تحریر: حجۃ الاسلام محمد علی چنارانی
ترجمہ : حجۃ الاسلام فیروز علی بنارسی
حوزہ نیوز ایجنسی |
خدا وندعالم ارشاد فرماتا ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ ﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
(احزاب٢١)
'بیشک اللہ کے رسول میں تمہارے لئے اسوۂ حسنہ اور بہترین نمونۂ عمل موجود ہے ۔
پیغمبر اکرم ﷺ ہر دور کے انسانوں اور عالم بشریت کے لئے سب سے عظیم اور بہترین نمونۂ عمل ہیںکیونکہ آپ ۖ اپنے اقوال و ارشادات کے ذریعہ لوگوں کے مربیّ ورہنما ہونے سے پہلے اپنی سیرت اور طرز عمل سے بہترین مربیّ و رہنما ہیں ۔
آپ ۖ کی شخصیت صرف کسی خاص زمانہ، کسی خاص نسل ،کسی خاص قوم،کسی خاص مذہب اورکسی خاص علاقہ کے لئے نمو نہ نہیں ہے،بلکہ آپ ۖ عالمی پیمانہ پر اور ہمیشہ کے لئے تمام انسانوں اور ہر دور کے لئے نمونہ ہیں۔
یہاں پر آپ کی سیرت کے اہم پہلو کا تذکرہ مقصود ہے جس کا تعلق بچوں سے ہے اور بچوں کے ساتھ آپ کی سیرت اور برتاؤ کے چند نمونے پیش کئے جائیں گے ۔ اس امید کے ساتھ کہ آپ کی سیرت کا یہ گوشہ بھی ہمیں بچوں کی تربیت میں بہترین نمونۂ عمل ثابت ہوگا۔
۱۔بچے کو اہمیت دینا
دور حاضر میں بچوں کوبہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔اس بات پر حکومت اور قوم کے تعلیم یافتہ افراد کافی توجہ دے رہے ہیں۔ان سب کے باوجود پیغمبر اکرم ﷺ ۖ بچوں کی تربیت پرجتنی توجہ فرماتے تھے،اتنی توجہ آج کی دنیا بھی نہیں دے پا رہی ہے ۔
اگرچہ،کبھی کبھی متمدن اور ترقی یافتہ ممالک کے حکمراں یتیم خانوںاور نرسریوں میں جاکرایک دو گھنٹے بچوں کے ساتھ گزار تے ہیںاور ان میں سے بعض تو بچوں کو گود میں لیکرتصویریں بھی کھنچاتے ہیںاور ویڈیوفلم بناتے ہیں ،ان کے بارے میںمقا لات بھی لکھتے ہیں اور اس طرح بچوں کے تئیں اپنے احترام کولو گوں پر ظاہر کر تے ہیں۔
لیکن آج تک گلی اور بازار میں کسی شخص نے رسول اکرمﷺ ۖ کے مانندنہایت سادگی کے ساتھ بچوں کو گود میں لے کرپیار نہیں کیا۔ اس طرح آپ ۖاپنے اور ہر ایک کے بچوں سے خاص محبت کرتے تھے۔یہاں تک کہ کتابوں میں مرقوم ہے کہ :
وَالتَّلَطُّفُ بِالصِّبْیَانِ مِنْ عَادَةِالرَّسُولِ۔
(المحجۃالبیضاء ج٣،ص٣٦٦)
بچوں سے پیار ومحبت کرنا پیغمبر خداﷺ ۖکی عادت تھی ۔
ائمہ اطہار علیہم السلام نے بھی رسول اکرم ﷺ کی اسی سیرت کو اپناتے ہوئے بچوں کو کافی اہمیت دی ہے جس کے چند نمونے حسب ذیل ہیں :
بچوں سے سوال کرنا
حضرت علی ؈ ہمیشہ لوگوں کے سامنے اپنے بچوں سے علمی سوالات کر تے تھے اور بسا اوقات لوگوں کے سوالات کا جواب بھی انھیں سے دلوا تے تھے۔ایک دن حضرت علی ؈ نے اپنے فرزندامام حسن اور امام حسین علیہما السلام سے چند موضوعات کے بارے میںکچھ سوالات کئے چنانچہ ان میں سے ہر ایک نے مختصر لفظوں میں حکیمانہ جواب دئیے۔اس کے بعدحضرت علی ؈ نے بزم میں موجودحارث اعور نامی شخص سے مخاطب ہو کر فرمایا:
ایسی حکیمانہ باتیں اپنے بچوں کو بھی سیکھاؤ، کیونکہ اس سے ان کی عقل وفکر میں استحکام وبالیدگی پیدا ہوتی ہے۔
(بحارالانور ج٣٥،ص٣٥٠)
۲۔حسن معاشرت
بچے میں شخصیت پیدا کرنے کاایک بنیادی سبب اس کے ساتھ اچھا برتاؤبھی ہے۔رسول خدا ۖﷺنے مختصرلفظوں میں فرمایا اور اپنے پیروئوںکوآشکار طور پر اسے نافذ کرنے کاحکم دیا ہے:
'اپنے فرزندوں کا احترا م کرواور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔
(بحارالانوار ج١٠٤ص ٩٥،ح٤٤)
لہٰذاجو لوگ اپنے بچوں کی عزت دار وصاحب حیثیت بنانا چاہتے ہیں ،انھیںچاہئے کہ اپنے بچوںکواچھی تعلیم وتر بیت کے ساتھ رہنمائی کریں اور انھیں برے، ناپسند اور توہین آمیز سلوک سے پر ہیز کر یںکیو نکہ نا پسنداور برے طرز عمل کے ذریعہ بچوں کی ہر گز صحیح تربیت نہیں کی جا سکتی ۔
۳۔وعدہ وفا کرنا
بچوں سے کئے وعدوں کو وفا کرنا ان اسباب میں سے ایک ہے کہ جن کے ذریعہ بچے میںاعتماد پیدا کیا جاسکتا ہے اور یہ ان کی شخصیت کے نشو ونما میں کافی مؤثرثابت ہوتاہے۔ائمہ اطہار علیہم السلام نے اس سلسلہ میں بہت تاکید فرمائی ہے ۔ حضرت علی ؈ فرماتے ہیں:
جائزنہیں ہے کہ انسان سنجیدگی میں یا مذاق میں جھوٹ بولے۔جائز نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنے بچے سے وعدہ کرلے اور اسے پورا نہ کرے۔
(بحار الانور،ج٧٢،ص٢٩٥،امالی صدوق ص٢٥٢)
رسول خداﷺ ۖ نے فرما یا:
اگر تم میں سے کسی نے اپنے بچے سے کوئی وعدہ کیا ہےتو اسے پورا کرے اور وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہئے۔
(مستدرک الوسائل،ج٢،ص٦٢٦،)
۴۔بچے کو مشکلات سے آگاہ کرنا
اپنے بچوں، خاص کر بیٹوں کو صاحب شخصیت اور با حیثیت بنانے کا ایک سبب یہ بھی ہےکہ انھیں مشکلات سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ مستقبل میںمشکلات سے مقابلہ کرسکیں۔ بچوں کو عملی طور پر یہ سمجھنا چاہئے کہ کسی بھی چیز کو حاصل کرنے کے لئے جد و جہد اور زحمت و مشقت کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر کوئی بچہ مشکلات اور سختیوں سے آگاہ نہ ہوگا تووہ مستقبل میں زندگی کی طرح طرح کی مشکلات کے مقابلہ میں گھبرا جائے گا۔اسی لئے امام موسیٰ کاظم ؈ فرماتے ہیں:
بہتر یہی ہے کہ بچہ بچپنے میں ہی زندگی میں پیش آنے والی سختیوںاور مشکلات سے دچارہوںجودر حقیقت بعد کی زندگی کا کفارہ ہےتاکہ جوانی اور بوڑھاپے میں صبروبرد باری سے کام لے سکیں۔
(وسائل الشیعہ ج٥،ص١٢٦)
البتہ اس بات کی یاد دہانی کرا دینا ضروری ہے کہ بچوں کو مشکلات سے روشناس کرانا ان کی ناراضگی کا سبب نہیںبنناچاہئے۔یعنی بچے کے ذمہ کئے جانے والے کام اس کی طاقت و توانائی سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں،اس لئے بچے کی طاقت و توانائی کومد نظر رکھنا ضروری ہے۔
رسول خداﷺ ۖ نے اس سلسلہ میں چار اہم باتوں کی طرف متوجہ فرمایا ہے:
۱۔بچہ نے اپنی توان بھر جو کام انجام دیا ہے اسے قبول کرنا۔
۲۔جو کام بچے کی طاقت سے باہر ہے بلکہ اس کے لئے نا قا بل برداشت ہے اس کام کا اس سے مطالبہ نہ کرنا۔
۳۔بچے کونافرمانی اور سر کشی پر مجبور نہ کرنا۔
۴۔اس سے جھوٹ نہ بولنااور اس کے سامنے فضول اور احمقانہ کام انجام نہ دینا۔
(اصول کافی،ج٦،ص ٥٠)
۵۔بچوں کے کام کی قدر کرنا
رسول خداﷺ ۖ نے بچوں کی تربیت اور انھیں اہمیت دینے کے بارے میںاپنے ماننے والوں کو جوبھی حکم فرمایا ہے پہلے اس پر خود عمل کیا ہے۔اس سلسلہ میں آپ کی ایک سیرت یہ بھی تھی کہ آپ ۖبچوں کے کاموں کی قدر کرتے تھے۔جیسا کہ عمرو بن حریث کی روایت میں آیا ہے کہ ایک دن رسول خدا ﷺ عبداللہ ابن جعفرکے پاس سےگزرےابھی ان کا بپچنا تھا تو آنحضرت ۖ نے ان کے حق میں یہ دعا فرمائی:
خدا وندا! اس کی تجارت میں برکت عنایت فرما۔
(مجمع الزوائد،ج٩،ص٢٨٦)
۶۔بچوں کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا
رسول اکرمﷺ ۖکی یہ بھی سیرت تھی کہ کبھی آپ اپنے بچوں کی تعظیم کے لئے نماز کے سجدہ کو طول دیتے تھے یا لوگوں کے بچوں کی تعظیم کے لئے نماز کو جلدی تمام کرتے تھے اور ہر حال میں بچوں کاخاص خیال رکھتے تھے اور اس طرح عملی طور پرلوگوں کو بچوں کی تعظیم کرنے کا درس دیتے تھے۔
ایک دن پیغمبر اکرمﷺ تشریف فرما تھے کہ امام حسن اور امام حسین علیہما السلام داخل ہوئے۔آنحضرت ۖ ان کے احترام میںاپنی جگہ سے اٹھ کرانتظار میں کھڑے رہے۔چونکہ دونوںبچے اس وقت اچھی طرح چل نہیں پاتے تھےاس لئے آنے میں کچھ دیر لگ گئی۔ لہٰذا پیغمبر اکرم ﷺ ۖ نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا ۔دونوں بچوں کو گود میں لے لیا اور دوش مبارک پر سوار کر کے چلے اور فر مایا کہ میرے پیارے بیٹو!تمہاری کتنی اچھی سواری ہے اور تم کتنے اچھے سوار ہو۔
(بحارالانورج٤٣،ص٢٨٥ح٥١)
آنحضرت ۖحضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی تعظیم کے لئے بھی سراپا کھڑے ہوجایا کرتے تھے۔
(السیرۃالحلبیہ ج٣ص٤٨)
۷۔بچوں کے مستقبل کا خیال رکھنا
ایک دن حضرت امام حسن مجتبیٰ ؈ نے اپنے بچوں اور بھتیجوںکو اپنے پاس بلاکر فرمایا:
تم آج بچے ہو لیکن مستقبل میںمعاشرہ کی بڑی شخصیت ہوگے،لہٰذاعلم حاصل کرنے کی کوشش کرو،تم میں سے جو بھی علمی مطالب کو حفظ نہ کر سکے،وہ انھیں لکھ لے اوراپنی تحریروں کو اپنے گھرمیں محفوظ رکھے تاکہ ضرورت کے وقت ان سے استفادہ کرے۔
(بحارالانوارج٤٣،ص٢٥،ح٢٢)
ایک حدیث میں آیا ہےکہ ایک انصاری چند بچوں کوچھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگیا۔اس کے پاس تھوڑا سا سرمایہ تھاکہ جسے اس نے اپنی عمر کے آخری دنوں میں عبادت اور خدا کی خوشنودی کے لئے خرچ کر دیا۔جبکہ اسی زمانے میں اس کے بچے تنگدستی کی وجہ سے دوسروں سے مدد طلب کرتے تھے۔یہ ماجرا پیغمبر اکرم ﷺ کی خدمت میں بیان کیا گیا تو آپ نے سوال کیا:تم نے اس شخص کے جنازہ کو کیا کیا؟عرض کیا: ہم نے دفن کردیا۔
آنحضرت ۖ نے فرمایا:اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا تواسے مسلما نوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ دیتا!!کیونکہ اس نے اپنی دولت کوضائع کردیا اور اپنے بچوں کودوسروں کا محتاج بنا کرچھوڑ دیا ۔
(قرب الا سناد،ص٣١)
۸۔دینی احکام کی تعلیم دینا
بارگاہ خدا میںبچے کی عبادت،دعااور حمدوثنا کی مشق سے اس کا باطن روشن ہوتا ہے،اگر چہ ممکن ہے بچہ نماز کے الفاظ کے معنی نہ سمجھتاہو ،لیکن خدا وند عالم کی طرف توجہ،راز ونیاز،اس سے مدد کی درخواست،دعا اور التجا کو وہ بچپنے سی ہی سمجھتا ہے اور اپنے دل کوپروردگار اور اس کی لا محدودرحمت سے مطمئن بنا تا ہے اور اپنے اندرایک پناہ گاہ کا احساس کرتا ہے اور مشکلات وحوادث میں اپنے دل کو تسکین دیتا ہے،چنانچہ خدا وند عالم فرماتا ہے:
الذین آمنوا وتطمٔن قلو بھم بذکرا ﷲ الا بذکراﷲتطمئن القلوب۔
(سورۂ رعد، آیت۲۸)
یہ وہ لوگ ہیںجو ایمان لائے ہیں اور ان کے دلوں کویاد خدا سے اطمینان حاصل ہو تا ہے اور آگاہ ہو جائوکہ اطمینان یاد خدا سے ہی حاصل ہو تا ہے۔
بچوں کوابتدا سے ہی مومن اور خدا پرست بنانے کی تربیت کے لئے ضروری ہے کہ ان کے جسم وروح ایمان کے لحاظ سے یکساں ہوں۔اسی لئے اسلام نے والدین پر ذمہ داری ڈالی ہے کہ اپنے بچوں کوخدا کی طرف متوجہ کریں ، انھیں خدا پرستی اور دین کی تعلیم دیں نیز انھیں نماز اور عبادت کی مشق کرائیں۔
رسول خداﷺ ۖ نے فرما یا: 'اپنے بچوں کوسات سال کی عمر میںنمازپڑھنے کا حکم دو۔
(مستدرک الوسائل ج١،ص١٧١)
معاویہ ابن وہب نے امام صادق ؈ سے دریافت کیاکہ ہم بچہ کو کس عمر میں نماز پڑھنے کے لئے کہیں؟ آپ نے فرمایا: چھ سے سات سال کی عمر میںانھیں نمازپڑھنے کے لئے آمادہ کرنا چاہئے۔
(وسائل الشیعہ، ج۲،ص۳)
امام محمدباقر؈ نے ایک دوسری روایت میں بچوں کی عمر کے مختلف دور میں اعتقادی تر بیت کے سلسلہ میں والدین کی ذمہ داریوں کو اس طرح بیان فر ما یا ہے:
'تین سال کی عمر میں بچہ کو کلمہ لا الہ الا اللہ سکھا ئیں،چار سال کی عمر میں محمدرسول اللہ سکھائیں،پانچ سال کی عمر میںاسے قبلہ کی طرف رخ کرنا سکھا ئیں اور اسے حکم دیں کہ سجدہ میں جائے،چھ سال کی عمر میںاسے مکمل طور پر رکوع و سجود سکھا ئیں اور سات سال کی عمر میںمنہ ہاتھ دھونا (وضو) اور نماز پڑھنا سکھائیں۔
(مکارم الاخلاق،طبرسی،ص۱۱۵)
والدین اور مربیّ کومعلوم ہوناچاہئے کہ مذہب ان کا سب سے بڑا معاون ومدد گار ہے،کیونکہ ایمان ایک روشن چراغ کے مانند ہے جو تاریک راہوں کو روشن کرتا ہے اور ضمیروں کو بیدار کرتا ہے اورجہاں کہیں انحراف ہوگا اسے بآسانی بچاکر سعادت کی طرف رہنمائی کرے گا ۔ lll