تحریر : محمد جواد حبیب
حوزہ نیوز ایجنسی। روشن خیالی کیا ہے ؟ روشن خیال اور تاریک خیال میں کیا فرق ہے ؟ روشن خیالی کس وجہ سے آتی ہے ؟ اسلام اور مغرب کی روشن خیالی میں کیا فرق ہے ؟ یہ وہ سوالات ہے جو اکثر ینورسٹی اور کالج کے اسٹیوڈینس آتے ہیں اس مقالہ میں روشن خیالی کا ایک مختصرسا خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔
مغرب میں تقریبا ۳۰۰ سال برس پہلے روشن خیالی کا دور شروع ہوا یہ دور 1620ء کی دہائی سے 1780ء کی دہائی تک جاری رہا اس دور میں ایک ثقافتی اور فکری تحریک چلی، جس کا مرکز فرانس میں تھا مغرب نے جن نئے علمی، تہذیبی، سیاسی اور سماجی سفر کا آغاز کیا تھا، اسے تاریکی سے روشنی، ظلم سے انصاف ، جبر سے آزادی ، بادشاہت سے جمہوریت اور جھل سے علم کی طرف سفر قرار دیا تھا جہاں اس کی قیادت رینے دیکارت ، کانٹ، منٹسکیئو، ڈیوڈ ھیو م ، لیسنگ ، ڈینس دیدرو جیسے فلسفی کر رہے تھے۔
لیکن اسلام میں۱۴۰۰ سال پہلے جب سے قرآن نازل ہوا تب سے روشن خیالی کا دور شروع ہوا ہے اس بناپر اسلام کی روشن خیالی ،مغرب کی روشن خیالی سے بہت پورانی ہے اسلام نے جس تہذیب اور فرھنگ کے خلاف روشن خیالی کا مظاہرہ کیا تھا اور اسکو ’’دور جاہلیت‘‘ قرار دے کر مسترد کر کیا تھا اور جس جاہلی دور کی اقدار کوپیامبر اسلام نے (ص) نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے قدموں تلے روندنے کا تاریخی اعلان فرمایا تھا ’’جاہلیت کی تمام قدریں آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں‘‘۔
دور جاہلیت کے اقدار کیا تھے ؟مرد و عورت کا آزادانہ اختلاط، ہم جنس پرستی، زنا، فحاشی، عریانی، شراب، جوا، سود، کہانت، حلال و حرام کا عدم امتیاز اور ناچ گانا و غیرہ، یہ سب کی سب اقدار وہ ہیں جو ابوجہل اور ابولہب کے دور جاہلیت کا خاصہ تھیں اور آج کی طرح اس دور میں بھی ترقی اور افتخار کی علامت تصور ہوتی تھیں، مگر پیامبر اسلام (ص) نے ان تمام جاہلی اقدار کے خاتمے کا اعلان کیا اور ان اقدار کے خاتمے کو جاہلیت کے دور کے خاتمے سے تعبیر کیا، مگر آج مغرب انہی جاہلی اقدار کو پھر سے جھاڑ پھونک کر نئے میک اپ کے ساتھ دنیا کے سامنے جدید تہذیب و ثقافت کی ترقی یافتہ اقدار کے طور پر پیش کر رہا ہے اور ہم مسلمانوں سے مسلسل مطالبہ کر رہا ہے کہ انسانی معاشرت کی جن جاہلی اقدار کو ہم چودہ سو سال پہلے پاؤں تلے روند کر آگے بڑھے تھے، انہی جاہلی روایات و اقدار کو جدید تہذیب و تمدن اور ثقافت کے نام پر دوبارہ اختیار کر لیں۔
اس بناپر اسلام کی روشن خیالی اور مغرب کی روشن خیالی میں آسمان اور زمین کا فرق ہے اسلام کی روشن خیالی کا جائزہ یوں کیا جاسکتا ہے ۔اسلام کہتا ہے کہ دوسرے کے معبودوں کو برا بھلا نہ کہو، اگر کسی جان کو ناحق قتل کر دیا تو اس نے انسانیت کا قتل کر دیا اور اگر کسی کی جان بچالیا تو انسانیت کو بچا لیا، دوسروں کی بہو بیٹیوں کا احترام اپنی بہو بیٹیوں کی طرح کرو ، ان پر نگاہ مت ڈالو اور اپنی نگاہیں جھکی رکھو ، شرمگاہ کی حفاظت کرو،اسلام کی روشن خیالی یہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر بچوں کو قتل مت کرو اور یہ کہ رزق کی ذمہ داری اللہ کی ہے ، جو بچہ پیدا ہوتا ہے وہ اپنے ساتھ ایک سوچنے والا دماغ اور کام کرنے والا ہاتھ لے کر آتا ہے ۔ یتیموں اور ضعفاء کے مال کی طرف نگاہ مت ڈالو، سارے لوگ برابر ہیں اور ان میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہونی چاہئے ۔ یہ وہ روشن خیالی ہے جس کی مثال کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی ۔1۔ زمانہ جاہلیت میں بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی دفنا دیا جاتا تھا۔ دین محمدی ﷺ نے کھل کر اور واضح طور پر اس بدتریں عمل کی مذمت کی اور بیٹی کو رحمت کا درجہ دیا۔ حدیث میں یہاں تک ملتا ہے کہ یہ وہ عورت خوش نصیب ہے جس کی پہلی اولاد بیٹی ہو۔2۔ قرآن مجید کے احکام کے ذریعے یہ پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے طلاق و خلع کے معاملات میں عورت کو جو تحفظ فراہم کیا ہے وہ پوری دنیا کے مذاہب میں سے کسی اور مذہب میں نہیں ملتا۔ 3۔ اولاد پیدا ہونے کے بعد ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی،بیٹی کو رحمت اور بیوی کو نفس ایمان کی امانت دار بنا دیا گیا۔یہ ہے دین اسلام کی روشن خیالی جو کسی اور مذہب میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔4۔فکر معاش کا سارا بوجھ اس عالمگیر مذہب نے مرد کے کاندھوں پر ڈال دیا اور عورت کو گھر کی ملکہ کا اعزاز دیا. 5۔ پیامبر اسلام ﷺ نے مدینہ میں اور صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اسلامی جنگوں کے دوران اقلیتوں سے اور قیدیوں سے جیسا حسن سلوک پیش کیا ایسی مثال تاقیامت ملنا ناممکن ہے۔5۔ دشمن پر فتح حاصل کرنے کے بعد بھی عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور اور ہرے بھرے درختوں کو نقصان پہنچانے سے منع کیا گیا۔6۔ مہر اور وراثت میں حق دلوا کر عورت کو محتاجی سے بچایا گیا۔7۔شادی کرنے کی صورت میں اگر کسی طور پر بھی نباہ نہ ہوسکے تو طلاق کا آپشن رکھا اور طلاق کے بعد نئے سرے سے زندگی کا آغاز کرنے اور دوبارہ شادی کرنے کو پروموٹ کیا۔8۔ بیوہ عورتوں کو بھی معمول کے مطابق زندگی گزارنے اور دوبارہ شادی کرنے کی اجازت دی گئی۔9۔عمل کرنا تو بہت دور کی بات صرف اچھا سوچنے پر بھی اجر دینے کا وعدہ کیا گیا۔جس روشن خیالی کا میں نے اوپر کی سطروں میں تذکرہ کیا ہے یہ ہماری ضرورت ہے ۔ یہ روشن خیالی مذہبی اقدار پر عمل اور اسلام کی معتدل عملی شکلوں کو اپنا کر حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ اس کی وجہ سے سماج افراط وتفریط اور بہت سارے نواہی سے بچ سکتا ہے ۔ اسے اپنا کر ایک مثالی سماج کی تشکیل کی جاسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبر روشن خیال تھے، جنہوں نے اللہ کی طرف سے عطا کردہ علم سے روشنی پھیلائی اور اپنے معاشروں کو تاریکی سے نکال کر ان میں نئی تہاذیب کی بنیاد رکھی۔ ہر پیغمبر کے دور میں اس نئی سوچ کو کچلنے کی سازشیں کی گئیں جن کے واقعات قرآن مجید میں مختلف جگہوں پر درج ہیں۔
لیکن مغرب نے روشن خیالی سے بالکل اسکا برعکس مراد لیا ہے ہروہ اقدار جسے اسلام نے دور جاہلیت کے اقدار کہکر مسترد کردیا تھا یورپ والے اسی کو جدید تہذیب و تمدن کی شکل میں پیش کررہے ہیں اور اسی کو روشن خیالی (Age of Enlightenment)کہا جارہے ہیں اس دور میں انہوں نے "عقل و عقیدہ کے مابین جنگ (War between Faith and Reason)" باآسانی شروع کردی ، جس کے باعث بالآخر مغربی معاشرے میں "عقل (Reason/Rationalism)" نے مسیحی عقائد (Beliefs/Faith) کو فکری شکست دی۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک یورپ میں مذہب محض ایک "روایت (Tradition)" بن کر رہ گیا ہے اور انکا مذہب سائنس اور عقلیت (Rationalism) بن گیااب فرنگی لوگ اسی کی پیروی کرتے ہیں۔ لیکن مسلمان ہمیشہ سے جدید عقلیات (Science) پر اپنے عقیدوں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں مثلاً تقدیر،عذاب،وحی،بعث بعد الموت،وجودِ جنّ و مَلَک،یوم الآخر وغیرہا کو برحق مانتے ہیں، جبکہ یورپ میں دیکھیں تو حالت بالکل اس کے اُلَٹ ہے۔
اگرچہ ایک تحریک کی صورت میں یہ سترہویں اور اٹھارویں صدی عیسوی میں وجود میں آئی، لیکن اس فکر (فلسفیانہ سوچ) کے قائل ہر دور میں کہیں نہ کہیں پیدا ہوتے رہے ہیں۔ اسلام کی رو سے یہ فکر بالکل باطل ہے، کیوں کہ اس کے مطابق "ایک انسان کا حق ہے کہ وہ کسی بھی ہستی (خواہ کوئی نبی یا دیگر برگزیدہ شخصیات) کے قول کا اقرار نہ کرے (اسے اپنا عقیدہ نہ بنائے) جب تک اس قول کو اپنی عقل سے پرکھ کر نہ دیکھ لے؛ پس اگر وہ بات انسان کی عقل کے موافق نہ ہو، تو وہ قول محض ایک جھوٹ ہے۔جیسے دسویں صدی عیسوی کا عقلیت پسند فلسفی ابو العلاء المعری، اپنے ایک مشہور عربی شعر میں نبی ﷺ کے امام مہدی علیہ السلام کی آمد کے متعلق تمام فرامین کو فقط اس لیے غلط قرار دیتا ہے کہ یہ امر (آمدِ امام آخر الزماں) اس کی انسانی عقل سے غیر موافق ہے۔
اسی طرح بر صغیر کے نام نہاد عقلیت پسند مسلم اسکالرز جیسے سر سید احمد خان، غلام احمد پرویز، امین احسن اصلاحی، جاوید احمد غامدی وغیرہ ہمیشہ سے ہی حضور ﷺ کی تمام احادیث کی تکذیب کرتے آئے ہیں کیونکہ ان میں سے کئی احادیث انسانی عقل سے بالاتر ہیں (امت کو ان کے متعلق محض عقیدہ رکھنے کا حکم ہے نہ کہ انہیں عقل سے ثابت کرنے کا)۔ اور ان نام نہاد اسکالرز کا کہنا ہے کہ اسلام کو سمجھنے کے لیے فقط قرآن ہی کافی ہے، جس کے امور کو بھی وہ اپنی مرضی کی تاویلات سے اپنی عقل کے موافق بنا کر اس کی تشریح کرتے ہیں۔ چنانچہ سر سید احمد خان نے میزان، پل صراط، اعمال نامے اور شفاعت کا بھی انکار کیا ہے کیونکہ یہ تمام امور انسانی عقل یا جدید سائنس سے ثابت نہیں ہوتے۔اس بناپر اگر روشن خیالی اسی کو کہا جائے تو اسکا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی کہتے ہیں صحیح بات یہ ہے کہ روشن خیالی کا لفظ میڈیا آج جن معنوں میں استعمال کر رہا ہے اس کی حیثیت بس ایک خوش کن نعرہ کی ہے اور اس کے پیچھے مغرب کا یہ ذہن کا م کر رہا ہے کہ ہر سمت سے جدیدت(modernism) اور اباحت پسندی(liberalism) کو را ہ دی جائے ، تعلیم ، لباس ، تہذیب وثقافت ، کلچر سب میں اس کے مظاہر کھلے آنکھوں دیکھے جا سکتے ہیں ۔اگر روشن خیالی یہی ہے کہ عورتیں غیر مردوں کی باہوں میں جھولتی رہیں ، آزادی کے نام پر انہیں رقاصہ بنا دیا جائے ، جسم سے کپڑے اتار لئے جائیں، خاندان کا وجود پا رہ پارہ ہو کر رہ جائے ، بوڑھے والدین کو اولڈ ہاؤس بھیج دیا جائے ، ماں بہنوں کی عزتیں محفوظ نہ رہیں اور جوع البطن کے جذبہ سے ملکوں کو تاراج کیا جائے ۔ ہم جنسی کو قانونی تحفظ حاصل ہو اور جسم فروشی کو پیشہ کا درجہ دیا جائے تو یہ روشن خیالی مغرب کو مبارک ہو اور میں سو بار یہ کہنے کو تیار ہوں کہ ایسی روشن خیالی سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں ہے اور اسلام اس پر سو بار لعنتیں بھیجتا ہے ۔یہ پوری تہذیب ہم پر ٹھونسنے کا جو معاملہ ہو رہا ہے شاعر ان اشعار میں یوں بیان کرتا ہے۔
میں نے دیکھا ہے کہ فیشن میں الجھ کر اکثر / تم نے اسلاف کی عزت کے کفن بیچ دیے
نئی تہذیب کی بے روح بہاروں کے عوض / اپنی تہذیب کے شاداب چمن بیچ دیے!
ڈاکٹر اسرار احمد فرماتے ہیں :"اصل تہذیب تو ہماری تھی مغرب کی کیا تہذیب ہے! وہاں تو تہذیب کا بیڑا غرق ہو چکا ہے آج مغرب ٹیکنالوجی میں اپنی برتری کی بنیاد پر کھڑا ہے، تہذیب کی بنیاد پر نہیں. ان کی تہذیب تو سنڈاس بن چکی ہے. جس ملک کا صدر یہ کہتا ہو کہ عنقریب ہماری قوم کی اکثریت حرام زادوں پر مشتمل ہو گی وہاں تہذیب کہاں رہی! اقبال کا کہنا غلط نہیں تھا کہ (ع) ’’تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی‘‘. ان کی تہذیب مر چکی ہے، البتہ ان کا تمدن ابھی کچھ کھڑا ہے، سیاسی نظام میں کچھ جان ہے . یہ ساری طاقت بھی ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر ہے، جس کی اقبال نے پیشین گوئی کی تھی کہ
دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش / تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پامردیٔ مؤمن پہ بھروسا / ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
یہ وہ درندے ہیں جن کی درندگی دنیا کے مختلف ممالک میں دیکھی جا رہی ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس معرکۂ روح و بدن میں ہم عملی طور پر کام کرتے ہوئے میدان سے سرفراز ہوکر نکلیں۔