تحریر: مولانا محمد لطیف مطہری کچوروی
خلاصہ
حوزہ نیوز ایجنسی। انسان کی دوسری خصوصیات کی طرح جنسی غریزے اور خواہشات نفسانی کو بھی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے جنسی تعلیم و تربیت کا مطلب جنسی غریزہ کی رشد اور نشوونما اس طرح سے کرنا ہے کہ عفت جنسی اور صحت جنسی دونوں حاصل ہو۔ دینی نقطہ نگاہ سےجنسی تعلیم و تربیت بلوغت سے قبل اور تقریبا انسان کی پیدائش سے ہی شروع ہوتی ہے۔ بچوں کی جنسی تعلیم و تربیت ،تعلیم و تربیت کا ایک اہم اور حساس حصہ ہے۔ کیونکہ یہ بچے کی مستقبل میں سعادت اور شقاوت میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔بچوں کی جنسی تربیت کر کے بچوں پر ہونے والے جنسی تشدد کا بڑی حدتک خاتمہ کرسکتاہے اور درندہ صفت افراد کو آسانی کے ساتھ کیفر کردار تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ والدین بچوں کی جنسی تربیت کرکے یہ شعور دیں کہ ان کے جسم کے کچھ ذاتی حصوں کو کوئی دوسرا ہاتھ نہیں لگا سکتا ہے۔ کسی بھی دست درازی کی صورت میں بچے کو اس سے نمٹنے کے طریقے سکھانا، ان میں بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ذہن میں پیدا ہونے والی خواہشات اور ان کو لگام دینے کے اسباب کی تعلیم،غیر شرعی طریقہ سے جنسی تعلقات کے دینی اور دنیوی نقصانات بھی مناسب عمر میں انہیں بتانا یہ سب درحقیقت تربیت جنسی ہے۔ اسلامی احکامات کے مطابق بچے کی جنسی تعلیم و تربیت اس کی زندگی کے تین اہم حصوں سے متعلق ہیں۔۱۔ پیدائش کے بعد اور ممیز ہونے سے پہلے{ صحیح اور غلط کی شناخت کا مرحلہ}۲۔ ممیز ہونے کے بعد اوربالغ ہونے سے پہلے۳۔بالغ ہونے کے بعد کا مرحلہ
متعدد قرآنی اور احادیثی شواہد کے مطابق والدین پر لازم ہے کہ وہ اس طرح کے تدابیر کا اہتمام کریں کہ ان کے بچے بالغ ہونے کے بعد مذہبی قوانین کے پابند ہوں اور شرعی احکامات کی مخالفت نہ کریں تا کہ ان کو آخرت کے عذاب کا سامنا کرنا نہ پڑے۔
جنسی تعلیم و تربیت کے مختلف طور و طریقے ہیں
۔۱۔ مستقیم طریقہ:اپنےبچوں کو ایک یاد دہانی کے بطور خاندان میں معاشرتی اور تعامل کا صحیح طریقہ سکھائیں ، خاندان میں مخالف جنس کے ساتھ تعلقات کی حد کیا ہے اور کس حد تک برقرار رکھنا ہے ۔
۲۔غیر مستقیم طریقہ:بالواسطہ طریقہ کار میں ، لڑکوں کے کمرے کو لڑکیوں سے علیحدہ کرنا جس کی دین اسلام میں سفارش کی گئی ہے۔ لہذا والدین اورمربی کو بچوں کی جنسی تعلیم و تربیت کے لئے براہ راست اور بالواسطہ طریقے استعمال کرنا چاہیے۔
مقدمہ
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔انسان کی خلقت کا مقصد معرفت اورقرب خداوندی حاصل کرنا ہے۔ اسلام دین تعلیم و تربیت ہے اسی لئے خداوند متعال نے انسان کی تربیت کا بندوبست انسان کی تخلیق سے پہلے فراہم کیا اور انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا اور اس کے اندر ایسی صلاحیت ودیعت کی کہ جس کے ذریعہ انسان اگر اپنے وجدان کی طرف توجہ کرے تو اس کا وجدان اسے رہنمائی کرے۔ خدا وند متعال نے صرف اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ عملی میدان میں بھی انسان کی تربیت کا سامان فراہم کرتے ہوئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انسان کامل ، مربی اور انبیاء بھیجے تاکہ وہ انسان کو اس کی فطرت کے مطابق تربیت کرے۔ قرآن کریم انبیاء الہی کی بعثت کےاہداف میں سے ایک انسان کی تعلیم و تربیت کو قراردیتے ہوئے فرماتا ہے : (هُوَ الَّذِى بَعَثَ فىِ الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِّنهْمْ يَتْلُواْ عَلَيهْمْ ءَايَاتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَ الحْكْمَة)۱ اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جوانہی میں سے تھا تاکہ وہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ،ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی کوشش یہی تھی کہ انسان کی اندرونی طاقت و استعداد مثبت پہلوؤں کی طرف گامزن ہو، اور وہ کمال اور سعادت کی بلندیاں طے کرے۔ قرآنِ کریم سورۂ آلِ عمران میں اِس نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرماتا ہے: (لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلیَ المُؤْمِنینَ إذْ بَعَثَ فیهِمْ رَسُولاً مِنْ أنْفُسِهِمْ یَتْلُوا عَلَیْهِمْ آیَاتِهِ وَ یُزَکِّیهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْکِتابَ وَ الْحِکْمَةَ وَ إنْ کَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُبِینٍ)۲ایمان والوں پر اللہ نے بڑا احسان کیا کہ اُن کے درمیان انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اِس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔امام خمینی رہ فرماتے ہیں: خدا کی طرف سے جتنے بھی انبیاء علیہم السلام تشریف لائےہیں وہ سب انسان کی تربیت اورانسان سازی کے لئے آئے ہیں۔ اسلامی تربیت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں انسان کی تمام ضرورتوں کو مد نظر رکھا گیا ہے خواہ مادی ہوں یا معنوی، جسمانی ہوں یا روحانی۔خداوند متعال نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوزا ہے جن میں سے ایک عظیم نعمت اولاد کی نعمت ہے۔ دین اسلام نے اس عظیم نعمت کے حوالے سے والدین کے اوپر کچھ ذمہ دایاں بھی عائد کی ہیں جن میں سے ایک اہم ذمہ داری اولاد کی صحیح تربیت کرنا ہے۔ بچے اس ننھے پودے کی مانند ہے جسے ہر قسم کی گرمی اور سردی سے محفوظ رکھ کر ایک تناور درخت کی شکل میں پروان چڑھا نا ہوتا ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تربیت میں کسی قسم کی بھی کوئی کوتاہی اورلاپرواہی نہ کریں۔ بچوں کی اچھی تربیت کے لئے والدین کو خصوصی توجہ دینی چاہیے تا کہ ایک باکردار، پرہیزگار اورباتقوی فرد معاشرہ کے سپرد کرے ۔اولاد کی تربیت کے بارے میں اسلام نے بہت زیادہ تاکید کی ہے اسی لئے بہت سے علماء اور
دانشوروں نے تعلیم و تربیت کے موضوع پر اپنی کتابوں میں اولاد کی تربیت پر قلم فرسائی کی ہے۔ بچوں کی تربیت کا ایک حصہ ان کی جنسی تربیت کرنا ہے ۔ بچوں کی جنسی تربیت کر کے بچوں پر ہونے والے جنسی تشدد کا بڑی حدتک خاتمہ کرسکتاہے اور درندہ صفت افراد کو آسانی کے ساتھ کیفر کردار تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ والدین بچوں کی جنسی تربیت کر کے بچوں کو یہ شعور دیں کہ ان کے جسم کے کچھ ذاتی حصوں کو کوئی دوسرا ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ کسی بھی دست درازی کی صورت میں بچے کو اس سے نمٹنے کے طریقے سکھانا، ان میں بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ذہن میں پیدا ہونے والی خواہشات اور ان کو لگام دینے کے اسباب کی تعلیم،غیر شرعی طریقہ سے جنسی تعلقات کے دینی اور دنیوی نقصانات بھی مناسب عمر میں انہیں بتانا یہ سب درحقیقت تربیت جنسی ہے۔
بچوں کا 5 یا 6 سال کی عمر سے بستر اور ممکن ہو تو کمرہ بھی الگ کر دینا چاہیے تاکہ ان کی معصومیت تا دیر قائم رہ سکے ۔آج کل بچوں کو الگ کمرہ، کمپیوٹر اور موبائل جیسی سہولیات دے کروالدین ان سے غافل ہو جاتے ہیں.جس کا نقصان بعد میں خود والدیں کو اٹھانا پڑھتا ہے۔بچوں پر غیر محسوس طریقہ سے نظر رکھنا چاہیے،انہیں اپنے کمرے کا دروازہ بند کر نے کی اجازت نہیں دینا چاہیے اسی طرح بچوں کے دوستوں اور بچیوں کی سہیلیوں پہ خاص نظر رکھیں تاکہ آپ کے علم میں ہو کہ آپکا بچہ یا بچی کا میل جول کس طرح کے لوگوں سے ہے، بچوں بچیوں کے دوستوں اور سہیلیوں پر بھی نظر رکھیں۔والدین بچوں کو ان کی غلطیوں پہ سر زنش کرتے ہوئے بھی با حیا اور مہذب الفاظ کا استعمال کریں ورنہ بچوں میں وقت سے پہلے بے باکی آ جاتی ہے جس کا خمیازہ والدین کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو نماز کی تاکید کریں اور ہر وقت پاکیزہ اور صاف ستھرا رہنے کی عادت ڈالیں. کیونکہ جسم اور لباس کی پاکیزگی ذہن اور روح پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہے،بچیوں کو سیدھا اور لڑکوں کو الٹا لیٹنے سے منع کریں۔
بچوں کے کمرے اور چیزوں کو غیر محسوس طور پر چیک کرتے رہیں،والدین کے علم میں ہونا چاہیے کہ بچوں کی الماری کس قسم کی چیزوں سے پر ہے۔ والدین اپنے بچوں کی تربیت نہیں کریں گے تو وہ باہر سے سیکھیں گے جس میں زیادہ ترحصہ غلط اور من گھڑت ہوگا جس سے ان کے اذہان آلودہ ہوں گے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو عفت و پاکدامنی کی اہمیت اور پردےکے بارے میں تعلیم دیں ۔
تربیت کی لغوی و اصطلاحی تعریف:
لغت کی کتابوں میں لفظ" تربیت" کے لیے تین اصل اور ریشہ ذکر ہوئے ہیں۔ الف:ربا،یربو زیادہ اور نشوونما پانےکے معنی میں ہے۔ ب: ربی، یربی پروان چڑھنا اور برتری کے معنی میں ہے۔ج: رب،یرب اصلاح کرنے اور سرپرستی کرنے کے معنی میں ہے۔صاحب مفردات کا کہنا ہے کہ "رب" مصدری معنی ٰ کے لحاظ سے کسی چیز کو حد کمال تک پہچانے ، پرورش اور پروان چڑھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
صاحب التحقيق کا کہنا ہے اس کا اصل معنی ٰ کسی چیز کو کمال کی طرف لے جانے ، نقائص کو تخلیہ اور تحلیہ کے ذریعےرفع کرنے کے معنی ٰ میں ہے۔ بنابر این اگر اس کا ريشه(اصل) "ربو" سے ہو تو اضافہ کرنا، رشد ، نمو اور موجبات رشد کو فراہم کرنے کے معنی ٰ میں ہےلیکن ا گر "ربب" سے ہو تو نظارت ، سرپرستي و رهبري اور کسی چیز کو کمال تک پہنچانے کے لئے پرورش کے معنی ٰ میں ہے۔
اسلامی علوم اوردینی کتابوں میں تربيت کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں :
1۔ قصد اورارادہ کے ساتھ کسی دوسرے افراد کی رشد کے بارے میں ہدایت کرنے کو تربیت کہا جاتا ہے۔
2۔ تعليم و تربيت سے مرادوہ فعاليت اور كوشش ہے کہ جس میں بعض افراد دوسرے افراد کی راہنمائی اور مدد کرتے ہیں تاکہ وہ بھی مختلف ابعاد میں پیشرفت کرسکے۔
3۔ تربيت، سعادت مطلوب تک پہنچنے کے لئے انسان کی اندرونی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کا نام ہے تاکہ دوسرے لوگ اپنی استعداد کو ظاہر کرےاور راہ سعادت کا انتخاب کرے۔
4۔ ہر انسان کی اندرونی استعداد کو بروئے کارلانے کے لئے زمینہ فراہم کرنا اور اس کے بالقوہ استعداد کو بالفعل میں تبدیل کرنے کے لئے مقدمہ اور زمینہ فراہم کرنے کا نام تربیت ہے۔
۴۔شہید مطہری لکھتے ہیں: تربیت انسان کی حقیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کا نام ہے۔ ایسی صلاحیتیں جو بالقوہ جانداروں ( انسان، حیوان، پودوں) میں موجود ہوں انہیں بالفعل پروان چڑھانے کو تربیت کہتے ہیں۔ اس بناء پر تربیت صرف جانداروں سے مختص ہے۔
۵۔تربیت سے مراد مربی کا متربی کےمختلف جہات میں سے کسی ایک جہت{ جیسے جسم، روح ،ذہن،اخلاق،عواطف یا رفتار وغیرہ} میں موجود بالقوۃ صلاحیتوں کو تدریجی طور بروئے کار لانایا متربی میں موجود غلط صفات اور رفتا رکی اصلاح کرنا تاکہ وہ کمالات انسانی تک پہنچ سکے۔
جنسی تربیت کی تعریف
جنسی تربیت سے مراد والدین یامربی کا بچے کی جنسی خواہشات کو صحیح سمت کی طرف رہنمائی کرنا اور اسے مختلف انحرافات سے بچانا تاکہ بچےبالغ ہونے کے بعد جنسی خواہشات کو پورا کرنے میں انحرافات کا شکار نہ ہو۔
جنسی تعلیم و تربیت کی اصطلاح میں جنسی لفظ کا استعمال بچے کی جنس{مذکر اور مونث} سے نہیں ہوتا بلکہ غالبا اس سے مراد جنسی غریزہ کی رشد اورنشوونما ہے ، اس طرح سے کہ بالغ ہونے کے بعد جنسی انحرافات سےدور رہے۔
اولاد کی جنسی تعلیم و تربیت کی ضرورت پر قرآنی دلائل
متعدد قرآنی دلائل کے مطابق والدین پر لازم ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی جنسی تعلیم و تربیت میں کوتاہی نہ کریں ۔اس سلسلے میں ہم تین قرآنی دلائل پیش کرنے کی کوشش کریں گے ۔
پہلی دلیل :آیہ وقایہ
يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ قُواْ أَنفُسَكمُ وَ أَهْلِيكمُ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَ الحْجَارَةُ عَلَيهْا مَلَئكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ۔۳ اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، اس پر تندخو اور سخت مزاج فرشتے مقرر ہیں جو اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم انہیں ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔
حفاظت کی دو قسمیں ہیں: بعض اوقات خطرے سے حفاظت براہ راست ہوتا ہے اور کبھی کبھی بالواسطہ انسان خطرے سے کسی کو بچاتا ہے۔خود خطرے سے بچانا انسان کے ختیار میں نہیں ہے لیکن اس خطرے کے جو اسباب اورعوامل ہیں وہ انسان کے دائرہ اختیار میں ہے۔
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ میں جانے کے جو اسباب و عوامل ہیں ان اسباب و عوامل سے بچاو۔ انسان صرف محرمات کو بجا لاکر جہنم میں نہیں جاسکتا بلکہ واجبات کو ادا نہ کر کے بھی وہ جہنم میں جا سکتا ہے۔بنابر ایں جہنم سے اپنے اہل و عیال کو بچانے سے مراد داجبات کی ادائیگی کے اسباب فراہم کرنا اسی طرح محرمات سے اجتناب کرنے کے اسباب و عوامل فراہم کرنا ہے۔
لہذا اس آیت کے مطابق والدین پر واجب ہے کہ وہ اپنے بچوں کو جنسی محرمات سے جتنا ہو سکے روک لیں اور جتنا ہو سکے اپنے بچوں کو بلوغت کے دوران اور اس کے بعد جنسی انحرافات سے دور رکھیں اور جتنا ہو سکے جنسی انحرافات کو کم کر دیں۔والدین اپنے اس ذمہ داری پر اس وقت کامیاب ہو نگے جب انہوں نےاپنے بچوں کے بالغ ہونے سے پہلے ہی اس اہم ذمہ داری کو{ جنسی تعلیم و تربیت } نبھانے کی کوشش کی ہو۔
دوسری دلیل: نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا
وَ تَعَاوَنُواْ عَلىَ الْبرِّ وَ التَّقْوَى۔۴ اور (یاد رکھو) نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو ۔
اس آیت میں لفظ "تعاونوا" جو امر کا صیغہ ہے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔تاہم کچھ شواہد کے مطابق یہاں وجوب کے معنی میں نہیں آیا ہے ۔کیونکہ دوسروں کی کسی قسم کی بھی مدد کرنا خاص طور پر نیک اعمال اور تقویٰ میں ان کے ساتھ شریک ہونا اوران کی مدد کرنا ایک مستحب عمل ہے ۔اور یہ بات واضح ہے کہ بچوں کی عفت اور بچوں کی جنسی تعلیم و تربیت میں مدد کرنا تقویٰ اور نیک کاموں میں مدد کرنے کے مصادیق میں سے ہیں بنابر ایں اس آیت کے مطابق والدین کے لئے مستحب ہے کہ وہ اپنے بچوں کی جنسی تعلیم و تربیت کا بند وبست کریں اور انہیں ہر قسم کی جنسی انحرافات سے بچائیں۔ لیکن دوسرے دلائل کے مطابق والدین کے اوپر یہ ذمہ داری واجب ہے کہ وہ اس اہم اور سنگین ذمہ داری کو بطور احسن انجام دیں۔
امام سجاد علیہ السلام رسالۃ الحقوق میں فرماتے ہیں: { وَ أَمَّا حَقُّ وَلَدِكَ فَتَعْلَمُ أَنَّہُ مِنْكَ وَ مُضَافٌ إِلَيْكَ فِي عَاجِلِ الدُّنْيَا بِخَيْرِہِ وَ شَرِّہِ وَ أَنَّكَ مَسْئُولٌ عَمَّا وُلِّيتَہُ مِنْ حُسْنِ الْأَدَبِ وَ الدَّلَالَةِ عَلَى رَبِّہِ وَ الْمَعُونَةِ لَہُ عَلَى طَاعَتِہِ فِيكَ وَ فِي نَفْسِہِ فَمُثَابٌ عَلَى ذَلِكَ وَ مُعَاقَبٌ فَاعْمَلْ فِي أَمْرِہِ عَمَلَ الْمُتَزَيِّنِ بِحُسْنِ أَثَرِہِ عَلَيْہِ فِي عَاجِلِ الدُّنْيَا الْمُعَذِّرِ إِلَى رَبِّہِ فِيمَا بَيْنَكَ وَ بَيْنَہُ بِحُسْنِ الْقِيَامِ عَلَيْہِ وَ الْأَخْذِ لَہُ مِنْہُ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ}۵
تمہارے اوپر بیٹے کا حق یہ ہے کہ تم یہ جان لو کہ وہ تمہارا ہی ہے دنیا میں تمہی سے وابستہ ہے اور اس کا خیرو شر بھی تمہاری ہی طرف منسوب ہوتا ہے اور یہ ذمہ داری تمہاری ہے کہ اسے ادب سکھاؤ، اس کے پروردگا کی طرف اس کی راہنمائی کرو اور اس کی اطاعت میں اس کی مدد کرو اگر تم اس ذمہ داری کو پورا کرو گے تو ثواب پاؤ گے اور اگر اس کی انجام دہی میں کوتاہی کروگے تو سزا پاؤ گے۔ پس اس کے لیے اس طرح نیک عمل کرو کہ اس کا حسن و جمال دنیا میں آشکار ہوجائے اور اس کی جو بہترین سرپرستی تم نے کی ہے اور جو نتیجہ تم نے حاصل کیا ہے وہ خدا کی بارگاہ میں تمہارے اور اس کے درمیان ایک عذر ہوجائے۔ لاقوۃ الا باللہ
علم حدیث کے ماہرین رسالۃ الحقوق کے سند کے تسلسل اور معتبر کتابوں میں تذکرہ ہونے کی بنا پر اس حدیث کو معتبر حدیثوں میں شمار کرتے ہیں۔۶ اس حدیث کو ابو حمزہ ثمالی نے امام سجادؑ سے نقل کی ہیں اور علم رجال کے شیعہ علماء ابو حمزہ ثمالی کو "شیعوں کی برگزیدہ شخصیت"، "ثقہ" اور "معتمد" سمجھتے ہیں۔۷سب سے قدیم حدیثی مآخذ جن میں یہ حدیث بطور کامل نقل ہوئی ہیں یہ ہیں: ابن شُعبہ حَرّانی (متوفی 381 ھ) کی کتاب تُحَفالعقول،۸ شیخ صدوق متوفی 382 ھ کی تین کتابیں خصال،۹ من لا یَحضُرُہُ الفقیہ۱۰اور اَمالی،۱۱۔مُستَدرَک الوسایل میں محدث نوری کے مطابق سید بن طاووس 589-664 ھ بھی اس حدیث کو اپنی کتاب فلاح السائل میں نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے شیخ کلینی کی کتاب رسائل الائمہ سے نقل کئے ہیں۔ البتہ یہ مطلب کتاب فلاح السائل کی شایع شدہ نسخے میں موجود نہیں؛ لیکن مستدرک الوسائل کی مصححین کہتے ہیں کہ یہ مطلب اس کتاب کے غیر مطبوع نسخے میں موجود ہے۔۱۲
لفظ {حق} وجوب پر دلالت کرتی ہے اگرچہ اس رسالہ میں بعض حقوق جو امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا ہے وہ مستحب حقوق پر مشتمل ہے لیکن اس عبارت{ انّکَ مسَؤولٌ} کے قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں وجوب کے معنی میں آیا ہے لہذا والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کی جنسی تربیت میں ان کی مدد کریں اور یہ بات واضح ہے کہ والدین کو اس کام کے لئے اپنے بچوں کی بلوغت سے پہلے ہی مختلف پروگرام اور اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
تیسری دلیل: حرام کاموں میں ایک دوسرے کی تعاون نہ کرنا
وَ لَا تَعَاوَنُواْ عَلىَ الْاثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اتَّقُواْ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ۔۱۳ اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ کا عذاب یقینا بہت سخت ہے۔
اس آیت مجیدہ میں حرام کاموں کے لئے ہر قسم کی تعاون ،مشارکت اور مدد کو حرام قراردیا ہے۔ {وَلَا تَعَاوَنُوا} یہ عبارت نہی کا جملہ ہے جو حرمت پر دلالت کرتی ہے۔{الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ} محرمات پر دلالت کرتی ہے اسی لئے اس آیہ کا ظہور حرمت پر ہی دلالت کرتا ہے۔
پہلی صورت میں کہا گیا کہ والدین ایسے طریقہ کار اپنائے جس سے وہ اپنی بچوں کی صحیح جنسی تربیت کرسکیں تا کہ وہ جنسی انحرافات اور محرمات سے بچ سکیں اوروہ اپنی جنسی خواہشات کو کنٹرول کر یں اور جائز طریقہ سے اپنے خواہشات کو پورا کریں ۔یہ دلیل والدین کو دوبارہ اس اہم ذمہ داری کی طرف آگاہ کر رہا ہے کہ اپنے بچوں کی جنسی تربیت کرنے کے بجائے خدا نخواستہ ایسا کام اورایسا زمینہ فراہم نہ کرے جس سے بچہ جنسی انحرافات کا شکار ہو کیونکہ والدین کے بعض رفتار ان کے بچوں کے گمراہ ہونےاور ان کے جنسی انحرافات کا شکار ہونے کا باعث بن سکتے ہیں۔اس لئے والدین گھر میں نہایت احتیاط کے ساتھ ہی ایک دوسرے کے ساتھ جنسی مسائل پر گفتگو کریں ۔
جنسی تربیت کا طریقہ کار
جنسی تربیت دو طریقوں سے، براہ راست اور بالواسطہ کی جاسکتی ہے۔براہ راست جنسی تربیت کا طریقہ یہ ہے کہ بچوں کو ایک یاد دہانی کے بطور خاندان میں معاشرتی اور تعامل کا صحیح طریقہ سکھائیں ، خاندان میں مخالف جنس کے ساتھ تعلقات کس حد برقرار رکھنا ہے ۔ خواتین کا لڑکیوں کے لئے رہنمائی کرنا اسی طرح مرد حضرات کا لڑکوں کے لئے رہنمائی کرنا۔ غیر مستقیم طریقہ سے جنسی تربیت کرنے سے مراد جس طرح دین اسلام نے اس بات کی سفارش کی ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے کمروں کو الگ کرنا۔۔۔ وغیرہ
امام رضا علیہ السلام اس سوال کےجواب میں کہ غیر محرم مردوں کے لئے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ عورتوں کے بالوں کو دیکھنا کیوں ممنوع ہیں؟ فرماتے ہیں: کیونکہ یہ نگاہ اس کے جذبات کو ابھارنے کا سبب بنتا ہے جو بدعنوانی اور فساداخلاقی کی طرف رجحان پیدا کرتا ہے اور غیر مہذبانہ فعل کے ارتکاب کے لئے پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
لہذا ان طریقوں کو استعمال کرنا ضروری ہے جو خاندان میں حیا ءاورشائستگی کو برقرار رکھتاہے۔تمام لڑکیوں اور لڑکوں کو جو جنسی شناخت کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں براہ راست یا بالواسطہ جنسی تربیت کے ذریعہ رہنمائی کرنی چاہئے تا کہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ فساد اخلاقی اور تباہی میں مبتلا نہ ہوں۔ کیونکہ چھوٹے عمر میں بچوں کے پاس اپنی اصلاح کے حوالے سے ضروری معلومات نہیں ہوتےہیں۔لہذا والدین اورمربی حضرات کو چاہیے کہ وہ بچوں کی جنسی تربیت کے لئے دونوں طریقہ کار سے استفادہ کریں۔
حوالہ جات:
۱۔ جمعہ،۲۔
۲۔ آل عمران،۱۶۴۔
۳۔تحریم،۶
۴۔ مائدہ،۲۔
۵۔مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل , ج 15 , ص 168
۶۔حسینی جلالی، سید محمد رضا، جہاد امام سجاد، ترجمہ موسی دانش، ص۲۹۳،مشہد، بنیاد پژوہشہای اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۲ش۔
۷۔نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی،ص۱۱۵، قم، جامعہ مدرسین، چاپ ششم، ۱۳۶۵ش۔
۸۔ ابن شعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول عن آل الرسول، تحقیق علی اکبر غفاری، ص۲۵۵،قم، جامعہ مدرسین، چاپ دوم، ۱۴۰۴ھ۔
۹۔ صدوق، محمد بن علی،الخصال، تحقیق علی اکبر غفاری،ج۲، ص۵۶۴، قم، جامعہ مدرسین، چاپ اول، ۱۳۶۲ش۔
۱۰۔صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، تحقیق علی اکبر غفاری،ج۲، ص۶۱۸تا۶۲۵، قم، جامعہ مدرسین، چاپ دوم، ۱۴۱۳ھ۔
۱۱۔صدوق، محمد بن علی، الامالی،ص۳۶۸تا۳۷۵، تہران، کتابچی، چاپ ششم، ۱۳۷۶ش۔
۱۲۔محدث نورى، حسين بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام، چاپ اول، ۱۴۰۸ھ۔
۱۳۔مائدہ،۲۔