تحریر: شاہد عباس ہادی
حوزہ نیوز ایجنسی | بلاشبہ اسلام محبت اور اخوت کا دین ہے، اسلام چاہتا ہے کہ تمام لوگ امن، محبت اور اخوت کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ اسلام محبت کا درس دیتا ہے مگر ایسی محبت نہیں جو ہوس پرستی میں رنگی ہو، اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ غیر محرم کے ساتھ دوستی کا ناطہ جوڑ کر بے حیائی کو عام کیا جائے۔ محبت کو غلط رنگ دے کر لفظِ محبت کو بے حیائی اور فحاشی سے ملانا محبت جیسے پاکیزہ انسانی جذبے کی توہین ہے۔
ہر سال 14 فروری کو عالمی یومِ محبت یا ویلنٹائن ڈے کے نام سے منایا جانے والا یہودی تہوار ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ اس شیطانی رسم نے بے حیائی کا طوفان برپا کردیا ہے، عفت و عصمت کی عظمت اور رشتہ نکاح کے تقدس کو پامال کر دیا ہے اور دینی، اخلاقی اور شرعی طریقوں کا گلا گھونٹ دیا ہے، معاشرے کو پراگندہ کرنے اور حیاء و اخلاق کی تعلیمات کی دھجیاں اڑانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور مغربی دنیا نے بھی بے حیائی کے عالمی دن کو محبت کے لبادے میں خوب پروان چڑھایا تاکہ اپنے شیطانی مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔
بدنگاہی، بے پردگی، فحاشی و عریانی، غیر محرم لڑکے لڑکیوں کا میل ملاپ اور پھر اس ناجائز تعلق کو مضبوط کرنے کیلئے تحائف کا تبادلہ اور آگے بڑھ کر بدکاری تک کی نوبت جیسی برائیاں اس تہوار کو منانے کی مثالیں ہیں جس کا نتیجہ ہم معاشرے میں قتل و غارت کی صورت دیکھ رہے ہیں، کبھی اس نام نہاد محبت نے خاوند کے ہاتھوں محبوبہ کا قتل کروا دیا تو کبھی پرانے عاشق نے ہونے والے شوہر کی جان لے لی، کبھی محبت کی ناکامی پر دو بھائیوں نے خود کشی کرلی تو کبھی نوجوان ٹرین کے آگے کود گیا، کبھی ناکام عاشق نے والدین، چچا، ماموں، خالہ کو قتل کردیا تو کبھی ایک خاندان نے دوسرے خاندان کو موت کی نیند سلا دیا۔ یہ وہ اخباری سرخیاں ہیں جو نام نہاد محبت کی بنا پر معاشرتی المیہ بن چکی ہیں اور آئے روز اخبارات کی زینت بنی ہوتی ہیں۔
اگر ہم ویلنٹائن ڈے کی تاریخی حقیقت پر نظر دوڑائیں تو یہودی و مغربی تہذیب کے شیطانی مقاصد روزِ روشن کی طرح واضح ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اگر ایک انسان اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر فحاشی و بے حیائی کی راہ پر چل پڑے تو یہودیت اور مغربی شیطانوں کا آلہ کار بن جاتا ہے یا پھر اس کا انجام موت ہوا کرتی ہے۔ آج کی مغربی دنیا کا اولین مقصد ایک نوجوان کو اسلام اور روحانیت و معنویت سے دور کرنا ہے تاکہ وہ نوجوان مغربی طاقتوں کا غلام بن جائے یا پھر کٹھن حالات کے پنجرے میں پھنس کر مر جائے جس کیلئے مغربی و صیہونی طاقتوں نے معروف رسالے Time Magazine کے مطابق 17 بلین ڈالر صرف اس تہوار پر خرچ کردیے تاکہ بے حیائی کے ذریعے اسلامی تعلیمات کو پامال کیا جا سکے اور ان شیطانی چالوں کے ذریعے ایک مسلم نوجوان کی زندگی اجیرن کی جا سکے۔ علامہ اقبال رح نے مغربی تہذیب اور رسم و رواج کے بارے کیا خوب کہا:
پیغام یہ دیتا ہے ہمیں ہر شام کا سورج
مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے
واقعی آج ہم ایسے بھیانک دور میں زندگی گزار رہے ہیں کہ اگر سنجیدہ فہم اور ذی علم حضرات اپنی ذمہ داری انجام نہ دیں تو ہمارا معاشرہ قتل و غارت کے دہانے پر پہنچتا دکھائی دیتا ہے اور وہی مغربی شیطان پرست معاشرہ دکھائی دیتا ہے جو اہل مغرب چاہتے ہیں، بلاشبہ اہل مغرب مسلمانوں کو غلامی کی چکی میں پستا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں، اہل مغرب شیطان پرست معاشرہ اور یہودی ریاست بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور اسی خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے کئی خطرناک ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا سب سے خطرناک ہتھیار فحاشی ہے اسی کے ذریعے مسلمان دنیا کو اپنا غلام بناتے ہیں اور اسی کے ذریعے مسلمان نوجوانوں کی زندگی مفلوج کرتے ہیں۔ ان درندوں کے سیاہ کارنامے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، میرا جسم میری مرضی کا غلیظ نعرہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔علمی، سائنسی اور معاشی ترقی کے ساتھ دور جاہلیت کی تہذیب اختیار کرنا اپنے نفس کے ساتھ صریحا ظلم ہے۔ مسلم دنیا کو اس دردناک حقیقت سے آگاہ کرنا ضروری ہے تاکہ اسکے خلاف اقدامات کیے جا سکیں۔ اس دن کو یومِ محبت کی بجائے یوم حجاب و حیاء کے طور پر منانا ضروری ہے تاکہ اسلامی تہذیب کی ترویج ہوسکے، ہر شخص کی ذمہداری ہے کہ اسلامی تہذیب کو پروان چڑھائے تاکہ حیاء و پاکدامنی کے ذریعے معاشرے میں امن و امان برقرار رہے اور ہر ایک معاشرے کو ان مہلک رسومات سے بچا کر ترقی کی راہ پر گامزن کرسکے۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔