حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تحریکِ بیداری امت مصطفیٰ شعبۂ قم المقدسہ کی جانب سے مؤسسہ بعثت میں افکارِ رہبرِ انقلابِ اسلامی پر ایک علمی نشست منعقد ہوئی؛ جس میں "نئی اسلامی تہذیب" کے مفہوم اور اہمیت پر روشنی ڈالی گئی۔
نشست کے خطیب نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ رہبرِ معظم کے مطابق تمدن نوین اسلامی (نئی اسلامی تہذیب) کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اصل تمدن کی تعریف اور اس کے اصطلاحی معنی سے آشنائی حاصل کریں، کہا کہ لہٰذا ہمیں اس کے اصطلاحی معنی اور مفہوم پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔
نشست کے خطیب کا کہنا تھا کہ تمدن ایک اجتماعی حقیقت و واقعیت (social phenomenon)کا نام ہے، جس میں اجتماعی روابط اور تعلقات اپنی عالی ترین سطح پر ہوتے ہیں، اور اس میں تمام انسانی ضروریات خواہ وہ مادی یا غیرمادی ضروریات ہوں کا منطقی راہ حل موجود ہوتا ہے۔ نیز ایک تمدن اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ تمام انسانی ضروریات کی راہ حل پیش کرسکے کہ اگر وہ ضروریات کو پورا نہ کرسکے اور ان کی منطقی راہ حل پیش نہ کرسکے تو ایسا تمدن وہ زیادہ عرصہ تک زمین کے اوپر باقی نہیں رہ سکے گا اور مشرقی کمیونسٹوں کے تمدن کی مانند فقط آثار قدیمہ میں ہی نظر آئے گا۔

خطیب نے مزید کہا کہ موجودہ عصر میں جنگیں اپنی روایتی حالت یعنی ملکی و سرحدی و تسلیحاتی سطح سے نکل کر تمدنی سطح پر آگئی ہیں، لہٰذا نئی اسلامی تہذیب کی مغربی تہذیب اور تمدن کے ساتھ پنجہ آزمائی مختلف سطح پر جاری ہے۔
خطیب نے اس امر پر بھی توجہ دلائی کہ آج کے دور میں کسی ملک یا معاشرے کو ہم مغربی تہذیب و تمدن کا جزء قرار دیں، یا اسلامی تمدن کا حصہ قرار دیں، اس کا معیار استکباری نظام کو قبول کرنا یا ضد استکبار ہونا ہے؛ جو بھی سیاسی نظام، ریاست اور معاشرہ استکباری نظام کا حصہ بن جاتا ہے اور استکباری نظام کو قبول کرلیتا ہے وہ مغربی تہذیب اور تمدن کا حصہ ہے اور اس کے پھیلاؤ میں کام کررہا ہے، اگرچہ وہ مذہبی لحاظ سے اسلام کے تشیع مکتب فکر سے ہی کیوں نہ تعلق رکھتا ہو اور اس کے برعکس اسلامی تمدن کا حصہ ہونا استکباری نظام کو مکمل طور پر رد کرنا اور اس کے خلاف حالت قیام میں ہونا ہے۔









آپ کا تبصرہ