حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قم المقدسہ میں افکارِ رہبرِ انقلابِ اسلامی پر علمی نشستوں کے انعقاد کے سلسلے کی پانچویں نشست مؤسسہ بعثت میں منعقد ہوئی؛ جس میں "تمدن نوین اسلامی" کا موضوع زیر بحث لایا گیا اور مقررین نے اصل تمدن" کی تعریف کو بیان کرنے کے بعد اس تمدن کا "نیا" ہونا اور "اسلامی" ہونے پر روشنی ڈالی۔
تمدن اسلامی ایک لمبی تاریخ رکھتا ہے اور رسول خدا کی زندگی میں ہی اس تمدن کی بنیاد ڈال دی گئی تھی، لیکن یہ تمدن بعض وجوہات کی بنیاد پر زوال کا شکار ہوا۔ آج اس عصر میں جب انسانیت کی ضروریات تبدیل ہوگئی ہیں اور انسان کے سامنے جدید اجتماعی اور انفرادی مسائل اور سوالات درپیش ہیں تو ایسے میں ہم اس تمدن اسلامی کو ایجاد و قائم کرنا چاہتے ہیں کہ جو عصر حاضر کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق قائم ہو۔
غرب کے پروپیگنڈوں کے برخلاف، جس نے بھرپور کوشش کی ہے کہ اسلام کو بھی تحریف شدہ مسیحیت کی مانند ایک قدیمی اور ارتجاعی دین کے طور پر پیش کرے، ہم جس تمدن اسلامی کو قائم کرنا چاہتے ہیں وہ تمام تر اصولوں پر محکم رہتے ہوئے زمانے کے تمام تقاضوں کے ساتھ مکمل طور پر ھم آہنگ اور موجودہ انسانیت کی ضروریات کا جواب واقع ہوگا۔
اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا کہ جیسے گزشتہ بعض نشستوں میں بھی بیان ہوا وہ یہ کہ ایک تمدن اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ تمام انسانی ضروریات کا راہ حل پیش کرے، اگر اسلامی تمدن کے پاس موجودہ انسانیت کے مسائل کا حل نہ ہو تو اس طرح کا تمدن قائم نہیں ہوسکے گا۔

مقررین نے اس بات پر تاکید کی کہ اس تمدن اسلامی کی بنیاد اسلامی جھان بینی اور آئیڈیالوجی ہے جس پر یہ تمدن قائم ہوتا ہے۔ یہ اسلامی (بنیادی ترین) نظریات بدن میں روح کی مانند ہوتے ہیں جس طرح سے خون مکمل بدن میں جریان رکھتا ہے، اسی طرح سے تمدن اسلامی کے تمام احکام اور اجزاء میں اسلامی جھان بینی اور آئیڈیالوجی جاری و ساری ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے اسلامی جھان بینی فوق العادہ اہمیت کے حامل ہے۔
یاد رہے مؤسسہ بعثت، قم المقدسہ میں افکارِ مقام معظم رہبری پر اس طرح کی مزید نشستیں منعقد کرنے کا عزم رکھتا ہے۔









آپ کا تبصرہ