۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
تربیت اولاد

حوزہ/ اولاد کو نماز سکھانا والدین کے اوپر لازم ہے اور  ان کو اپنی اس اہم ذمہ داری کو بچوں کے بالغ ہونے سے پہلے انجام دینا چاہیے۔بچوں کے  عمر اور جسمانی شرائط کے مطابق انہیں نماز اور دیگر واجب عبادات کی تعلیم دیں اور انہیں عبادت الہی سے مانوس کریں تاکہ  وہ بالغ ہونے کے بعد پورے ذوق و شوق کے ساتھ خالق الہی کے سامنے  راز و نیاز کرے اور عبادت الہی بجا  لاتے رہے ۔

تحریر: مولانا محمد لطیف مطہری کچوروی

حوزہ نیوز ایجنسیخالق حقیقی کے ساتھ ارتباط پیدا کرنا انسان کی فطری ضروریات میں سے ایک ہے۔تمام ادیان اپنے حساب سے خاص مناسک اور عبادات بجا لاتے ہیں۔طول تاریخ میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنے پیروکاروں کو عبادات اور مناسک بجا لانے کاطریقہ کارسکھائے تاکہ وہ خدا وند متعال کی بندگی کر سکیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق بچوں کی تعلیم و تربیت خاص طور پر عبادات کے میدان میں ان کی تربیت کرنا والدین پر فرض ہے۔اس مقالہ میں ہم والدین پراولاد کی نسبت سے جو شرعی ذمہ داری عائد ہیں اس کا اسلامی منابع سے استنباطی طریقہ سے حکم بیان کرنے اوران سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کرینگے کہ بنیادی طور پر ، کیا والدین پربچوں کو نماز کی تعلیم و تربیت دینا واجب ہیں ؟کیا یہ حکم واجب ہے یا مستحب؟ نماز کی تعلیم کب اورکس عمر میں دینا چاہئے۔ اگر بچوں کو نماز کی تعلیم و تربیت دیناوالدین کی شرعی ذمہ دار ہے تو اس کے دلائل کیا ہیں؟ کیا والدین پر لازم ہیں کہ وہ
براہ راست خود اس ذمہ داری کو نبھا ئے یا کسی اور کے ذریعہ سے بھی وہ اس عمل کو انجام دے سکتا ہے؟اسلامی منابع کے مطابق واجب عبادات کی تعلیم و تربیت والدین پر واجب اوراسی طرح مستحب عبادات اوراعمال کی تعلیم و تربیت مستحب ہیں۔ والدین پر بچوں کو نماز پڑھانے کی ذمہ داری بچوں کی بلوغت سے پہلے شروع ہو جاتی ہے اور یہ حکم، واجب توصلی اور کفائی ہے۔

دلیل: بچوں کو نماز سکھانے سے مربوط روایات

ایک اوردلیل جو والدین کی ذمہ داری کو بہتر انداز میں بیان کر تی ہے کہ والدین اپنے بچوں کو نماز سکھائیں وہ ان روایات کا مجموعہ ہے جن میں بچوں کے نماز کے حوالے سے دستور موجود ہے۔
ان روایات کی جانچ پڑتال میں ، دو نکات پر غور کیا جانا چاہیے:
1- اس بات پر توجہ دینا ضروری ہے کہ ان روایات میں بچوں کو نماز سکھانے کی کیا عمر بیان ہوئی ہے۔
2- والدین پر اپنے بچوں کو نماز کی تعلیم دینے کا جو فریضہ ہے اس کی دلالت کے لئے کون سے الفاظ کا انتخاب کیا گیا ہے۔
ابتدائی طور پر ان روایات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض روایات میں والدین کو یہ حکم ہوا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو خاص عمر میں پہنچنے کے بعد نماز کی تعلیم دے اورانہیں نماز سے آشنا کر دے اسی طرح مخصوص عمر میں پہنچنے کے بعد نماز پڑھنے کے لئے دستور دے اور خاص عمر کے حصہ میں نماز کے بارے میں مواخذہ کرے۔اسی طرح بعض روایات میں بچوں پر نماز واجب ہونے کا وقت بتایا گیا ہے۔لہذا یہاں یہ دیکھنا ہے کہ اس قسم کے روایات کس طرح نماز کی تعلیم پر دلالت کرتا ہے؟
واضح رہے کہ نماز کے بارے میں حکم دینا ، اور ان کو مواخذہ کرنا دلالت التزامی کے مطابق نماز کی تعلیم کے جواز یا وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ اسی طرح وہ روایات جن میں بچوں پر نماز واجب ہونے کا حکم بیان ہوا ہے وہ بھی التزاما یا تضمنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ والدین کے اوپر بچوں کی عبادی تربیت کی جو ذمہ داری ہے {خاص طور پر نماز سکھانے کی ذمہ داری} وہ بچوں کےبچپن سے شروع ہوجاتی ہے ۔
اس وضاحت کے ساتھ ، ان روایات کو دو محور میں درجہ بندی کیا گیا ہے:
۱۔وہ روایات جن میں نمازسکھانے کا وقت بیان ہوا ہے۔
۲۔وہ روایت جن میں والدین کی یہ ذمہ داری بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نماز کی تعلیم دے۔
وہ روایات جن میں نمازسکھانے کا وقت بیان ہوئی ہے۔
ان روایات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں نماز کی تعلیم شروع کرنے کا وقت چھ سال، سات سال ، آٹھ سال، دس سال بیان ہوا ہے یہاں تک کہ چھ سال سے پہلے کا بھی ذکر موجود ہے۔اہل سنت سے نقل شدہ روایات جو معتبر نہیں ہے بتایا گیا ہے کہ جب بچے دائیں اور بائیں سمت کو درک کر لیں اسے نماز کا حکم دیں۔(عن ابن عمر: إذا عرف الغلام یمینه من شماله فمروه بالصلاة)۱ (رسول الله: لما سئل عن الصبی متی یصلی؟ اذا عرف یمینه عن شماله فمروه بالصلاة)۲
ایک اور روایت میں رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب بچے بولنا شروع کریں تو انہیں لاالہ الا اللہ سکھائیں اور جب ان کے دودھ کےدانت گر جائے تو انہیں نماز کا حکم دیں۔(اذا افصح اولادکم فعلموهم لا اله الا الله ثم لا تبالوا متی ماتوا و اذا اثغروا فمروهم بالصلاه)۳
روایات کی اسی طبقہ بندی کو سامنے رکھتے ہوئے ہم ان روایات کی سندی اعتبار سےجانچ پڑتال کریں گے۔
چھ سال کی عمر میں نماز سکھانا
بعض روایات کے مطابق بچوں کے لئے چھ سال کی عمر سے نماز پڑھنا شروع کرنا چاہئے ۔لہذا از حیث مقدمہ والدین کے اوپر واجب نماز کی تعلیم واجب اور مستحب نماز کی تعلیم مستحب ہوگی۔
محمد بن مسلم کی روایت:
(وَ عَنْهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ صَفْوَانَ عَنِ الْعَلَاءِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَحَدِهِمَا (علیهما السلام) فِي الصَّبِيِّ مَتَى يُصَلِّي‌ فَقَالَ إِذَا عَقَلَ الصَّلَاةَ- قُلْتُ مَتَى يَعْقِلُ الصَّلَاةَ وَ تَجِبُ عَلَيْهِ قَالَ لِسِتِّ سِنِينَ)۴
امام باقر یا صادق علیہما السلام سے پوچھا گیا کہ بچہ کس عمر میں نماز پڑھنا شروع کرے؟ آپ نےفرمایا: جب وہ نماز کو سمجھنا شروع کرے۔ راوی نے پھر پوچھا: کس عمر میں بچے نماز کو سمجھ سکتے ہیں اور کب ان پر نماز واجب ہوتا ہے؟ فرمایا: چھ سال کی عمر میں۔
زرارہ کی روایت:
(..........فَقَالَ إِذَا عَقَلَ الصَّلَاةَ وَ كَانَ ابْنَ سِتِّ سِنِينَ الْحَدِيثَ)۵
امام صادق علیہ السلام کا ایک بچہ فوت ہوا۔ جنازہ کے بعد زرارہ نے امام سےپوچھا کہ کس عمر میں بچے پر نماز فرض ہوتاہے ، امام (ع) نے فرمایا:جب اسے نماز سمجھ میں آنا شروع ہو جائے اور یہ چھ سال کی عمر میں ہوتا ہے۔
انہیں مضامین پر مشتمل اور بھی روایات موجود ہیں لیکن سند کے لحاظ سے معتبر نہیں ہے۔۶

سات سال کی عمر میں نماز سکھانا
بعض دوسری احادیث میں سات سال کو نماز کے لیے مواخذہ اور سرزنش کرنے کا عمر بیان کیا ہے لہذا از باب مقدمہ نماز کی تعلیم و تربیت کا وقت سات سال سے پہلے ہوگا۔
معاویہ ابن وہب کی روایت:
(معاوية بن وهب، قال سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع فِي كَمْ يُؤْخَذُ الصَّبِيُ‌ بِالصَّلَاةِ فَقَالَ «فِيمَا بَيْنَ سَبْعِ سِنِينَ وَ سِتِّ سِنِينَ ......)۷
امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ بچہ کوکس عمر میں نماز کی وجہ سے ملامت اور مواخذہ کیا جاسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: چھ اورسات سال کے درمیان۔
حلبی کی روایت:
(عَلِيٌّ عَنْ أَبِيهِ عَنِ اِبْنِ أَبِي عُمَيْرٍ عَنْ حَمَّادٍ عَنِ اَلْحَلَبِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَنْ أَبِيهِ عَلَيْهِمَا اَلسَّلاَمُ قَالَ: إِنَّا نَأْمُرُ صِبْيَانَنَا بِالصَّلاَةِ إِذَا كَانُوا بَنِي خَمْسِ سِنِينَ فَمُرُوا صِبْيَانَكُمْ بِالصَّلاَةِ إِذَا كَانُوا بَنِي سَبْعِ سِنِينَ وَ نَحْنُ نَأْمُرُ صِبْيَانَنَا بِالصَّوْمِ إِذَا كَانُوا بَنِي سَبْعِ سِنِينَ بِمَا أَطَاقُوا مِنْ صِيَامِ اَلْيَوْمِ إِنْ كَانَ إِلَى نِصْفِ اَلنَّهَارِ أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ أَوْ أَقَلَّ فَإِذَا غَلَبَهُمُ اَلْعَطَشُ وَ اَلْغَرَثُ أَفْطَرُوا حَتَّى يَتَعَوَّدُوا اَلصَّوْمَ وَ يُطِيقُوهُ فَمُرُوا صِبْيَانَكُمْ إِذَا كَانُوا بَنِي تِسْعِ سِنِينَ بِالصَّوْمِ مَا اِسْتَطَاعُوا مِنْ صِيَامِ اَلْيَوْمِ فَإِذَا غَلَبَهُمُ اَلْعَطَشُ أَفْطَرُوا)۸
امام صادق علیہ السلام امام باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ہم اپنے بچوں کو پانچ سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دیتے ہیں لیکن تم لوگ اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے کا حکم دو۔ ہم اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں روزہ رکھنے کا حکم دیتے ہیں جتنا وہ برداشت کر سکے نصف روز یا اس سے کمتر و بیشتر اور جب انہیں پیاس اور بھوک لگنا شروع ہو جائے تو وہ روزہ افطار کرتے ہیں اس طرح ان کو روزہ رکھنے اور برداشت کرنے کی عادت ہولیکن تم لوگ اپنے بچوں کو نو سال کی عمر میں روزہ رکھنے کا حکم دو اور جب انہیں پیاس اور بھوک لگنا شروع ہو جائے تو وہ افطار کرسکتے ہیں۔
اس روایت میں امام علیہ السلام نے دو مرتبہ لفظ (مروا) استفادہ کیا ہے ۔یہ لفظ امر کا صیغہ ہے جو وجوب پر دلالت کرتا ہے۔لہذا از باب مقدمہ، بچوں کو نماز کی تعلیم دینا واجب ہے۔دوسرے الفاظ میں اگرچہ نابالغ فرد پر سات سال کی عمر میں نماز پڑھنا اور نو سال کی عمر میں روزہ رکھنا مستحب ہے لیکن والدین کے اوپر واجب ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نماز پڑھنے اورروزہ رکھنے کے لئے آمادہ کریں تاکہ بالغ ہونے کے بعد بغیر کسی مشکل کے وہ نماز پڑح سکیں اورروزہ رکھ سکیں۔
جیسا کہ اس روایت میں بیان ہوا کہ بچوں کو نماز اور روزہ رکھنے کا حکم دینے کا فلسفہ ان کو عبادات انجام دینے کے لئے عادت کروانا ہے ۔ لہذا فقظ بچوں کو حکم اوردستور دینے میں کوئی موضوعیت نہیں ہے ۔والدین عبادی تربیت کے لئے دیگر روش اورطریقوں سے بھی مدد لے سکتے ہیں جیسے تشویق ، موعظہ۔۔۔۔ وغیرہ۔
احمد بزنطی کی روایت:
(مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ بِإِسْنَادِهِ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ عَنِ الرِّضَا ع قَالَ: «يُؤْخَذُ الْغُلَامُ بِالصَّلَاةِ وَ هُوَ ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ وَ لَا تُغَطِّي الْمَرْأَةُ شَعْرَهَا مِنْهُ حَتَّى يَحْتَلِمَ)۹
امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کے حوالے سے موخذاہ کرنا چاہیےلیکن نامحرم خواتین کے لئے لازم نہیں ہے کہ وہ اپنے بالوں کو اس عمر کے بچوں سے چھپا لیں یہاں تک کہ یہ افراد بالغ ہو جائیں۔ اس قسم کے مضامین بعض ضعیف السند روایات کے علاوہ اہل سنت کے راویات میں بھی موجود ہیں۔

آٹھ سال کی عمر میں نماز سکھانا
(وَ فِي الْخِصَالِ بِإِسْنَادِهِ الْآتِي‌ عَنْ عَلِيٍّ ع فِي‌ حَدِيثِ الْأَرْبَعِمِائَةِ قَالَ: عَلِّمُوا صِبْيَانَكُمُ الصَّلَاةَ وَ خُذُوهُمْ بِهَا إِذَا بَلَغُوا ثَمَانِيَ سِنِينَ)۱۰
ایک روایت میں ( جو حدیث (اربعمائۃ )کے نام سے مشہور ہے جو رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کی تقریبا چار سو وصیتوں پر مشتمل ہے جسے آپ نے امام علی علیہ السلام سے کیا تھا اگرچہ سند کے اعتبار سے معتبر نہیں ہے) بچوں کی عباد ی تربیت اور نماز سکھانے کا عمر آٹھ سال بیان ہوئی ہے۔
امام علی علیہ السلام نے رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: (علموا صبيانكم الصلاة وخدوهم بها اذا بلغوا ثمانى سنين )۱۱
اپنے بچوں کو نماز پڑھنا سکھائیں اور نو سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے کی صورت میں ان کی سرزنش کریں!
بچوں کو دس سال کی عمر سے پہلے نماز سکھانا
بعض روایتوں کے مطابق بچوں کو نماز کا حکم دینے کی حد دس سال بیان ہوئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کو دس سال کی عمر سے پہلے ہی نمازسکھانا شروع کرنا چاہیے۔(مُرُوا صِبْيَانَكُمْ بِالصَّلَاةِ إِذَا كَانُوا أَبْنَاءَ عَشْرِ سِنِينَ)۱۲
اسی طرح ایک اور حدیث میں رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم فرماتےہیں: (عنه صلى الله عليه و آله :أدّبْ صِغارَ أهلِ بيتِكَ بلسانِكَ علَى الصَّلاةِ و الطَّهورِ ، فإذا بلَغوا عَشرَ سِنينَ فاضرِبْ و لا تُجاوِزْ ثلاثا )۱۳
اپنے بچوں کو نماز اور طہارت کی تربیت دیں اور جب وہ دس سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں نماز اورطہارت کے لیے مواخذہ اورسزا دیں ، لیکن تین دفعہ سے زیادہ نہ ماریں۔
بچوں کوبالغ ہونے سے پہلے نماز سکھانا۔
دوسری روایتوں کے مطابق بچوں کو نماز اورروزہ سکھانے کا وقت اس طرح سے بیان ہوا ہے کہ جب وہ جسمانی طور پر بالغ ہو جائیں اور نماز اور روزہ کو درک کرنا شروع کریں تب انہیں نماز اورروزے کی تعلیم دیں۔
علی ابن جعفر کی روایت:
(عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ الْعَلَوِيِّ عَنِ الْعَمْرَكِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَخِيهِ مُوسَى قَالَ (سَأَلْتُهُ عَنِ الْغُلَامِ مَتَى يَجِبُ عَلَيْهِ الصَّوْمُ وَ الصَّلَاةُ قَالَ إِذَا رَاهَقَ الْحُلُمَ وَ عَرَفَ الصَّلَاةَ وَ الصَّوْمَ)۱۴
امام کاظم علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ بچوں پرکس عمر میں نماز اورروزہ واجب ہوتا ہے ؟ آپ نے فرمایا: جب وہ بلوغ اوراحتلام کے نزدیک ہو جائے اورنماز اور روزہ کو درک کرنا شروع کریں۔یہ مضمون دیگر روایات کے ساتھ ساتھ اہل سنت کے منابع میں بھی نقل ہوا ہے ۔۱۵
یہاں تک یہ بات مشاہدہ ہوا کہ مذکورہ روایتوں میں سے بعض روایات سند کے لحاظ سے معتبر ہیں۔ان مستند روایات میں سے بعض کے مطابق بچوں کو نماز سکھانے کا عمر چھ سال، بعض کے مطابق سات سال اورآٹھ سال بیان ہوئی ہے۔اسی طرح بعض معتبر روایات (صحیح علی ابن جعفر) کے مطابق بچوں کو نماز اورروزہ وغیرہ سکھانے اور تربیتی اقدامات کے آغاز کا وقت متربی کے بالغ ہونے کے نزدیک کا زمانہ ہے۔
ترک نماز کی صورت میں بچوں کو تنبیہ کرنے کی ذمہ داری
بعض احادیث جو بچوں کو نماز کی عادت دہی کے لئے تنبیہ بدنی کے جواز پر دلالت کرتی ہے (اگرچہ سندی لحاظ سے معتبر نہیں ہے) جن میں بچوں کو نماز کے لئے امر کرنےکے لئے چھ سال کا عمر اور تنبیہ کے لئے سات سال کی عمر تجویز کی گئی ہے۔ (فَضْلُ اللَّهِ الرَّاوَنْدِی فِی نَوَادِرِهِ، بِإِسْنَادِهِ عَنْ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ آبَائِهِ قَالَ: قَالَ عَلِی قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: «مُرُوا صِبْیانَکُمْ بِالصَّلَاةِ إِذَا کَانُوا أَبْنَاءَ سِتِّ سِنِینَ وَ اضْرِبُوهُمْ إِذَا کَانُوا أَبْنَاءَ سَبْعِ سِنِینَ و فرقوا بینهم فی المضاجع اذا کانوا ابناء عشر سنین)۱۶
نیز دیگر روایات کے مطابق سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز کا حکم دینا چاہیے اور نو سال کی عمر میں نماز ترک کرنے کی صورت میں تنبیہ کرنا چاہیے۔(عوالي اللآلي : عن النبي ( صلّى الله عليه وآله ) قال : مروا صبيانكم بالصلاة إذا بلغوا سبعاً ، واضربوهم عليها إذا بلغوا تسعاً ، وفرّقوا بينهم في المضاجع إذا بلغوا عشراً )۱۷ اسی طرح ایک اور روایت کے مطابق دس سال کی عمر میں تنبیہ جائز ہے۔(عنه صلى الله عليه و آله :أدّبْ صِغارَ أهلِ بيتِكَ بلسانِكَ علَى الصَّلاةِ و الطَّهورِ ، فإذا بلَغوا عَشرَ سِنينَ فاضرِبْ و لا تُجاوِزْ ثلاثا )۱۸
ان روایات سے جو معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ سات سال کی عمر سے پہلے تنبیہ بدنی جائز نہیں ہے لیکن دس سال کی عمر میں بچوں کو نماز کا حکم دینا ،موخذاہ اور تنبیہ کرنا جائز ہے۔ اس سلسلے میں نماز کے لیے جسمانی سزا کے بارے میں فقہی حکم کا ذکر ضروری ہے۔ جسمانی سزا دیت کے وجوب کی حد تک نہ ہو اور جسمانی سزا کا جگہ سرخ اور سیاہ نہ ہو جائے ۔بعض فقہاء کے مطابق بچوں کو صرف پانچ سے چھ مرتبہ آرام سے مار سکتا ہے۔۱۹ا بعض کے مطابق متربی اور بچےکے لئے سزا مربی اورولی کے رائے پر منحصر ہے کہ بعض اوقات دس سے زیادہ کی ضرورت ہوتی ہے اور بعض اوقات دس سےکم کی ضرورت ہوتی ہے ۔لہذا مصلحت سے زیادہ تجاوز نہیں کر سکتے ہیں۔۲۰

بچپن میں نماز سکھانے والی روایات کا خلاصہ:
روایات کا خلاصہ کرتے ہوئے ، یہ کہنا چاہیے کہ صحیح محمد بن مسلم اور صحیح زرارہ کے مطابق ، چھ سال کی عمر میں بچوں کو نماز سکھانے کے لئے اقدامات کرنی چاہیے اسی طرح صحیح حلبی کے مطابق سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز کا حکم دینا چاہیے۔ یہ بات واضح ہے کہ اس سے پہلے نماز کی تربیت شروع کی جانی چاہیے۔
معاویہ ابن وہب اوراحمد بزنظی کی روایت کی روشنی میں چھ اورسات سال کی عمر میں نماز ترک کرنے کی صورت میں مواخذہ کر سکتے ہیں اسی طرح حدیث اربعمائۃ کے مطابق آٹھ سال کی عمر میں مواخذہ کر سکتے ہیں۔اور یہ بات واضح ہے کہ بچوں کو نماز ترک کرنے پر ڈانٹنے سے پہلے صحیح طریقہ سے نماز پڑھانا سکھانا چاہیے۔اگرچہ صحیح السند روایات میں جسمانی سزا کے بارے کچھ ذکر نہیں ہوا ہے لیکن بعض غیر مستند روایات کے مطابق جسمانی سزا کے لیے سال سات ، نو اور دس سال معین کیا گیا ہے۔ ان روایات یہ بات معلوم ہوتا ہے کہ سات سال کی عمر سے پہلے جسمانی سزا جائز نہیں ہے لیکن دس سال کی عمر میں جسمانی سزا ، مواخذہ اور نماز کے لئے امر کرناجائز ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ بات یقینی ہے کہ ان روایات میں جن عمروں کا ذکر کیا گیا ہے ان پر زور نہیں دیا جانا چاہیے۔کیونکہ ان تمام روایات میں ، عمر کا تداخل موجود ہے اور یقینی طور پر انفرادی ،ثقافتی اور جغرافیائی اختلافات ان کے عمر میں موثر ہیں اسی طرح لڑکیوں اور لڑکوں کی بلوغت کا زمانہ بھی مختلف ہے۔

دلیل: سیرہ معصومین علیہم السلام

انبیاء علیہم السلام ،رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور معصومین علیہم السلام کی سیرت میں قطعی طور پر جس چیز کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ افراد اپنےبچوں کی عبادی تربیت میں خاص کر بچوں کو نماز اورروزہ سے آشنا کرانے کے لئے اسی طرح خدا وند متعال کے ساتھ راز و نیاز کرنے کا صحیح طریقہ کارسکھانے کے لئے خاص توجہ دیتے تھے۔
اس دلیل کی جانچ پڑتال کے لئے کچھ نکات بیان کرتے ہیں:
۱۔ اس سیرت کے موجود ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
۲۔ ان حضرات کے اوپر جو الہی ذمہ داری عائدہے کہ وہ کس نوعیت کی ہے ہمیں ان کے درمیان فرق معلوم کرنا پڑے گا کیونکہ بعنوان امام یا نبی یا ایک باپ ہونے کے حوالے سے ان پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے ان میں فرق ہے۔ کیونکہ رسالت ،نبوت اور امامت کا جومشن اور فریضہ ہے اسے عام افراد اوران کے پیروکاروں پر عائد کرنے کے لئے قطعی اوریقینی دلائل فراہم کرنےکی ضرورت ہے ۔(کان یامر اهله) کی تعبیر اسی طرح (یا بنی) کہہ کر مخاطب ہونا یہ باپ بیٹے کے رشتہ کو ایک قسم کی تاکید کے ساتھ بیان کرتا ہے ۔ اسی طرح متون دینی خاص کر قرآنی آیات میں بر اساس اصالۃ الموضوعیہ یہ لفظ معنی میں دخالت رکھتا ہے۔نیز رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت علیہم السلام کی سیرت میں جو نقل ہوا ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے لہذا کچھ اعتماد کے ساتھ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سب یاکم از کم ان میں سے بعض سیرت باپ ہونے کے لحاظ سے ہیں اس لئے آسانی کے ساتھ قابل تعمیم ہے اوردوسرے افراد کے لئے بھی اسی سیرت کو مد نظر رکھتے ہوئے حکم دے سکتے ہیں۔ اگر کوئی اسے قبول نہ کریں تو بمناسبت حکم و موضوع یعنی حکم اور موضوع کے درمیان تعلق کی بنا پر یا تنقیح مناط کرتے ہوئے دوسرے افراد کے لئے بھی یہ حکم لاگو کر سکتے ہیں۔
نتیجہ یہ کہ اس سیرت میں جو اشکال ہے (کہ یہ سیرت بعنوان منصب امامت ہے یا نبوت یا بعنوان والد )وہ قابل حل ہے لیکن جس نکتہ کی طرف توجہ رکھناضر وری ہےوہ یہ ہے کہ سیرہ فقط جواز یعنی جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔لیکن وجوب پر دلالت کرنے کے لئے بہت سارے قرائن اورشواہد کی ضرورت ہے ۔لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں جس طرح دوسری دلیل میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا کہ والدین کے اوپر صرف بچوں کو واجب عبادات کی تعلیم دینا ضروری ہے لیکن والدین پر مستحب عبادات کی تعلیم دینا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے ۔

نتیجہ:

اس تحقیقی مقالہ کا نتیجہ اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں:
بچوں کو واجب عبادات کی تعلیم دینا والدین کے اوپر واجب ہے اسی طرح مستحب عبادات کی تعلیم دینا مستحب ہے۔اولاد کو نماز سکھانا والدین کے اوپر لازم ہے اور ان کو اپنی اس اہم ذمہ داری کو بچوں کے بالغ ہونے سے پہلے انجام دینا چاہیے۔بچوں کے عمر اور جسمانی شرائط کے مطابق انہیں نماز اور دیگر واجب عبادات کی تعلیم دیں اور انہیں عبادت الہی سے مانوس کریں تاکہ وہ بالغ ہونے کے بعد پورے ذوق و شوق کے ساتھ خالق الہی کے سامنے راز و نیاز کرے اور عبادت الہی بجا لاتے رہے ۔متعدد مستند روایات کے مطابق والدین کے اوپر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کو چھ یا سات سال کی عمر میں نماز کی تعلیم دیں۔ اسی طرح والدین پر فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نماز سکھانے کے لیے مختلف اقدامات اورطریقہ کار اپنائیں جیسے:نماز پڑھنے کے لئےزمینہ فراہم کریں، انہیں نماز کی تعلیم دیں، انہیں نماز کا حکم دیں ،انہیں مواخذہ کریں اور نماز ترک کرنے کی صورت میں سزا دیں وغیرہ۔ نیز والدین کو اس بات کی توجہ رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے لئے واجب اورمستحب عبادات میں رول ماڈل ہیں۔
تمام واجب اور غیر واجب فرائض جو والدین کے لئے بیان کی گئی ہے ان میں دونوں والدین شریک ہیں اور دونوں پر یہ ذمہ داری یکساں عائد ہیں۔ بچوں کو نماز کی تعلیم دینا والدین پر واجب کفائی ہیں اگر ان میں سے ایک اس ذمہ داری بطور احسن انجام دے تو دوسرے سے یہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بچوں کو نماز کی تعلیم دینا واجب توصلی ہے جس میں قصد قربت کی شرط لازم نہیں ہے۔ بنابرین اگر والدین اپنے بچوں کی عبادی تربیت کے لئے کسی مربی یا استاد کا انتخاب کریں جو اس ذمہ داری کو بطور احسن نبھا سکتا ہو تو یہ کافی ہے اوران سے یہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہےاگرچہ نفسیاتی طور پر والدین کی براہ راست بطور رول ماڈل تعلیم وتربیت کے اثرات ناقابل تردید ہیں۔اسی لئے بچوں کو نماز اوردیگر واجبات کی تعلیم دینے کے لئےکسی دوسرے فرد کے سپرد کرنے کے بجائے خود والدین اس ذمہ داری کو بطور احسن انجام دے سکتے ہیں تو وہ خود انجام دیں کیونکہ تربیتی اعتبار سے یہ زیادہ بہتر ہے۔

تربیتی نکات:

۱۔والدین پر واجب ہے کہ وہ اپنے اولاد کی عبادی تربیت کرے۔
۲۔ بچوں کے لئےمستحب اعمال کی تعلیم دینا اورانہیں اس چیز کی طرف ترغیب دلانا مستحب ہے۔
۳۔والدین پر بچوں کی عبادی تربیت ان کے بالغ ہونے سے پہلے ہی شروع ہو جاتی ہے تا کہ بالغ ہونے کے بعد وہ اپنی اختیار اور بڑےذوق و شوق کے ساتھ خالق حقیقی کے سامنے رازو نیاز کرے۔
۴۔ نماز اورروزہ کے احکام بچوں کو سکھانا والدین پر واجب ہے۔
۵۔ معتبر روایات کے مطابق بچوں کے لئے ۶یا۷ سال کی عمر میں نماز سکھانا چائیے۔اسی طرح معتبر روایات کے مطابق والدین پر واجب ہے کہ اپنے بیٹوں کو ۹ سال کی عمر میں روزہ کے بارے میں بتائیں۔
۶۔ والدین پر بچوں کی عبادی تربیت کرنا واجب عینی ہے لیکن اگر کوئی اوراس عمل کو انجام دے تو اس صورت میں والدین سے یہ شرعی ذمہ داری ساقط ہو جائے گی۔اس طرح والدین میں سے کسی ایک کے کامل طور پر اس فریضہ کو انجام دینے سے دوسرے فرد سے یہ ذمہ داری ساقط ہو جائے گی۔
۷۔ بچوں کے اندر نماز سے عشق اور محبت کا جذبہ پیدا کرےاور اپنے بچوں میں ایمان کو تقویت دے۔
۸۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے لئے دعا کریں۔
۹۔امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: اپنے بچوں کو جلد از جلد اسلامی احادیث سکھائیں اس سے قبل کہ مخالفین تم پر سبقت لے جاتے ہوئے اپنے غلط عقائد اور نظریات سے تمہارے بچوں کے دلوں کو پر کر دے۔
۱۰۔والدین گھروں میں اپنے بچوں کے ساتھ اس طرح سے پیش آجائے اورایسی تربیت کرے کہ اسے ایک راستگو اورسچا انسان بنا دے۔ جس بچے کو سچ بولنا سکھایا جاتا ہے وہ انصاف کرنا سیکھتا ہے۔
۱۱۔گناہ سے نفرت اوراس کی برائی کو بچوں کو سمجھائیں تاکہ وہ اس چیز سے دوررہیں۔
۱۲۔بچوں پر والدین کی نصیحت اس وقت اثر کرتا ہےجب والدین خود ان باتوں پر عمل کرتے ہوں۔اس بات کی طرف توجہ رکھنا چاہیے کہ بچوں کی تربیت اس طرح سے نہیں ہوتے جس طرح سے ہم چاہتے ہیں بلکہ بچوں کی تربیت اس طرح سے ہوتے ہیں جس طرح سے ہم ہیں ۔
۱۳۔بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز پڑھنے اور نو سال کی عمر میں روزہ رکھنے کا حکم دے۔
۱۴۔اپنے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دے۔
۱۵۔ والدین کے وظائف میں سے ایک وظیفہ اپنےاولاد کی تربیت اورانہیں واجبات کی تعلیم دینا ہے اور جو شخص ان وظائف پر عمل نہیں کرتا اسلام میں اس کی سخت مذمت ہوئی ہے۔
۱۶۔والدین عبادی میدان میں بھی اپنے اولاد کے لئے ایک بہترین نمونہ اورآئیڈیل بننے کی کوشش کریں۔

حوالہ جات
۱۔ طہ ۱۳۲۔
۲۔متقی ،ص ۱۸۳۔
۳۔طبرانی،ج۳،ص۲۳۵۔
۴۔تقی،ص۱۸۳
۵۔حر عاملی،ج4: 18.
۶۔کلینی،:208.
۷۔حر عاملی،ج4: 19 .نوری، ج3: 18.
۸۔حر عاملی،ج4: 18.طوسی،409.
۹۔ کلینی،اصول کافی،ج۳،ص۴۰۹۔
۱۰۔ حر عاملی،بحار الانوار،ج۴:۲۰۔وسائل الشيعة؛ ج‌21؛ ص460.
۱۱۔الخصال : ص 626 ح 10
۱۲۔وسائل الشيعه ، ج 3، ص 12.
۱۳۔ الجعفريات (الأشعثيات)؛ ص51.
۱۴۔ تنبيه الخواطر ،۲، ۱۵۵۔
۱۵۔وسائل الشيعة، الشيخ الحر العاملي، ج3، ص12، أبواب أعداد الفرائض، باب3، ح3، ط الإسلامية.
۱۶۔مجلسی،ج۸۵،متقی ۱۸۳۔
۱۷۔محدث نوری،مستدک الوسائل،ج2،ُ19.
۱۸۔ایضا.
۱۹۔ تنبيه الخواطر ،۲، ۱۵۵۔
۲۰۔گلپایگانی، مجمع المسائل ،ج3ص267.
۲۱۔خمینی ، روح اللہ ،تحریر الوسیله ،477.

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • آمین PK 20:15 - 2023/11/07
    0 0
    کیو