال ماہ مبارک رمضان کے عنوان سے مبلغین کے لیے دو روزہ تربیتی دروس کا اہتمام

حوزہ/ مفسر قرآن و شیخ الجامعۃ نے مبلغین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تبلیغ کو حکیمانہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مخاطب کی ذہنی و فکری صلاحیت، نفسیاتی حالت، اس کے عقائد و نظریات اور اس کے ماحول و عادات کو مدنظر رکھا جائے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،جامعۃ الکوثر اسلام آباد میں استقبال ماہ مبارک رمضان کے عنوان سے مبلغین کے لیے دو روزہ تربیتی دروس کا اہتمام کیا گیا۔

حاضرین سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے مفسر قرآن شیخ الجامعۃ علامہ شیخ محسن علی نجفی نے دین مبین اسلام کی موثر تبلیغ کی روش اور طریقہ کار کو اجاگر فرمایا "اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ." (اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں۔ (سورۃ النحل ۱۲۵)

آپ نے درج بالا آیہ مجیدہ کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ دعوت حق ہمیشہ پیار کے ساتھ دی جاتی ہے محبت کی فضاء میں ہی سازگار ہوتی ہے جبکہ نفرت سے دوریاں جنم لیتی ہیں اور اس سے دی جانے والی دعوت کبھی دعوت الی الحق نہیں ہوسکتی۔

آپ کا کہنا تھا کہ دعوت الی الحق تین بنیادوں پر استور ہے۔ ایک حکمت، دوسری موعظہ حسنہ اور تیسری بہترین انداز سے گفتگو کرنا۔ حکمت یعنی حقیقت بینی، واقع بینی۔ لہٰذا حکمت کے ساتھ دعوت دینے سے مراد دعوت کا وہ اسلوب ہو سکتا ہے جس سے مخاطب پر حقائق آشکار ہونے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔

شیخ الجامعۃ نے مبلغین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تبلیغ کو حکیمانہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مخاطب کی ذہنی و فکری صلاحیت، نفسیاتی حالت، اس کے عقائد و نظریات اور اس کے ماحول و عادات کو مدنظر رکھا جائے۔ کیونکہ بہت ساری باتیں اگر بغیر تدبیر و حکمت کے کردی جائیں تو عوام کی سطح ذہنی ان کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتی جس کے نتیجے میں مبلغ کے لیے نامساعد حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔

جیسا کہ امام علیہ السلام کا ارشاد ہے "العالم بزمانہ لا تھجم علیہ اللوابس" اپنے زمانے کے حوادث کو سمجھنے والا حالات کی کھائیوں میں نہیں گرتا۔ لہذا رمضان میں آپ کا واسطہ مختلف قسم کی سوچ رکھنے والے افراد سے پڑتا ہے ان سب سے بات کرتے ہوئے کبھی حکمت کو ترک نہ کریں۔

دوسری چیز موعظہ حسنہ ہے۔ یعنی لوگوں کے سامنے ان کے مسلمات سے دلائل کو پیش کرنا بے جا سختی نہ کریں۔ موعظہ دل سوزی، خیر خواہی کے ساتھ ہو اور مخاطب اس بات کو محسوس کرے کہ ناصح کے دل میں اس کے لیے ہمدردی ہے۔ وہ اس کی خالصانہ اصلاح چاہتا ہے۔

تیسری چیز احسن انداز سے گفتگو کرنا ہے جیسے امام علی علیہ السلام کو یمن کی طرف روانہ کرتے ہوئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسی بات کی نصیحت فرمائی تھی۔

آخر میں آپ نے مبلغ کو تقوی الہی اختیار کرنے کی تاکید کی اور فرمایا کہ دین خدا کی تبلیغ کرنے والا فقط اور فقط خدا سے ڈرتا ہے "الذین یبلغون رسالات اللہ ولا یخشون احدا الا اللہ" خدا کی پیام رسانی کرنے والے خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے۔ کیونکہ یہ خشیت انسان کو بند گلی میں نہیں چھوڑتی بلکہ انسان کے لیے راستے پیدا کرتی ہے جیسے خدا کا وعدہ ہے۔ "یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا" اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو تو وہ تمہیں (حق و باطل میں) تمیز کرنے کی طاقت عطا کرے گا۔ اور اگر کوئی خدا کے علاوہ لوگوں سے ڈرے گا تو وہ جگہ جگہ مشکلات کو شکار ہوگا ہر ایک کو راضی رکھنے کے لیے پریشان رہے گا۔

آخر میں ان کلمات اور تمناؤں کے ساتھ اپنی گفتگو کا اختتام فرمایا کہ ان شاء اللہ خدا آپ سب مبلغین کو قرآنی اسلوب کے مطابق دین کی تبلیغ کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کے لیے ایک آدمی کی نجات ، پورے کرہ ارض پر جہاں سورج کی روشنی پڑتی ہے، اس سے بہتر ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .